بدھ
2024-12-04
1:37 AM
Logged in as مہمان
Group "مہمان"
RSS
 
Read! the name of lord
 پڑھ اپنے رب کے نام سے
Home Sign Up Log In
اسلامی تاریخ - آپ اس وقت فورم پر تشریف فرما ہیں »
[ Updated threads · New messages · Members · Forum rules · Search · RSS ]
  • Page 1 of 1
  • 1
اسلامی تاریخ
lovelessDate: اتوار, 2012-01-29, 8:37 AM | Message # 1
Colonel
Group: ایڈ منسٹریٹر
Messages: 184
Status: آف لائن
تاریخ نگاری ۔۔۔
نہایت نازک اور اہم کام ہے !
کیونکہ یہ فن ۔۔۔۔
قوموں کی عظمت و رفعت کے مینار تعمیر کرتا ہے ،
قوموں کے منہج کو واضح کرتا ہے ،
قوموں کے حال و مستقبل کی منصوبہ بندی کرتا ہے۔

جب تک کوئی قوم اپنے ماضی کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط نہ کرے
اور
اپنے حال کی تعمیر اور مستقبل کو محفوظ کرنے کے لیے ماضی سے قوت حاصل نہ کرے
وہ نہ تو اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکتی ہے اور نہ ہی جہانبانی کے منصب پر فائز ہو سکتی ہے!

جہانبانی کے فرائض کو نبھانے کے لیے دوسری اقوام سے زیادہ مسلمان قوم جیسی عظیم قوم اس کام کی حقدار اس لیے بھی ہے کہ ۔۔۔
قومِ مسلم کی تاریخ ۔۔۔ کشور کشائی ، شجاعت و بسالت اور بزرگی و برتری کے ایسے اعزازات رکھتی ہے کہ دیگر اقوام کی تاریخ اس کے مقابلے میں پرکاہ کی حیثیت نہیں رکھتی۔
لیکن ۔۔۔۔ دورِ حاضر میں ہماری ملت کی کمزوری اور باہمی تفریق و تخریب کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ہم پر ظالموں کو مسلط کر دیا ہے ، ولا لاحول ولا قوة الا بالله العلي العظيم

اِس ضعف و اضمحلال کے سائے میں ہمیں اپنی قوم کی روشن اور برتر تاریخ کی طرف لوٹنا انتہائی ضروری ہے تاکہ ۔۔۔
اپنی اصلیت کے متعلق غور کرنا ،
اپنے ارد گرد دیکھنا ،
اور اپنے مستقبل کی طرف قدم بڑھانا آسان ہو جائے۔
لیکن یہ عمل اُس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک ہم اپنی "صحیح تاریخ" کی طرف رجوع نہ کریں اور اس پر گہری نظر نہ ڈال لیں۔
اور "صحیح" چیز کے علاوہ کسی چیز کی کوئی اہمیت نہیں ہے!

اگر ہم اپنی تاریخ کو عمیق نظر سے دیکھیں تو ہمیں اس کا وہ دَور یا عرصہ روشن ترین اور دودھ سے زیادہ سفید نظر آئے گا ، جس میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے زندگی بسر کی۔
اور یہی وہ پاکیزہ گروہ تھا جس نے اپنے شانوں پر اسلام کے پیغام کو عام کرنے کی ذمہ داری اٹھائی ۔۔۔
اور یہی مقدس ہستیاں ، انبیائے کرام کے بعد اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ مخلوق ہیں!

فرقوں کی بہتات کی بنا پر مسلمان قوم کی تاریخ بےپناہ تحریف کا شکار رہی کیونکہ ان میں ہر فرقہ اس کوشش میں مصروف رہا کہ ۔۔۔
وہ اپنوں کی شان بڑھائے اور دوسروں کو گرائے۔
اس طرز عمل سے عظیم ترین ہستیوں کی تاریخ میں بھی شگاف پیدا ہو گئے !

مسلمان قوم میں سے چند لوگوں نے چوتھے خلیفۂ راشد ، داماد اور عمِ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) سے اس قدر غلو آمیز محبت کی کہ آپ (رضی اللہ عنہ) کا معاملہ مکمل طور پر الجھا کر رکھ دیا۔
اور آپ (رضی اللہ عنہ) کی طرف ایسی باتیں منسوب کر دیں جو اصل واقعات اور تاریخ سے میل نہیں رکھتیں ۔۔۔۔ اور پھر اسی "کھیل" کے دوران دوسرے صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) کی شان گھٹانے کی ناکام کوششیں کیں اور انہیں حضرت حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کا حق غصب کرنے ، ان پر ظلم کرنے ونیز خود اپنے حق میں برا بیج بونے والوں کے روپ میں پیش کیا ، بلکہ ۔۔۔۔ اس محبت نما دشمنی میں اولادِ علی (رضی اللہ عنہ) کو منصوص علیہم ائمہ قرار دیا اور انہیں انبیائے کرام علیہم الصلوٰة والسلام کی طرح معصوم قرار دینے پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ ان سے بھی بڑھا دیا۔

صحیح تحقیق کے مطابق تاریخِ صحابہ (رضی اللہ عنہم) کو مسخ کرنے کے اس عمل کی ابتدا تیسری صدی کا نصف گزرنے کے بعد ہوئی اور یہی چیز اس بات کی دلیل ہے کہ ۔۔۔
ہمیں کبار صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) کے احوال اور اُن (رضی اللہ عنہم) کی صحیح روایات میں تو ایسی کوئی چیز نہیں ملتی جس سے یہ معلوم ہو کہ :
حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کچھ صحابہ (رضی اللہ عنہم) سے ناخوش تھے یا وہ ان سے ناراض تھے جیسا کہ بعض حضرات ان کی طرف یہ باتیں منسوب کرتے ہیں۔
بلکہ اس کے برعکس ۔۔۔۔
تمام مورخین اس خوشگوار حققیت پر متفق ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔

** حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے اپنی لخت جگر سیدہ ام کلثوم (رضی اللہ عنہا) ، امیرالمومنین حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) سے بیاہ دی تھی۔
{بحوالہ: الکافی ، ج:5 ، ص:346}
** حضرت علی بن ابی طالب (رضی اللہ عنہ) نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیوہ اسما بنت عمیس (رضی اللہ عنہا) سے شادی کر لی تھی (یوں محمد بن ابوبکر صدیق ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ربیب تھے)۔
** امیرالمومنین حضرت علی بن ابی طالب (رضی اللہ عنہ) نے اپنے بیٹوں کے نام
ابوبکر ، عمر اور عثمان (رضی اللہ عنہم)
کے ناموں پر رکھے۔
{بحوالہ: معرفة الصحابة ، ج:1 ، ص:309}
** حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے کا نام ابوبکر رکھا اور حضرت علی بن حسین نے اپنے بیٹے کا نام عمر رکھا۔ حضرت موسیٰ بن جعفر الصادق ہاشمی نے اپنے بیٹے کا نام عمر اور بیٹی کا نام عائشہ رکھا۔
{بحوالہ: سیر اعلام النبلاء ، ج:3 ، ص:279}
** حضرت جعفر صادق بن محمد ہاشمی کہتے تھے کہ مجھے ابوبکر صدیق نے دو مرتبہ جنا ہے۔ (کیونکہ ان کی ماں ام فروہ ، قاسم بن محمد بن ابوبکر صدیق کی بیٹی تھیں اور ان کی نانی حضرت اسماء ، عبدالرحمٰن بن ابوبکر صدیق کی دختر تھیں)۔
{بحوالہ: سیر اعلام النبلاء ، ج:6 ، ص:255}

حضرت علی (رضی اللہ عنہ) اور ان کی اولاد کے یہ اعمال ظاہر کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے پیشرو صحابہ کرام سے یگانگت اور محبت کا ثبوت دیا۔ اور حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے تو حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کے دورِ امارت میں منصب قضا کو قبول فرمایا تھا اور شیخین کریمین اور دیگر صحابہ کرام کی مدح فرمائی تھی۔

دوسری طرف ایک اور گروہ ہے جو آل بیت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عداوت رکھتا ہے۔ اس گروہ کے لوگ حضرت علی اور حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہم سے بغض و دشمنی روا رکھتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کرام کے جو فضائل و مناقب ہیں ، وہ فضائل و مناقب تک انہیں دینا نہیں چاہتے۔

ان دونوں کی درمیانی راہ ہی حق و صواب کی راہ ہے۔
یعنی وہ راہ جو ہمیں سکھائے کہ ۔۔۔۔
تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین سے یکساں محبت رکھی جائے ، ان کی نیکیوں اور عظمتوں کا دل سے احترام کیا جائے اور فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ان کی خطاؤں پر سب و شتم سے باز رہا جائے۔
اور
اہل بیت رضی اللہ عنہم سے محبت رکھی جائے اور بغیر کسی غلو کے ، انہیں ان کے اسی مقام و مرتبے پر رکھا جائے جو اللہ نے ان کو عطا کیا ہے۔

اہل بیت خود بھی صحابہ کرام کے عمومی گروہ میں شامل ہیں۔
اور صحابہ کرام کا یہ گروہ ایسا مقدس گروہ ہے جس کا ہم مسلمانوں پر تاقیامت احسان ہے۔ اس گروہ کا معاملہ دوسرے گروہوں جیسا نہیں کیونکہ ان کا علم اور عمل اس قدر وسیع اور خالص تھا کہ اولین و آخرین میں سے کوئی امتی ان سے آگے نہ بڑھ سکا اور نہ ہی ان کے برابر ہو سکے گا ۔۔۔۔ کیونکہ یہی تو وہ ہستیاں تھیں جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اپنے پسندیدہ دین کو عزت بخشی اور اسے تمام ادیان و مذاہب پر غلبہ عطا فرمایا۔

اصحابِ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و مناقب پر والا وشیدا ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے متعلق معصومیت کا دعویٰ بھی نہیں کیا جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں اور انبیاء کرام کے سوا کسی کو معصوم نہیں بنایا۔
بےشک اس مقدس گروہ کے چند صحابہ کرام سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور وفات کے بعد چند تسامحات بھی ہوئے ۔۔۔
لیکن ان تسامحات کی حیثیت ان کی نیکیوں کے مقابلے میں ایسے ہے جیسے پہاڑوں کے مقابلے میں ریت کے چند ذرات اور سیلاب کے مقابلے میں بارش کے چند قطرات !!


ہماری جنگ تو خود سے تھی،ڈھال کیا رکھتے
فقیر لوگ تھے ،مال و منال کیا رکھتے
 
  • Page 1 of 1
  • 1
Search: