منگل
2024-04-23
3:26 PM
Welcome مہمان
RSS
 
Read! the name of lord پڑھ اپنے رب کے نام سے
Home Sign Up Log In
تاريخ غلاف کعبہ - آپ اس وقت فورم پر تشریف فرما ہیں »
[ Updated threads · New messages · Members · Forum rules · Search · RSS ]
  • Page 1 of 1
  • 1
آپ اس وقت فورم پر تشریف فرما ہیں » کیٹگری فورم » دلچسپ اسلامی تاریخی واقعات » تاريخ غلاف کعبہ (تاريخ غلاف کعبہ)
تاريخ غلاف کعبہ
lovelessDate: اتوار, 2012-01-29, 8:49 AM | Message # 1
Colonel
Group: ایڈ منسٹریٹر
Messages: 184
Status: آف لائن
کعبہ پر غلاف چڑھانے کي ابتدا کب ہوئي اور آج تک اس کي تاريخ کيا ہے ۔ اس بارے ميں تاريخ کا کوئي مؤرخ اس کا قديم ريکارڈ پيش کرنے سے قاصر ہے ۔ ليکن جو روايات علماءاسلام تک پہنچي ہيں ان کے مطابق کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے کعبۃ اللہ پر غلاف حضرت اسمٰعيل عليہ السلام نے چڑھايا تھا ۔

اس کے بعد صديوں تک تاريخ خاموش ہے پھر يہ ذکر ملتا ہے کہ عدنان نے کعبہ پر غلاف چڑھايا اس کے بعد پھر عرصہ بعيد تک تاريخ خاموش ہے ۔ پھر يمن کا بادشاہ اسد جو زمانہ نبوت سے دو سو 200برس قبل گزرا ہے اس کے متعلق ذکر ملتا ہے کہ اس نے سرخ رنگ کا دھاري دار يمني کپڑا ” الوسائل “ کا مکمل غلاف چڑھايا ۔ قريش کے انتظام سنبھالنے سے غلاف کعبہ کي مکمل تاريخ ملحق ہے اس قبيلہ کي روايات زمانہ اسلام تک محفوظ ہيں ۔

بني مخزوم کے ايک سردار بنو ربيعہ نے قريش سے يہ بات طے کي کہ ايک سال بني مخزوم اور ايک سال قريش غلاف چڑھائيں گے ۔ اس کے علاوہ زمانہ جاہليت ميں يہ دستور تھا کہ عرب کے مختلف قبيلے اور ان کے سردار جب بھي زيارت کے ليے آتے تو اپنے ساتھ قسم قسم کے پردے لاتے ۔ جتنے لٹکائے جا سکتے وہ لٹکا دئيے جاتے باقي کعبۃ اللہ کے خزانے ميں جمع کر دئيے جاتے ۔ جب کوئي پردہ بوسيدہ ہو جاتا تو اس کي جگہ دوسرا پردہ لٹکا ديا جاتا ۔

نبي صلي اللہ عليہ وسلم کے بچپن کا ايک واقعہ بھي بيان کيا جاتا ہے کہ آپ صلي اللہ عليہ وسلم کي دادي نے اپنے ايک صاحبزادے کے گم ہونے پر نذر ماني کہ اگر مل جائے تو کعبہ پر ريشمي غلاف چڑھائيں گي ۔ جب وہ مل گئے تو انہوں نے نذر پوري کرتے ہوئے سفيد رنگ کا ريشمي غلاف چڑھايا ۔

زمانہ نبوت سے قبل کي قريش کي تعمير جس ميں آپ صلي اللہ عليہ وسلم بھي بنفسِ نفيس شريک تھے ۔ تعمير مکمل ہونے کے بعد اہل مکہ نے بڑے اہتمام کے ساتھ کعبہ پر غلاف چڑھايا ۔

فتح مکہ کے دن آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے اعلان فرمايا :

يہ وہ دن ہے کہ اللہ تعاليٰ کعبہ کي عظمت قائم فرمائے گا اور اب ہم اس پر غلاف چڑھائيں گے ۔ اس زمانے کا ايک يہ واقعہ بھي ملتا ہے کہ ايک عورت کعبہ ميں خوشبو کي دھوني دے رہي تھي کہ ايک چنگاري اڑ کر ان غلافوں پر گري اور زمانہ جاہليت کے تمام غلاف جل گئے ۔ تو مسلمانوں نے کعبۃ اللہ پر غلاف چڑھايا يہ دورِ اسلام کا پہلا غلاف ہے ۔ ( فتح الباري بروايت سعيد بن مسيب رحمہ اللہ )

نبي صلي اللہ عليہ وسلم اور ابوبکر رضي اللہ عنہ نے اپنے اپنے زمانہ ميں کعبہ پر يمني کپڑے کا دھاري دار غلاف چڑھايا ۔ جب مصر فتح ہو گيا تو حضرت عمر رضي اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضي اللہ عنہ نے اپنے اپنے دور خلافت ميں اعليٰ مصري کپڑے ( قباطي ) کا غلاف بنوا کر چڑھايا ۔

حضرت علي رضي اللہ عنہ کے دور خلافت ميں غلاف کعبہ کے بارے ميں روايت خاموش ہے ۔ زمانہ قديم ميں يہ دستور تھا کہ جب حجاج کرام دس محرم تک اپنے اپنے علاقوں کو واپس چلے جاتے تو تب کعبہ پر غلاف چڑھايا جاتا ۔

اسي طريقے پر آپ صلي اللہ عليہ وسلم اور آپ کے خلفاءکے زمانے ميں عمل ہوتا رہا ۔ حضرت امير معاويہ رضي اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت ميں دس محرم کے علاوہ ايک اور غلاف عيدالفطر کے دن بھي چڑھايا پھر اسي طرح يزيد رحمہ اللہ اور عبداللہ بن زبير رضي اللہ عنہ نے اپنے اپنے دور ميں يہ عمل کيا ۔ خليفہ عبدالملک بن مروان کے عہد ميں يہي مستقل طريقہ بن گيا ۔ جو آج تک جاري ہے ۔

زمانہ جاہليت ميں مختلف لوگ اپني اپني طرف سے يہ عمل کرتے تھے ليکن اسلامي دور ميں غلاف چڑھانا حکومت کي ذمہ داري قرار پايا ۔

مسند عبدالرزاق کي روايت کے مطابق ام المومنين حضرت عائشہ رضي اللہ عنہا سے پوچھا گيا ، کيا ہم کعبہ پر غلاف چڑھائيں ؟ انہوں نے فرمايا : کہ اب تمہاري طرف سے اس خدمت کو حکمرانوں نے سنبھال ليا ہے ۔ ايک اور روايت ميں ہے : ( کسوۃ البيت علي الامراء )

” بيت اللہ کا غلاف حکمرانوں کے ذمے ہے ۔ “

عباسي خلافت کے زوال تک غلاف کي تياري مرکزي حکومت کے زيراہتمام ہوتي تھي ۔ جب مرکزي حکومت کا خاتمہ ہو گيا تو مختلف علاقوں کے حکمران اپني اپني طرف سے غلاف بنوا کر بھيجتے رہے اور بسا اوقات ايک وقت ميں کئي کئي غلاف چڑھائے جاتے ۔

اس سلسلہ ميں ايک مرتبہ 466ھ ميں ہندوستان سے غلاف بنوا کر بھيجا گيا مصر کے فرماں روا الملک الصالح اسمٰعيل بن ناصر نے 750ھ ميں غلاف کعبہ تيار کرانا اپنے ذمے لے ليا ۔ اور اس غرض سے تين گاؤں وقف کر دئيے ۔ مصر پر ترکوں کے قبضے کے بعد سلطان سليمان اعظم نے ملک الصالح کے وقف ميں سات گاؤں کا اور اضافہ کر ديا ۔ اس عظيم وقف کي آمدني سے ہر سال کعبہ کا غلاف مصر سے بن کر آنے لگا ۔ اس کے علاوہ خانہ کعبہ کے اندر کے پردے بھي وقتاً فوقتاً اسي وقف سے بنا کر بھيجے جاتے رہے ۔ اس زمانہ ميں اس وقف شدہ زمين کي کل آمدني جو موجودہ زمانہ ميں ايک لاکھ پچاس ہزار درہم مصري پونڈ تھے ۔

جب مصر کے وائسرائے محمد علي پاشا نے ترکي سلطنت سے بغاوت کر کے خودمختاري حاصل کر لي تو اس نے يہ وقف منسوخ کر ديا اور غلاف کعبہ صرف حکومت مصر کے خرچ پر بنوا کر بھيجنا شروع کر ديا ۔

پہلے غلاف مختلف رنگوں کے ہوتے تھے ۔ خليفہ مامون الرشيد کے دور ميں سفيد رنگ کا غلاف چڑھايا گيا ۔ سلطان محمود غزنوي نے زرد رنگ کا غلاف چڑھايا ۔

٭ خليفہ ناصر عباسي نے 575ھ تا 622ھ کي ابتدا ميں سبز اور پھر سياہ ريشم کا غلاف بنوا کر بھيجا ۔ تب سے آج تک سياہ غلاف ہي چڑھايا جا رہا ہے ۔ غلاف کعبہ کے چاروں طرف زري کے کام کي پٹي بنانے اور اس پر کعبۃ اللہ کے متعلق قرآن مجيد کي آيات لکھوانے کا يہ سلسلہ سب سے پہلے 761ھ ميں مصر کے سلطان حسن نے شروع کيا اس کے بعد سے آج تک يہ طريقہ جاري ہے ۔

ايک طرف آل عمران 97-96 لکھي جاتي ہے :

(( ان اول بيت وضع للناس للذي ببکۃ مبرکا وہدي للعلمين [96] فيہ ايت بينت مقام ابرہيم ومن دخلہ کان امنا وللہ علي الناس حج البيت من استطاع اليہ سبيلا ومن کفر فان اللہ غني عن العلمين )) ( آل عمران :96,97 )

دوسري طرف المائدہ آيت نمبر97:

(( جعل اللہ الکعبۃ البيت الحرام قيما للناس والشہر الحرام والہدي والقلآئد ذلک لتعلموا ان اللہ يعلم ما في السموت وما في الارض وان اللہ بکل شيئ عليم)) ( المائدہ : 97 )

تيسري طرف سورۃ البقرہ آيت نمبر 127,128 :

(( واذ يرفع ابرہم القواعد من البيت واسمعيل ربنا تقبل منا انک انت السميع العليمo ربنا واجعلنا مسلمين لک ومن ذريتنآ امۃ مسلمۃ لک ص وارنا مناسکنا وتب علينا انک انت التواب الرحيم )) ( سورۃ البقرہ : 127, 128 )

چوتھي جانب اس فرماں روا کا نام لکھا جاتا ہے جس کي طرف سے غلاف بنا کر بھيجا گيا ۔ گزشتہ صدي کے آغاز تک غلاف کعبہ دنيا کے سياسي حالات سے محفوظ رہا ۔ جنگيں ہوتي رہيں سلطنتوں کے تعلقات بنتے اور بگڑتے رہے ، مگر خانہ کعبہ کے ليے غلاف جہاں سے آيا کرتا تھا وہيں سے آتا رہا ۔ ليکن گزشتہ صدي کے آغاز ميں دنيا کے سياسي حالات اس پر بھي اثر انداز ہوئے ۔ جنگ عظيم اول ميں جب ترکي سلطنت جرمني کے ساتھ شريک جنگ ہوئي تو اسے انديشہ ہوا کہ مصر سے غلاف کے آنے ميں انگريز رکاوٹ بنے گا ۔ ايسے ميں ترکي نے ايک شاندار غلاف استنبول سے تيار کرا کے حجاز ريلوے کے ذريعے مدينۃ منورہ بھيج ديا ۔

عين وقت پر مصر سے بھي غلاف پہنچ گيا ۔ تو ترکي سے آيا ہوا غلاف مدينۃ منورہ ميں محفوظ کر ديا گيا ۔

٭ 1923ءميں شريف حسين اور مصر کے حالات آپس ميں خراب ہو گئے اور مصري حکومت نے عين حج کے موقع پر جدہ پہنچے ہوئے غلاف کو واپس منگواليا ۔ خوش قسمتي سے اس وقت جنگ کے زمانہ ميں بھيجا ہوا ترکي غلاف کام آ گيا اسے فوري طور پر مدينہ منورہ سے مکہ معظمہ پہنچايا گيا ۔

٭ 1925ءميں سلطان ابن سعود رحمہ اللہ اور شريف حسين کي لڑائي کے زمانے ميں مصر سے پھر غلاف نہ آيا ۔ ابن سعود رحمہ اللہ نے عراق کا بنا ہوا ايک غلاف چڑھا ديا جو شريف حسين نے بنوا کر رکھا ہوا تھا ۔

٭ 1927ءميں ٹھيک يکم ذوالحجہ کو حکومت مصر نے غلاف بھيجنے سے پھر انکار کر ديا اور ابن سعود کو فوراً مکہ مکرمہ سے ايک غلاف بنوانا پڑا ۔

٭ 1928ءميں مصر سے غلاف نہ آيا اور امرتسر سے مولانا سيد داؤد غزنوي رحمہ اللہ اور مولانا اسمٰعيل غزنوي رحمہ اللہ کے زيراہتمام غلاف بنو اکر بھيجا گيا ۔

ان تلخ تجربات کي بنا پر مکہ مکرمہ ميں ايک دارالکسوۃ قائم کر ديا گيا تا کہ مصر سے آئے دن غلاف نہ آنے کي مصيبت کا مستقل حل کر ديا جائے ۔ اس کارخانے ميں مولانا اسمٰعيل غزنوي رحمۃ اللہ عليہ کي مدد سے ہندوستان کے بہت سے کاريگر فراہم کئے گئے ۔

٭ 1972ءميں اس کارخانے کو جديد ترين بنانے اور اس کي صلاحيت کو بہتر بنانے کے ليے ايک جديد کارخانہ کي بنياد 1392ھ کو خادم الحرمين الشريفين ( شاہ فہد رحمہ اللہ ) نے رکھي جو اس وقت وزير داخلہ اور مجلس وزرا کے نائب تھے ۔

٭ 1975ءبمطابق 1395ھ ميں اس جديد کارخانے کا افتتاح خادم الحرمين الشريفين جو اس وقت ولي عہد تھے نے اپنے ہاتھ سے کيا ۔ اب يہ کارخانہ بنائي اور رنگائي کے جديد ترين آلات سے مزين ہے ۔ ليکن اس کام کو مشين کي بجائے ہاتھ سے ہي انجام ديا جاتا ہے ۔ اس ليے کہ ہاتھ کي کاريگري انساني کمال کا فني ورثہ تصور کيا جاتا ہے ۔

غلاف کي لمبائي 14ميٹر اور اس کے اوپر والے ايک تہائي حصہ ميں غلاف کو باندھنے والي ڈوري ہوتي ہے جس کي چوڑائي سينٹي ميٹر ہوتي ہے ۔ اور اس پر چاندي اور سونے کي پالش شدہ ڈوري سے قرآني آيات لکھي جاتي ہيں ۔ اس ڈوري کي لمبائي 47ميٹر کے قريب ہوتي ہے جو 16ٹکڑوں کا مجموعہ ہوتي ہے ۔ ڈوري والے حصے سے تھوڑا نيچے اسلامي آرٹ ( خطاطي ) ميں سورہ الاخلاص اور چھ قرآني آيات جن کا تذکرہ پہلے کر آئے ہيں لکھي جاتي ہيں ۔

بيچ والے حصہ ميں چند آيات درج ہوتي ہيں يہ آيتيں خط ثلث ميں لکھي جاتي ہيں جو عربي کا سب سے خوبصورت خط ہے ۔ کعبے کے دروازے کا غلاف جسے برقعہ کہتے ہيں جو عمدہ اور نفيس کالے ريشم سے بناياجاتا ہے ۔ جبکہ باقي غلاف بھي اسي رنگ کا ہوتا ہے ليکن اس کي عمدہ اور جاذبِ نظر ترتيب و کتابت اس کو دوسرے حصے سے ممتاز بنا ديتي ہے ۔ ان آيات کے نيچے اسي خط اور انداز ميں يہ عبارتيں درج ہوتي ہيں کہ يہ غلاف مکہ مکرمہ ميں تيار ہوا اور خادم الحرمين الشريفين کي طرف سے اسے خانہ کعبہ کو بطور تحفہ پيش کيا گيا ۔ اللہ تعاليٰ اسے قبول فرمائے ۔

اس عمدہ اور نفيس غلاف کي تياري پر ايک کروڑ ستر لاکھ سعودي ريال خرچ آتا ہے ۔ آيات و کلمات سے اس طرح مزين غلاف کعبہ سعودي عرب کي ايک يادگار ہے تاريخ ميں اس انداز کا غلاف کعبہ کبھي تيار نہيں کيا گيا ۔


ہماری جنگ تو خود سے تھی،ڈھال کیا رکھتے
فقیر لوگ تھے ،مال و منال کیا رکھتے
 
آپ اس وقت فورم پر تشریف فرما ہیں » کیٹگری فورم » دلچسپ اسلامی تاریخی واقعات » تاريخ غلاف کعبہ (تاريخ غلاف کعبہ)
  • Page 1 of 1
  • 1
Search: