بدھ
2024-12-04
1:46 AM
Logged in as مہمان
Group "مہمان"
RSS
 
Read! the name of lord
 پڑھ اپنے رب کے نام سے
Home Sign Up Log In
حجَرِ اسود۔حجَر ۔ - آپ اس وقت فورم پر تشریف فرما ہیں »
[ Updated threads · New messages · Members · Forum rules · Search · RSS ]
  • Page 1 of 1
  • 1
حجَرِ اسود۔حجَر ۔
lovelessDate: اتوار, 2012-01-29, 8:29 AM | Message # 1
Colonel
Group: ایڈ منسٹریٹر
Messages: 184
Status: آف لائن
حجَرِ اسود
یہ نام اس سیاہ پتھر کا ہے جو باہر کی طرف سے کعبہ شریف کے جنوب مشرق حصہ میں چاندی کے ایک فریم میں نصب ہے ، یہیں سے طواف کا آغاز ہوتا ہے، زمین سے ڈیڑھ میٹر کی اونچائی پر یہ پتھر کعبہ کی دیوار میں نصب ہے ، حدیث میں اس پتھر کی بہت فضیلت وارد ہے ، مصنف نے کتاب کے چوتھے باب میں حجر اسود پ جو بحث کی ہیے اس کے بعض ذیلی عناوین یہ ہیں : - اس پتھر کے جنت سے اتارے جانے کی بابت روایات ، قیامت کے دن اس پتھر کی گواہی اور اسے بوسہ دینے کا اجر ، حجر اسوف بذات خود کوئی نفع یا نقصان نہیں پہنچا سکتا ، لوگوں کی سہولت کے خیال سے پتھر کا بوسہ چھوڑ دینا ، قرامطہ کا فتنہ ، چوتھی ، پانچویں اور چودھویں صدی میں حجر اسود کو پیش آنے والے بعض حوادث کا ذکر ـ

حجَر

حجر اصل میں اس دیوار کا نام ہے جو کعبہ شریف کے شمال میں نصف دائرہ میں موجود ہے ، اسے حطیم کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ـیہ کعبہ کا حصہ ہے ، اسی لئے اس کے باہر سے طواف کیا جاتاہے ـ ابراہیم علیہ السلام و اسماعیل علیہ السلام نے کعبہ کو جس رقبہ میں تعمیر کیا تھا قریش اپنی تعمیر میں اس میں کچھ کمی کر دی تھی ، اسی لئے حدیث میں نبی ﷺ نے فرمایا کہ اگر قریش کا شرک کا زمانہ قریب نہ ہوتا تو میں قریش کے چھوڑے ہوئے حصہ کو کعبہ میں داخل کر کے اسے براہیمی بنیادوں پر تعمیر کردیتا ( صحیح مسلم 971/2) ، مصنف نے اس باب میں حجر میں نماز کی فضیلت ، حجر کی پیمائش اور حجر میں بعض قبروں کے وجود وغیرہ مسائل پر روشنی ڈالی ہے ، حجر یا مسجد الحرام اسماعیل علیہ السلام یا دیگر کی قبروں سے متعلق ان کا بیان پانچ صفحات پر پھیلا ہوا ہے، اس تفصیل کی وجہ سے مسئلہ کی اہمیت ہے ، مساجد میں قبروں کا وجود اسلامی عقیدہ کے خلاف ہے ـ اسلام نے قبروں پر سجدہ سے منع فرمایا ہے ، پھر مساجد میں قبروں کے وجود کا کیا سوال ؟ جن مصنفین نے اسی طرح کی روایتیں ذکر کی ہیں ، مصنف نے ان روایتوں پر بحث کر کے ثابت کیا ہے کہ وہ صحیح اور ناقابل استدلال ہیں ، تمام روایتیں از قبیل معصل آثار ہیں ، ان کی اسناد ضعیف یا موقوف ہے ـ قریش کی تعمیر کعبہ کے وقت کبار صحابہ موجود تھے ، اگر انہں قبر وغیرہ کے آثار نظر آئے ہوتے تو ضرور اس کا ذکر کرتے ـ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اسی لئے لکھا ہے ہمارے نبی ﷺ کے علاوہ دنیا میں کسی نبی کی قبر معلوم نہیں م اور نہ انبیاء کے قبروں کو جاننے میں کوئی شرعی فائدہ ہے ـ نبی ﷺ نے اپنی امت کو آخری وقت میں قبروں کو مسجد بنانے سے منع فرمایا تھا ، کیونکہ اس میں شرک کا خوف ہے ، پھر مسجد الحرام میں اسکی قباحت اور زیادہ ہے ـ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگر حطیم یا مسجد الحرام میں کسی مقام پر قبر ہوتی تو اس پر چلنے اور بیٹھنے سے آپ نے منع فرمایا ہوتا ـ ابن فہد نے 415 ھجری کے واقعات میں لکھا ہے کہ حجر اور مقام ابراہیم کے درمیان ایک مرتبہ کھدائی ہوئی تو کھوپڑی اور ہڈیاں ملیں ـ یہاں قابل توجہ ہے اگر مسجد الحرام کے اسی مقام پر انبیاء کی قبریں ہوتیں تو کھوپڑی اور ہڈیاں ملنے کا سوال نہ ہوتا کیونکہ انبیاء کا جسم زمین میں سڑتا گلتا نہیں ہے ـ جو ہڈیاں اور کھوپڑیاں نظر آئی تھیں ممکن ہے ان لوگوں کی رہی ہوں جنہیں 317 ھجری میں قرمطی نے مسجد الحرام میں قتل کر دیا تھا

رکن یمانی ـ
چھٹے باب میں مصنف نے رکن یمانی پر روشنی ڈالی ہے اور لکھا ہے کہ یہ کعبہ کا مغربی جنوبی گوشہ ہے ، نبی ﷺ اسے اپنے دست مبارک سے چھوتے تھے ، رکن کے چھونے کے بعد حجر اسود کی طرف بڑھتے ہوئے (ربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الاخرة حسنة وقنا عذاب النار) والی دعا پڑھتے تھے ـ

ملتزم
ساتواں باب ملتزم کے بیان میں ہے ، مصنف نے اس کی تعیین کرتے ہوئے لکھا ہے کہ حجر اسود اور کعبہ کے دروازے کے بیچ کی جگہ ملتزم کہلاتی ہے ، اس مقام ہر رخسار رکھنا ، ہاتھ پھیلانا اور چہرہ اور سینہ کو اس سے ملانا مسنون ہے ، اس مقام پر دعاء اور استعاذہ بھی ثابت ہے ، ایک روایت میں ذکر ہے کہ یہاں دعا قبول ہوتی ہے ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ملتزم کے پاس آکر سینہ ، چہرہ ، بازو اور ہتھیلی کو اس سے چمٹانا اور دعاکرنا جائز ہے ، یہ کام طواف و وداع کے وقت اور اس سے پہلے کر سکتا ہے ـ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جب مکہ میں داخل ہوتے تھے تو ایسا کرتے تھے ـ

طواف ـ
حج و عمرہ میں کعبہ کا طواف مشروع ہے ، اس کا حکم قرآن و حدیث دونوں میں ہے اور اس کی بڑی فضیلت ہے ـ ترمذی کیایک روایت میں جو حسن ہے ،نبی ﷺ کا یہ ارشاد مذکور ہے کہ '' طواف میں بندہ جب قسم رکھتا ہے اور اٹھاتا ہے تو اللہ تعالی اس کا یک گناہ معاف فرماتا ہے اور ایک نیکی بڑھاتا ہے -مصنف نے آٹھویں باب میں کعبہ کے طواف پر جوبحث کی ہے اس میں شرعی احکام کا بیان اور ان کی حکمت کی جاب اشارہ ہے ، یہ بحث (46) صفحات پر پھیلی ہوئی ہے ، جس روایت کا ذکر کیا ہے اس کی صحت اور ضعیف پر بھی مفصل کلام کیا ہے ، اور یہ وصف کتاب کے ہر باب میں نمایاں ہے ـ مںصف وضاحت کی ہے کہ طواف کی کوئی متعین دعا وارد نہیں ، صرف رکن یمانی اور حجراسود کے درمیان (ربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الاخرة حسنة وقنا عذاب النار) الخ ثابت ہے ، بندہ جو دعاء اور ذکر چاہے کرے ـ لیکن لوگوں کے ہر پھیرے کے لئے جو متعین دعائیں اختیار کر رکھی ہیں ، ان کی کوئی اصل نہیں ہے ـ صحابہ سے مروی آثار میں کچھ دعائیں وارد ہیں ، انہیں اس موضوع کی کتابوں میں دیکھا جا سکتا ہے ـ مردوں کے ساتھ عورتیں کے طواف کی سرخی کے ذیل میں مصنف نے لکھا ہے کہ عورتیں مردوں کے ساتھ طواف کریں تو اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ دونوں کے مابین فصل رہے اور اختلاط نہ ہو ، اختلاط سے شر و فساد کا اندیشہ ہے ـ

بعض لوگ حج کے بعد تنعیم یا جعرانہ سے جاکر عمرہ باندھ کر آتے ہیں ، اس طرح سفر حج میں کئی کئی عمرے کر لتے ہیں ، مصنف نے شیخ عبد العزیز بن رحمہ اللہ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ نبی ﷺ یا صحابہ سے اس نوعیت کا عمرہ ثابت نہیں ہے ـ اس لئے حجاج اس سے پرہیز کرنا چاہیے ـ مصنف نے صحیح البخاری کے حوالہ سے لکھا ہے کہ رمضان میں عمرہ کا ثواب حج کے برابر ہے ـ

طواف کے باب میں آخری سرخی ہے : اخیر زمانہ میں کعبہ کی تخریب واقع ہوگی ، مصنف نے لکھا ہے کہ قرب قیامت بہت سی علامتیں ہیں ، جن کی خبر نبی ﷺ نے دی ہے ، ان میں سے ایک بڑی علامت کعبہ شریف کا منہدم کرنا ہے ، ابوہریرہ رضی اللہ کی روایت میں ہے کہ حبشہ کا ذو اسویقتین کعبہ کو اجاڑ دےگا ـ ذو السو یقتین سے پتلی پنڈلیوں کی طرف اشارہ ہے ـ حبشہ والے عام طور پر پتلی ٹانگون والے ہوتے ہیں ۔

غلاف کعبہ
جاہلی دور والے کعبہ پر غلاف چڑھاتے تھے ، نبی ﷺ نے بعثت کے بعد اسے برقرار رکھاـ عائشہ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں ہے کہ رمضان کریم ے روزوں کی فرضیت سے قبل لوگ عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے ، اور اسی دن کعبہ پرغلاف ڈالا جاتا تھا ـ

مصنف نے لکھا ہے کہ اسلام سے قبل سب سے پہلے کعبہ پر غلاف کس نے ڈالا؟ اس سلسلے میں کوئی صحیح ، متصل اور قابل اعتبار روایت مجھے نہیں ملی ، البتہ بعض تابعین کے اقوال موجود ہیں جن کی نسبت صحابہ کی طرف صحیح نہیں ـ چنانچہ وھب بن منبہ کی روایت میں ہے کہ اسعد (یعنی تبع حمیری ) نے سب سے پہلے کعبہ پر یمنی چاردوں کا غلاف ڈالا تھا (فتح الباری 458/3) ـ

کعبہ پر اس دور میں غلاف ڈالنے سے متعلق مصنف نے واضح کرتے ہیں کہ ماہ ذی الحجہ کے اوائل میں جب حجاج کی بھیڑ بڑھ جاتی ہے ، قدیم غلاف نصف اوپر اھا دیا جاتا ہے ، پھر سار ذالحجہ کو کھلے حصہ کو سفید کپڑے سے چھپا دیا جتا ہے ، جب 9 تاریخ ہوتی ہے اور مسجد بیرونی لوگوں سے خالی ہو جاتی ہے تو نیا غلاف کعبہ پر ڈال کر اسے نصف تک اٹھا دیا جاتا ہے ـ پھر جب بھیڑ ختم ہو جاتی ہے ، یعنی اوائل اواخر ذی الحجہ اور اوائل محرم تو پورا غلاف لٹکا دیا جاتا ہے ـ

غلاف خلفاء راشدین کے عہد سے کب کیسا تھا اس پر مصنف نے تفصیل سے روشنی ڈالی ہے ، اور معروف مآخذ اور سفر ناموں کا حوالہ دیا ہے ، لکھا ہے کہ عباسی خلافت کی کمزوری کےبعد یمن اور مصر کے سلاطین بھی غلاف بھیجتے تھے ، عرب دنیا جب آل عثمان کے زیرنگین آئی تو غلاف کا انتظام بھی ان کی طرف سے ہونے لگا ، سلطان سلیم بن بایزید خان نے غلاف کا رنگ سیاہ متعین کردیا ـ 750 ہجری سے کعبہ کا غلاف اس وقف کی آمدنی سےتیار کیا جاتا تھا ججسے اسماعیل بن الملک الناصر بن قلادون نے وقف کیا تھا ـ سلطان سلیم نے اس وقف میں بعض گاؤں کا اضافہ کیا ، تیرہویں صدی ہجری کے اوائل میں مصری حاکم محمد علی باشا نے اس وقف کو ختم کر دیا ، اور مصری حکومت نے اپنے خزانہ سے اس کے خرچ کا اعلان کیا ، اور یہ سلسلہ چلتا رہا ـ پھر مختلف وجوہ سے مصر کی طرف سے غلاف آنا بند ہو گیا ، 1345 ہجری میں جب عین وقت پر معلوم ہوا کہ مصر سے غلاف نہیں آئے گا تو سعودی حکومت نے بعجلت تمام اپنے یہاں غلاف کی تیاری کا انتظام کی ، اور اب یہی سلسلہ جاری ہے ، سعودیہ میں غلاف کی سلسلہ میں اس وقت کے ہندوستانی لوگون نے اپنا کردار ادا کیا تھا جسے لوگ بھولے نہیں ہیں ـ
غلاف کعبہ کی بناوٹ میں کلمہ اور بعض جملے لکھے ہوئے ہیں ،اور قرآنی آیات کو سنہرے حروف میں منقش کیاگیا ہے ـ مصنف نے بعض مآخذ کے حوالہ سے تمام آیات اور غلاف پر ان کی سمت کی تفصیل لکھی ہے ـ

غلاف کعبہ کی تیاری کے لیے مکہ میں جو کارخانہ قائم کیا گیا ہے اس کے افتتاح کے موقع پر جو کتابچہ شائع کیا گیا تھا اس میں یہ وضاحت ہے کہ غلاف کی تیاری میں 670 کلوگرام خالص سفید ریشم لگتا ہے ، جسے سیاہ رنگ میں رنگنے کے لئے 720 کلو گرام رنگ اور اس کے لوازم استعمال کئے جاتے ہیں ـ

غلاف کعبہ جب اتار لیاجائے تو اس کے مصرف پر بھی مصنف نے بحث کی ہے ، اس سلسلہ میں علماء نے مختلاف صورتیں پیش کی ہیں م اس اہل مکہ کو ، حجاج کو یا فقراء کو دیا جا سکتا ہے ، لیکن اس میں تبرک کا کوئی پہلو نہیں ہے ، لہذا تقسیم میں اس کا خیال ضروری ہے ـ


ہماری جنگ تو خود سے تھی،ڈھال کیا رکھتے
فقیر لوگ تھے ،مال و منال کیا رکھتے
 
  • Page 1 of 1
  • 1
Search: