بدھ
2024-12-04
1:38 AM
Logged in as مہمان
Group "مہمان"
RSS
 
Read! the name of lord
 پڑھ اپنے رب کے نام سے
Home Sign Up Log In
مسجد الحرام کی تعمیر - آپ اس وقت فورم پر تشریف فرما ہیں »
[ Updated threads · New messages · Members · Forum rules · Search · RSS ]
  • Page 1 of 1
  • 1
مسجد الحرام کی تعمیر
lovelessDate: اتوار, 2012-01-29, 8:24 AM | Message # 1
Colonel
Group: ایڈ منسٹریٹر
Messages: 184
Status: آف لائن
مسجد الحرام کی تعمیر::

''مسجد الحرام '' کے لفظ سے پورا حرم بھی مراد ہوتا ہے ، اور کعبہ شریف کا احاطہ کرنے والی مسجد بھی ـ جاہلی دور میں اور شروع اسلام میں مسجد کی چار دیواری نہ تھی ، بلکہ مطاف کا حصہ چھوڑ کر لوگوں کے رہائشی مکانات شروع ہو جاتے تھے ، ان مکانات اور کعبہ کے بیچ کے حصہ کو جاہلی دور میں مسجد الحرام کے نام سے موسوم نہیں کیا جاتا تھا ، بلکہ یہ نام اسلام اور قرآن سے آیا ہے ، مسجد میں سایہ کے لئے معمولی چھپر کے علاوہ کوئی چھت بھی نہ تھی ـ نبی ﷺ نے جب حج کیا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعداد ایک لاکھ تھی ، ان میں سے کم سے کم ستر پچھتر ہزار لوگ آپ کے ساتھ طواف و نماز ادا کرتے تھے ، اس سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ رہائشی مکانات اور کعبہ کے درمیان اتنی گنجائش تھی کہ مذکورہ تعداد وہاں سما سکے ، اور اس سواری پر طواف کرنے والے کے لئے بھی جگہ ہو ـ

مسجد الحرام کی اہمیت کے پیش نظر ہر دور میں سلاطین و حکام نے اس کی تعمیر پر توجہ مبذول کی ، اور مؤرخین نے اس کی تفصیل قلم بند کی ، ڈاکٹر وصی ﷲ نے اس موضوع پر جو بحث کی ہے وہ تقریبا (28 ) صفحات پر پھیلی ہوئی ہے اور اس میں تمام ضروری تفاصیل آ گئی ہیں ـ
مسجد الحرام کی چار دیواری اور تعمیر کے سلسلہ میں پہلا نام::
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ہے ، انھوں نے 17 ھجری میں اس خدمت کو انجام دیا اور متصل مقامات کو خرید کر مسجد کی توسیع کی
دوسری تعمیر 26 ھجری میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے حکم سے ہوئی ـ
تیسری تعمیر 64 ھجری میں عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ نے کرائی ـ
عبد المالک بن مروان نے 75 ھجری میں تعمیر کروائی ـ
91 ھجریہ میں ولید بن عبدالملک کے حکم سے مسجد کی تعمیر عمل میں آئی ـ
137 ھجری تا 140 ھجری میں ابوجعفر منصور کی تعمیر ہوئی ـ
160 ھجری میں مہدی کی تعمیر و توسیع ہوئی اسی نے 167 ھجری میں بھی توسیع کا حکم دیا ـ
170 ھجری میں موسی الہادی کی تعمیر ہوئی ـ
271 ھجری میں معتمد علی اللہ احمد بن جعفر کی تعمیر ہوئی معتضد باللہ کے عہد میں 281 ھجری اور 284 ھجری کے مابین دارالندہ کو مسجد الحرام میں شامل کیا گیا ـ
المقتدر باللہ جعفر بن احمد کے عہد خلافت میں 306 ھجری میں باب ابراہیم کا اضافہ ہوا ـ
شیخ حسن باسلامہ کے مطابق مقتدر باللہ کے بعد 1354 ھجری تک مسجد الحرام میں کوئی توسیع نہیں ہوئی ـ البتہ اصلاح و ترمیم کا عمل جاری رہا ـ
803 ھجری ، 807 ھجری میں امیر بیسق الظاہری کی تعمیر عمل میں آئی ـ
سلطان قابیتائی 882 ھجری میں ، سلطان سلیمان نے 972 ھجری میں ، سلطان سلیم نے 979 ھجری میں اور سلطان مراد نے 980 ھجری میں اپنی اپنی تعمیر مکمل کی

اس کے بعد سعودی حکومت کی جانب سے توسیع و تعمیر کا سلسلہ شروع ہوا ـ اس مرحلہ کو مسجد حرام کی تعمیر و توسیع کا ایک عظیم مرحلہ مانا جاتا ہے ، اس میں قدیم عمارت کی اصلاح کے ساتھ ساتھ توسیع اور جدید تعمیر بھی عمل میں آئی ـ سعودی عہد کی تعمیر و توسیع کا سلسلہ سب سے پہلے شاہ عبد العزیز رحمہ اللہ کے حکم سے 1344 ھجری میں شروع ہوا ـ پھر 1370 ھجری میں سعودی توسیع کا بڑا مرحلہ سامنے آیا اور مختلف کاموں کی تکمیل ہوئی ـ دوسرا مرحلہ 1379 ھجری اور 1380 ھجری میں اور تیسرا مرحلہ 1382 ھجری میں شروع ہوا ـ توسیع کے بعد مسجد الحرام کی دونوں منزل کو شامل کر کے اس کا رقبہ (160168) میٹر مسطح ہے ـ ( تیسرا مرحلہ جو کہ ملک فہد بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے حکم سے 1412 ھجری میں مکمل ہوا ـ اور چوتھا مرحلہ میں مسجد الحرام کی نئی توسیع جاری ہے ـ)

مسجد الحرام میں آئمہ کے مقامات

ڈاکٹر وصی اللہ نے حرم میں آئمہ اربعہ کے علیحدہ چار مصلوں کا تذکرہ اپنے اظہار افسوس سے کیا ہے ، کیونکہ صحیح حدیث میں وارد ہے کہ جب فرض نماز کی اقامت ہو جائے تو دوسری کوئی نماز نہیں ـ لیکن حرم شریف میں یہ صورتحال تھی کہ کسی ایک فقہی مسلک کا امام نماز پڑھاتا تو دوسرے مسلک ماننے والے اس کے پیچھے نماز نہ پڑھتے ـ سعودی حکمران شاہ عبد العزیز آل سعود رحمہ اللہ تعالیٰ نے ان مصلوں کو ختم کر دیا ، اس لئے اب ان کا ذکر مسلمانوں کی ایک سابقہ غلطی کے طور پر ہی کیا جا سکتا ہے ، مزید بحث کی ضرورت نہیں ـ مصنف نے البتہ یہ جاننے کی کوشش کی ہے ان مصلوں کا قیام کب عمل میں آیا ؟ ـ

'' لکھتے ہیں کہ میں اس موضوع کی کتابوں مذکورہ سوال کا جواب نہیں پایا ـ قرائن کا سہارا لیا جائ تو پتہ چلتا ہے کہ 328 ھجری میں یہ مصلے موجود نہ تھے کیونکہ اندلسی عالم ابن عبدربہ کی وفات کا سال یہی ہے ، انہوں نے اپنے بیان میں مسجد الحرام کا ذکر کرتے ہوئے دروازے اور برآمد کا ذکر کیا ہے ـ لیکن مصلوں کا ذکر نہیں کیا ہے ـ (العقد الفرید 282/7) اتحاف لوری نامی کتاب میں 488 ھجری میں مالکی مصلی کا تذکرہ کیا ہے ـ (اتحاف الوری 487/2) ، ابن جبیر اندلسی نے بلاد الحرمین کا سفر جمادی الاولی 578 ھجری میں کیا تھا ، اس کے سفر نامے میں حرم کے موقع پر چاروں مصلوں کاذکر موجود ہے ـ (رحلہ ابن جبیر ص 70) ''

نماز کی حالت میں ستری کا حکم صحیح احادیث میں وارد ہے ـ حرم شریف میں اژدحام کے سبب اس پر عمل میں دشواری محسوس ہوتی ہے ، مصف نے اس مسئلہ کی تنقیح میں جو بحث کی ہے وہ پانچ صفحات پر پھیلی ہوئی ہے ، لکھتے ہیں کہ ابن حجر نے کثیر بن کثیر کی روایت کی جانب اشارہ کیا ہے جس میں سترہ کاذکر نہیں ، لیکن یہ روایت ضعیف ہے ، اگر یہ روایت صحیح بھی ہوتی تو اسے مجبوری کی حالت میں طواف کرنے والوں کے ساتھ خاص مانا جاتا ـ مختلف حدیثوں پر فنی بحث اور آئمہ کے اقوال کی توجیہ کے بعد مصنف لکھتے ہیں کہ صحیح احادیث کی بناء پر مکہ اور دوسری جگہوں میں سترہ لگانا میرے نزدیک راجح ہے ، پھر صحیح بخاری کی ایک حدیث ذکر کی ہے جس میں عبد اللہ بن ابی اونی کہتے ہیں رسول ﷺ نے عمرہ کیا ، بیت اللہ کا طواف کیا اور مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت نماز ادا کی ، آپ کے ساتھ کے لوگ آپ کے لئے سترہ بنائے ہوئے تھے ، ایک شخص نے سوال کیا کہ آپ کعبہ میں داخل ہوئے تھے ؟ راوی نے جواب دیا کہ نہیں ـ (صحیح البحاری 467/3)


ہماری جنگ تو خود سے تھی،ڈھال کیا رکھتے
فقیر لوگ تھے ،مال و منال کیا رکھتے
 
  • Page 1 of 1
  • 1
Search: