بدھ
2024-04-24
3:17 PM
Welcome مہمان
RSS
 
Read! the name of lord پڑھ اپنے رب کے نام سے
Home Sign Up Log In
حج - آپ اس وقت فورم پر تشریف فرما ہیں »
[ Updated threads · New messages · Members · Forum rules · Search · RSS ]
  • Page 1 of 1
  • 1
آپ اس وقت فورم پر تشریف فرما ہیں » کیٹگری فورم » اسلام » حج (حج کے لغوی معنی ارادہ کرنے کے ہیں)
حج
lovelessDate: اتوار, 2011-09-18, 11:21 PM | Message # 1
Colonel
Group: ایڈ منسٹریٹر
Messages: 184
Status: آف لائن
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
حج کے لغوی معنی ارادہ کرنے کے ہیں۔ارکانِ اسلام میں حج پانچواں اہم رکن ہے۔ نماز، روزہ اور زکوٰۃ کی طرح حج کا انکار کرنے والا شخص بھی اسلام کے دائرے سے باہر سمجھا جاتا ہے اور اس مسئلے پر امت میں کوئی اختلاف نہیں۔ حج زندگی میں ایک بار ہر اس مسلمان پر فرض ہے جو اسکی استطاعت رکھتا ہو۔
حج کی فرضیت: حج کی فرضیت اور اہمیت قرآن و حدیث میں بڑی واشگاف الفاظ میں بیان ہوئی ہے۔ قرآن میں اللہ نے حکم دیا ’’جو استطاعت رکھے اس پر اس گھر کا حج فرض ہے اور جو کوئی انکار( کفر ) کرے تو اللہ عالم والوں سے بے پرواہ ہے‘‘( آل عمران:۹۷)۔اسی طرح ایک حدیث کے مطابق نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ’’ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ توحید ورسالت، نماز کا قیام، زکوٰۃ کی ادائیگی ، حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا‘‘( بخاری ۔کتاب الایمان: حدیث ۸)۔ حضرت عمر کا قول ہے ’’جو شخص وسعت اور پر امن راستے کے باوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتا ہے تو وہ چاہے یہودی ہو کر مرے یا نصرانی ہوکر‘‘(سنن کبریٰ بیہقی: ۴۔۳۳۴) ۔ اسی مضمون کی ایک اور حدیث ضعیف سند کے ساتھ مروی ہے کہ’’ جو استطاعت کے باوجود حج نہ کرے اس کے لئے یہ برابر ہے کہ وہ یہودی ہو کر مرے یا نصرانی ہو کر‘‘(سنن ترمذی: حدیث ۸۱۲) ۔لہٰذا حج استطاعت کے باوجود نہ کرنے کا نتیجہ کفر کی شکل میں نکل سکتا ہے۔
عمرے کی حیثیت: جہاں تک عمرے کا تعلق ہے تو یہ ایک نفلی عبادت ہے اور کوئی اگر استطاعت کے باوجود ساری عمر عمرہ نہ کرے تو اس کا کوئی مواخذہ نہیں
حج و عمرے کی فضیلت: احادیث میں حج کی بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ نبی کریم ﷺکا ارشاد ہے کہ ’’حج اور عمرہ کرو کیونکہ یہ دونوں فقر اور گناہوں کو دور کرتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے، چاندی اور سونے کے میل کو دور کرتی ہے‘‘(مشکوٰۃ جلد اول: ۲۰۔۲۴۱۰) جبکہ ’’ حج مبرور کا بدلہ تو جنت کے سوا کچھ نہیں‘‘( متفق علیہ)۔ اسی طرح ارشاد فرمایا کہ’’ جو شخص اللہ کے لئے حج کرے، اپنی عورت سے صحبت کی باتیں نہ کرے اور گناہ سے گریز کرے وہ واپسی پر گناہوں سے اس طرح پاک ہوکر آتا ہے جیسے آج ہی اسکی ماں نے جنا ہو‘‘(مشکوٰۃ جلد اول: ۳۔۲۳۹۳)۔
حج بارے میں لوگوں کا رویہ: حج ہر صاحب استطاعت مسلمان پر فرض ہے۔ شریعت نے ’’استطاعت‘‘ کی تخصیص نہیں کی۔ اس کا تعلق ہر فرد کے اپنے حا لات سے ہے۔ کہیں استطاعت کا مطلب محض سواری اور زادِ راہ(کے لئے مال) کا بندوبست ہے تو کہیں یہ امن و امان، صحت اور دیگرلوازمات پر منحصر ہے۔ لیکن حج کی استطاعت کا تعین کرنا کوئی الجبرا کا مشکل سوال نہیں کہ حل نہ ہو سکتا ہو ۔ ہر صاحبِ شعور شخص یہ آسانی سے معلوم کر سکتا ہے کہ اس پر حج فرض ہے یا نہیں۔ اس ضمن میں اہلِ علم حضرات سے بھی مدد لی جاسکتی ہے۔
ہماری سوسائٹی میں دو قسم کے افراد پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ جو حج کی استطاعت نہیں رکھتے۔ ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اسستطاعت کے اسباب پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ سے دعا کرتے رہیں اور حج کی نیت رکھیں ۔ممکن ہے اللہ کوئی راستہ نکال دے۔ باقی وہ لوگ جو استطاعت رکھنے کے باوجود محض سستی، خوف، کنجوسی، لاپرواہی یا دیگر بہانوں سے تاخیر کررہے ہیں وہ اپنے ایمان کا ازسرِ نو جائزہ لیں۔وہ یہ جانیں کہ حج کی دین میں کیا اہمیت ہے، اور ایک دن آنے والا ہے جب وہ خدا کے سامنے کھڑے ہو کر حج نہ کرنے کا عذر بیان کریں گے اور اگر اللہ نے وہ عذر تسلیم نہ کیا تو انجام کیا ہوگا۔
حج و عمرہ کا مختصرطریقہ: حج اور عمرہ ان عبادات میں سے ہیں جو عموماََ زندگی میں ایک ہی مرتبہ کی جاتی ہیں۔چنانچہ انکی ادائیگی کا طریقہء کار یاد رکھناایک مشکل کام ہے۔ عمرہ کا طریقہ یہ ہے کہ عمرے کی نیت سے میقات سے باہر احرام باندھ کر تلبیہ کہتے ہوئے مکے کی طرف کوچ کیا جائے۔ بیت اللہ کے سات چکر لگا کر صفا و مروہ کی سعی کی جائے پھر بال کٹواکر احرام اتار دیا جائے۔
دوسری جانب حج ذوالحج کے مہینے کی ۸ تاریخ سے شروع ہوتا اور ۱۲ تاریخ تک جاری رہتا ہے۔ ابتدا اسی طرح احرام باندھ کر ہوتی ہے۔ ۸ ذوالحج کو منیٰ میں قیام، ۹ کو عرفات کا وقوف، مغرب پر مزدلفہ روانگی اور وہاں رات کا قیام، ۱۰ کو منیٰ روانگی اور جمرۂ عقبہ کی سنگباری ، قربانی، اور پھر سر منڈھواکر یا قصر کراکے احرام اتار دینا۔ ۱۱ اور ۱۲ ( اور اگر چاہیں تو۱۳ ذوالحج) کی تاریخوں میں منیٰ میں قیام اور بیت اللہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی۔ ان اراکین کی فقہی تفصیل دیگر کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔
حج اور عمرہ کا فلسفہ و مقصد:
حج اور عمرہ کے اس ظاہری پہلو کے علاوہ اسکا ایک باطنی رخ بھی ہے جس سے ہمارے علماء عام طور پر صرف نظر کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ معترضین کے طنز و تشنیع کی صورت میں نکلتا ہے کہ حج اور ہندو یاترا میں (نعو ذ باللہ) کوئی فرق نہیں ،یا یہ عمل وقت اور پیسوں کا ضیاع ہے وغیرہ۔ ذیل میں اراکین اور شعائرِ حج کے فلسفے پر روشنی ڈالی جارہی ہے تاکہ اصل مقصود سامنے رہے۔
۱۔فطرت کی جانب واپسی:
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی پسندیدہ فطرت پر پیدا کیا ہے۔لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اس پر گناہو ں کی گرد جمنا شروع ہوجاتی ہے اور اگر اس کا تدارک نہ کیا جائے توفطرت مکمل طور پر پراگندگی کا شکار ہوجاتی ہے۔ حج کا بنیادی مقصد انسان کوروحانی تطہیر کا ایک موقع فراہم کرنا ہے تاکہ وہ گناہوں سے پاک ہو کر اپنی اصل فطرت پرلوٹ آئے۔
۲۔عبادات کا پیکیج
اللہ نے انسانوں کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا اورحج بہت سی عبادات کا مجموعہ ہے ۔اس میں نماز ، انفاق ، ہجرت، بھوک و پیاس، مجاہدہ، جہاد، زہد و درویشی ،قربانی، صبر، شکر سب شامل ہیں۔حج ان تمام عبادات کا ایک ایسا پیکیج فراہم کرتا ہے جو انسان کی روحانی بیماریوں کے لئے اکسیر کا کام کرتا ہے۔
۳۔ابلیس کے خلاف جنگ
اسی طرح حج مومن کو اسکے ازلی دشمن ابلیس کے خلاف تمثیلی جنگ میں برسرِ پیکار کرتا ہے۔ وہ ابلیس جس نے انسان کو سجدہ کرنے سے انکار کیا، اسے حقیر سمجھا ، جنت سے نکلوایااور پھر دنیا میں گھات لگا کر بیٹھ گیا تاکہ اسے اپنے رب کے سامنے نااہل اور ناکام ثابت کردے۔ حج اسی ازلی اور دشمن کی شناخت کراتا ، اسکے چیلنج کی یاد دلاتا اور اس کو سنگسار کرکے طاغوتی رغبات کو کچلنے کا درس دیتا ہے۔
۴۔ اسلامی شعائر سے آگاہی
حج اورعمرہ کا ایک اور مقصد امتِ مسلمہ کو اس کے مرکز ، تاریخ اور شعائر سے آگاہ کرنا ہے۔شعائر جمع سے شعیرہ کی جس کا مطلب نشانی، علامت اور یادگار ہے۔ایک بندۂ مومن اپنے محبوب خدا کی نشانیوں سے محبت کرتا، انکی تکریم کرتا اور ان کے پیچھے خدا کو محسوس کرکے جذبہء پرستش کو تسکین دیتا ہے۔ چنانچہ بیت اللہ دیکھ کر وہ خدا کی ہیبت، اسکی انوار و تجلیات اور اسکی رحمتوں کا مشاہدہ کرتا اور پروانے کی مانند چکر لگاتا ہے۔حجر اسود کو خدا کا ہاتھ سمجھتے ہوئے اسکا بوسہ دیتا اور تجدید عہد کرتاہے۔ملتزم کو خدا کے گھر کی چوکھٹ گردانتے ہوئے اس سے بھکاری کی مانند چمٹ جاتاہے۔ صفا و مروہ کے چکر کاٹتا اور خاندان ابراہیم کی سعی(کوشش) کی یاد تازہ کرتا ہے۔
۵۔ تاریخ سے واقفیت
حج اور عمرے کے ذریعے امتِ مسلمہ کی ہر نسل اپنے اسلاف کے کارناموں اور انکے تاریخی ورثے سے روشناس ہوتی رہتی ہے کہ کس طرح ابرہیم ؑ نے اپنے رب کے اشارے پر اپنی بیوی اور بچے کو ایک بنجر وادی میں بسایا، اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کی سعی کی، کعبہ تعمیر کیا، لوگوں کو حج کی جانب بلایا ،اور مکہ کو امن و سکون کا گہوارہ بنانے کی دعا کی۔ اسی طرح مکے کی پہاڑیاں خدا کے آخری پیغمبر ﷺ اور انکے جاں نثار ساتھیوں کی جدوجہد، قربانیوں ، ان پر ہونے والے مظالم اور آخر میں انکی ہجرت کی داستان بیان کرتی ہیں۔
۶۔ روحانیت
حج کا ایک اور مقصد تقوٰی کا حصول ، دنیا سے دوری اور روحانیت کو فروغ دینا ہے۔ بندہ اپنے رب کی رضا کے لئے دنیا کی زینت کو خود پر حرام کرلیتا ہے۔ وہ اپنا میل کچیل دور نہیں کرتا، ناخن نہیں کاٹتا، جائز جنسی امور سے گریز کرتا ، مختصر
لباس زیب تن کرتا، برہنہ پا اور ننگے سر ہوکرروحانی مدارج طے کرتا اور خدا کا تقرب حاصل کرتا ہے۔
ارکانِ حج کا فلسفہ:
ذیل میں حج کے ہر رکن کا انفرادی مقصد اور فلسفہ بیان پیش خدمت ہے تاکہ ہر حج کرنے والا شعوری طور پر آگاہ رہے کہ وہ کیا کرہا ہے۔
۱۔احرام: حج درحقیقت شیطان کے خلاف ایک تمثیلی جنگ کا اظہار ہے۔ چنانچہ بندہ مومن جب شیطان سے برسرِ پیکار ہونے کے لئے اپنے رب کی پکار سنتا ہے تو ان سلے کپڑوں کی وردی زیب تن کرلیتا ہے ۔ یہ احرام اس بات کی علامت ہے اس پر اب تمام جائززیب و زینت ، شہوانی لذت اور دنیاسے قربت کی ہر علامت حرام ہے یہاں تک کہ وہ اپنے دشمن ابلیس پر سنگباری کر کے اسے مسمار نہ کردے
۲۔ تلبیہ: اپنے کمانڈر کے بلاوے پر بندہ برہنہ پا یہ کہتے ہوئے نکل کھڑا ہوا کہ اے رب میں حاضر ہوں ، حاضر ہوں کہ تیرا کوئی شریک نہیں، تعریف تیرے ہی لئے، نعمت تیری ہی ہے اور تیری ہی بادشاہی ہے جس میں تیرا کوئی شریک نہیں۔ یہ ترانہ پڑھتے ہوئے اپنی وفاداری کا اظہار کرتا، شیطان کی دعوت کا انکار کرتا، اپنا مورال بلند کرتا، او ر یقینی فتح کے نشے میں جھومتے ہوئے دشمن کے تعاقب میں نکل کھڑا ہوتا ہے۔
۳۔حدودِحرم: اب یہ مجاہد حرم کی حدود میں داخل ہوا چاہتا ہے۔مکہ کے ارد گرد کے متعین علاقے کو اللہ تعالیٰ نے حرم قرار دیا ہے۔حرم کا مطلب ہے حرمت والی جگہ ۔ یہ حدود حرم بادشاہ سے قربت کی علامت ہے۔ جب ایک شخص بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوتا ہے تو اس کا پورا وجود انتہائی ادب اور احترام کی تصویر پیش کرتا ہے۔ نگاہیں نیچی،اعضا ساکن، ہاتھ بندھے ہوئے اور چہرے پر سنجیدگی ۔ گویا ہر عضو یہ کہ رہا ہے کہ سرکار میں آپ کا تابعدار اور وفادار ہوں۔ اس دربار میں جماہی بھی گستاخی سمجھی جاتی اور معمولی غلطی بھی کڑی سزاکا پیغام بن جاتی ہے۔ یہ حرم بادشاہوں کے باشاہ کا دربارہے ۔اس دربار کا اپنا پروٹوکول ہے۔ یہاں لمحوں کی غلطی ابدی سزاکا پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔ اس دربار میں معصیت بدرجہء اولیٰ حرام ہوجاتی اور کچھ جائز امور پر اضافی پابندی لگ جاتی ہے۔مثلاََ یہاں حکم ہے کہ ادب پیشِ نظر رہے، خیالات پاکیزہ ہوں، کسی جاندارنہ مارا جائے، کسی پتے یا گھاس کو نہیں توڑا جائے اور کسی کو ایذانہ پہنچائی جائے ۔
۴۔منیٰ میں قیام: ۸ ذوالحج کو یہ سرفروش دیگر مجاہدین کے ساتھ ایک میدان میں پڑاؤ ڈالتا ہے جہاں دشمن سے مقابلے کی تیاری کرنی ہے۔ یہاں وہ اپنے رب کی حمد و ثنا کرتا، اس سے مقابلے میں کامیا بی کی بھیک مانگتا، اس سے راہ نمائی طلب کرتا اور ماضی کی کوتاہیوں پر نادم ہو کر مغفرت کاطلب گار ہوتا ہے۔یہاںیہ اپنے تقویٰ، صبر ، استقامت اور نفس کشی کے ہتھیار تیز کر تا ہے تاکہ اگلے محاذپر کوئی دقت نہ ہو۔
۵۔ عرفات کا وقوف: اگلے دن یہ کفن پوش مجاہد ایک کھلے میدان میں پہنچ کر دشمن پر اپنی طاقت کا اظہار کرتااور اپنے امام کا خطبہ سنتا ہے جو اس تمثیلی جنگ میں انہیں آگاہ کرتا ہے کہ ان کے رب کا کیا حکم ہے اور دشمن کس طرح سے گھات لگا کر بیٹھا ہے؟ عرفات یہ سبق دیتا ہے کہ کڑی دھوپ میں بھی ہمت نہیں ہارنی، حوصلے پست نہیں کرنے بلکہ اس ازلی دشمن کو یہ بتانا ہے اسکی شکست میں ہی ہماری زندگی ہے۔ آج اس نفس کو مشقت کا عادی نہ بنایا تو کل شیطان کا پلہ بھاری ہوگا پھر وہ آرام طلب نفس کو اپنی مرضی سے چلائے گا اور یہ انسان گناہوں کی دلدل میں دھنستا چلا جائے گا۔
۶۔ شبِ مزدلفہ: دشمن سے مڈبھیڑ ہونے میں بس اب ایک رات باقی ہے ۔ چنانچہ عرفات کے میدان سے اگلے مورچے پر پڑاؤ ڈالا جاتا ہے۔ اوپر کھلا آسمان ہے، نیچے کوئی بستر نہیں۔ مگر کیا ہو ا؟ چند لمحوں کی بات ہے پھر یہ شیطان اور نفس کے خلاف معرکہ آرائی ختم ہوگی اور یہ مجاہد خدا کے انعام سے سر فراز ہوگا۔مزدلفہ کے میدان میں پہنچ کر تھکن بہت ہو گئی۔ کچھ دیر سستا کر یہ حوصلہ مند مجاہد اگلے دن دشمن پر جھپٹنے کے لئے تازہ دم ہو تا ہے۔
۷۔ رمی: صبح ہوگئی اور تاریکی ختم ہوئی۔ اس طرح قیامت کی صبح بھی ہوگی اور ظلم و عدوان کے اندھیرے مٹ جائیں گے۔ آج گھمسان کا رن پڑنے والا ہے۔ آج وہ دشمن سامنے ہے جس نے ہمارے ماں باپ کو جنت سے نکلوایا،ان سے پوشاکیں چھین لیں، ہابیل و قابیل کولڑوادیا،اور پھر کثیر خلقت کو شرک ، زنا اور قتل پر اکسا کر خدا کی راہ سے برگشتہ کردیا۔
آج یہ حاجی اسی راہ پر ہے جہاں چار ہزار سال قبل ابراہیم ؑ تھے ۔ جب انہوں نے اسماعیل ؑ کو لیا اور اسے قربان کرنے کے لئے آگے بڑھے ۔ اسی اثنا میں ا بلیس آدھمکا اورابراہیم ؑ کے کان میں سرگوشی کی کہ پاگل ہوئے ہو؟ کیا اپنی اولاد کو اپنے ہاتھوں سے قتل کروگے ؟ ابراہیم ؑ نے اس پر سنگباری کی اور دھتکار دیا ۔ آج اس بندے نے بھی شیطانی وسوسوں سے مغلوب نہیں ہونا بلکہ اسے سنگسار کرکے طاغوت کا انکار کرنا ہے۔ جب کنکریاں مار دی گئیں تو تلبیہ ختم ہوا کیونکہ شیطان کی ناک رگڑی جاچکی اور رحمان کا بول بالا ہوا۔
۸۔ قربانی: ہر حاجی ابرہیم ؑ تو نہیں کہ اپنی اولاد کو قربان کرنے کی ہمت کرپائے۔ البتہ جانور کی قربانی علامتی اظہار ہے کہ وقت پڑنے پر یہ اپنی جان ، اپنا مال، اپنی اولاد اور سب کچھ خدا کے قدموں میں نچھاور کردے گا۔ کیونکہ خدا تو وہ ہے جس کے قبضے میں زمین کے سارے خزانے اور آسمان کی تمام دولتیں ہیں، وہی اولاد دیتا اور چھینتا ہے،یہ سانسیں اسی کی دی ہوئی ہیں ۔ اگر وہ مال یا جان میں سے کوئی حصہ مانگے تو اپنی دی ہوئی چیز ہی مانگ رہا ہے۔ پھر اگر وہ آزمائش کے لئے کچھ چھین لیتا ہے تو اس دنیا اور آخرت میں کئی گنا عطا کر دیتا ہے۔آج کی قربانی میں حاجی نفس کے ہر اس تقاضے پر چھری پھیر دیتا ہے جو اسے خدا سے دور اور شیطان کے قریب کرے۔
۹۔حلق: زمانہء قدیم میں جب لوگوں کو غلام بنایا جاتا تو انکا سر مونڈ دیا جاتا تھا جو اس بات کی تعبیر ہوتی کہ یہ کسی کا غلام ہے۔ حاجی نے علامتی طور پر غلامی کے لوازمات پورے کردئیے ہیں لہٰذا یہ بھی اپنا سر منڈا کر خدا کی غلامی کی تجدید کرتا اور ہمیشہ اسی کا وفادار رہنے کا عہد کرتا ہے کہ وہ ہر سرد و گرم ،دھوپ اور چھاؤں، فقروامارت ، تنگی و آسانی پر راضی رہے گا کیونکہ وفادار غلاموں کا یہی شیوہ ہوتاہے۔
۱۰۔ احرام اتارنا: احرام باندھنادنیا سے لا تعلقی کی علامت تھی ۔ اب اس علامتی جنگی مشق کے بعد دوبارہ اس دنیا میں واپسی کا سفر شروع کرنا ہے جہاں شیطان بھی ہے اور نفس بھی۔ امید ہے خدا کی نصرت سے اس دنیا کی جنگ میں بھی کامیابی ملے گی ۔ چنانچہ حاجی دنیا میں واپسی کی ابتدا سر منڈوا کر کرتا ہے۔پھر وہ میل کچیل دورکرکے غسل کرتا، ناخن تراشتا ، خوشبو لگاتا اورخدا کی بڑائی بیان کرتے ہوئے بیت اللہ کی طرف دوڑتا ہے جہاں ایک پروانے نے شمع پر جان نثار کرنی ہے۔
۱۱۔ طواف: ۔ خانہء کعبہ وہ پہلا گھر ہے جسے اللہ نے عبادت کے لئے تعمیر کیا۔ بعد میں حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل علیہما السلام نے اللہ کے حکم سے اس کی تعمیرِنو کی۔ ایک تحقیق کے مطابق یہودیوں کا بھی یہی قبلہ تھا اور بیت المقدس کا رخ کعبہ کی طرف ہی تھا۔ بعد میں یہودیوں نے تحریف کرکے کعبے کا ذکر ہی بائبل سے غائب کردیا۔ طواف کی حقیقت یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کے زمانوں کی روایت تھی کہ قربانی کے جانور کو معبد( عبادت گاہ) کے گرد پھیرے دلوائے جاتے تھے جس سے معبد کی عظمت اور قربانی کے ثمرات کا استحضارہو تا تھا ۔ طواف اسی روایت کا علامتی اظہار ہے۔
اب یہ سرفروش کعبہ کے سامنے کھڑا ہے جو خدا کے جلا ل ، اسکی عظمت ، اسکی ہیبت اور اسکے انوارو تجلیات کا مرکز ہے۔ یہ بیت اللہ کا طواف کرنے کے لئے تیار کے لئے بے تاب ہے تاکہ وہ اپنی خوہشات، رغبات، شہوات، مفادات اور تعصبات کو خدا کی رضا اور اس کے حکم پر قربان کرنے کا اظہارکر سکے۔ہر چکر پر حجرِ اسود کا بوسہ یا استلام درحقیقت اپنا ہاتھ اللہ کے ہاتھ میں دینے کی تعبیر ہے تاکہ اللہ سے کئے ہوئے عہد کی تجدید کی جاسکے۔
۱۲۔ سعی: سعی کے لغوی معنی کوشش کے ہیں۔ مسلمانوں کی معروف روایات کے مطابق سعی حضرت حا جرہ ؑ کی اضطرابی کیفیت کی نقالی ہے جو انہوں نے پانی کی تلاش میں صفا اور مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان دوڑ کر کی۔ لیکن دیگر علما ء کی تحقیق کے مطابق حضرت ابراہیم ؑ جب حضرت اسمٰعیل کو قربان کرنے کے لئے صفا پر پہنچ کر آگے بڑھے تو شیطان نے حکم عدولی کے لئے وسوسہ ڈالا۔ اس وسوسے کے برخلاف وہ حکم کی تعمیل کے لئے تیزی دوڑے اور مروہ پر پہنچ کر لختِ جگر خدا کے قدموں میں ڈال دیا۔ بہرحال سعی شیطان کی ترغیب سے بھاگنے اور خدا کی رضا کی جانب دوڑنے کا نام ہے۔
۱۳۔ منیٰ میں دوبارہ قیام اور رمی : ۱۱ اور ۱۲ ذوالحج کو منیٰ کی وادی میں دوبارہ خیمہ زن ہوا جاتا ہے جہاں اس جہاد کا اگلا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ یہاں حاجی خدا کی بڑائی بیان کرتا، اسکی حمد کرتا، اس سے اپنی محبت کا والہانہ اظہار کرتا اور اسکی یاد سے دل کے سوتے تر کرتا ہے۔ یہاں اس نے قیام کرنا اور تینوں جمرات( شیطانوں )کو سنگسار کرنا ہے۔ اس قیام کا فلسفہ یہی ہے ابھی جنگ جاری ہے اورشیطان اور نفس کے خلاف جدوجہد کوئی ایک دن کا کام نہیں بلکہ یہ عمل پیہم ہے۔
۱۲ یا ۱۳ ذوالحج کے بعد حج ختم ہوا ۔ گناہوں سے آزادی کے بعد بندہ اپنی فطرت پر واپس آچکا ہے جس طرح وہ اپنی پیدائش کے وقت تھا۔ اب وہ تربیت حاصل کرچکا ہے کہ کس طرح عملی دنیا میں شیطان اور نفس کے خلاف جنگ کرنی ہے۔
۱۴۔ طوافِ وداع: حرم کی حدود سے نکلنے کے لئے بیت اللہ کا طواف کرنا ہے جو بادشاہ کے دربار کا الوداعی سلام ہے ۔ یہ طواف جو ایک مرتبہ پھر اپنی قربانی کے وعدے کی تجدید ہے۔
حج کی آفات اور انکا علاج
حج کا بنیادی مقصد جیسا کہ بیان کیا گیا معصیت کی زندگی سے آزادی اور وحانی امراض سے نجات ہے۔ لیکن اکثر حاجی اس مقصد کو حاصل کرنے کامیاب نہیں ہو پاتے اور وہ گئے تو شیطان کو شکست دینے تھے لیکن خود ہی ہار کے آجاتے ہیں۔ اس کا ثبوت حج کے بعد شروع ہونے والی بے روح زندگی سے ملتا ہے ۔ حج کی برکتیں سمیٹنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ شیطان اور نفس کے فریب سے آگاہی حاصل کرکے اس سے نبرد آزما ہونے کی بھر پور کوشش کریں۔ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل آفات کو سمجھنا اور ان سے نبٹنا ضروری ہے۔
۱۔نیت کی آفت ۲۔ شہوانی امور میں ملوث ہونا ۳۔ فسق وفجور یعنی گنا ہ کے کام ۴۔لڑائی جھگڑے کا رحجان ۵۔اللہ کے شعائر کی بے حرمتی ۶۔بازاروں کا طواف ۷۔ دعا کی روح سے محرومی ۸۔ظاہری فقہ میں اشتغال ۹۔ زیارتِ مدینہ کی آفات ۱۰۔ دنیا میں واپسی
۱۔نیت کی خرابی:
ہر عمل کا دارومدار نیت پر ہے۔حج اور عمرہ کا ارادہ کرتے وقت دل میں یہ نیت نہ ہو کہ شاپنگ کرنی ہے، سعودی عر ب کی تفریح کرنی ہے، نا م کے ساتھ حاجی لگوانا یالوگوں پر دھاک بٹھاکر مرعوب کرنا ہے ۔ بلکہ اپنی نیت کو خالص کرتے ہوئے محض خدا کی خوشنودی کو پیش نظر رکھیں کہ اللہ راضی ہو جائے اور وہ خوش ہو کر گناہوں کو مٹادے، اپنی جنت لکھ میرے نام کردے اور جہنم سے آزادی کا پروانہ جاری کردے۔۔ یاد رکھیں اس سفر میںآپ کو وہی ملے گا جس کی آپ تمنا کی۔
۲۔ شہوانی امور میں ملوث ہونا:
حج اور عمرہ میں جائز جنسی تعلق پر بھی پابندی لگ جاتی ہے یہاں تک کہ میاں بیوی کا شہوت کی باتیں کرنا بھی ممنوع ہے۔بالعموم لوگ اس کا خیال رکھتے ہیں لیکن بھول چوک ایک فطری امر ہے۔ چنانچہ میاں بیوی کے تعلقات میں احتیاط کے لئے بہتر ہے کہ مخصوص دنوں میں علٰحیدہ سونے کا انتظام کیا جائے۔ او ر گفتگو میں احتیاط سے کام لیا جائے۔
دورانِ حج اور بالخصوص طواف میں نامحرموں سے اختلاط کے مواقع بڑھ جاتے ہیں۔جب مختلف قومیتوں کے مرد اور خواتین کھلے چہرے کے ساتھ نظر آتے ہیں تونگاہیں قابو میں نہیں رہتیں۔ دوسری جانب طواف کے دوران رش میں نامحرموں کے آپس میں ٹکرانے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ لیکن گناہ یہ نہیں کہ نا محرم پر نظر بالکل نہ پڑے بلکہ معصیت یہ ہے کہ ارادتاََ نظر ڈالی جائے، یا نظر پڑ جانے پر لذت حاصل کی جائے یا بدن ٹکرانے پر محظوظ ہوا جائے۔ یا د رہے کہ آپ خدا کے دربار میں موجود ہیں اور یہ تو بڑی دیدہ دلیری ہے کہ بادشاہ کی آنکھوں کے سامنے بے حیائی اور بے شرمی برتی جائے۔ اس کا علاج یہ ہے آنکھوں کو قابو رکھا جائے، نظر پڑنے پراسے فوراََ ہٹالیا جائے۔ کہ خیالات کو پاکیزہ رکھا جائے اورطواف میں ٹکراؤ سے بچنے کے لئے احتیاط برتی جائے۔ اسی کے ساتھ ساتھ ہر لمحہ اللہ کی یاد دل میں رکھی جائے کہ وہ میرے سامنے موجود ہے، اس کا گھر میری نگاہوں میں ہے، اور وہ دلوں کے بھید بھی جان لیتا ہے۔
۳۔ فسق وفجور یعنی گنا ہ کے کام:
ہر چھوٹا یا بڑا گناہ خدا کی حکم عدولی ہے لیکن حرم کی حدود میں تو بے ادبی بھی گوارا نہیں چہ جائکہ گناہ کی گنجایش ہو۔عام طور پر جو گناہ سرزد ہوتے ہیں ان میں غیبت، چغلی، بدکلامی ، جھوٹ ،ایذا رسانی، بد نگاہی، چوری، بددیانتی اور اللہ کے شعائر کی بے حرمتی شامل ہیں۔جہاں تک کلام سے متعلق گناہوں کا تعلق ہے تو اسکا سبب بے احتیاطی ہے۔ چنانچہ کم گوئی ، سوچ کر بولنے کی عادت اور ذکراللہ کی کثرت سے زبان کو گناہوں سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ جبکہ چوری اور دیگر گناہوں کا سبب ایمان کی کمزوری ہے جس کا علاج اچھے اہلِ علم کی صحبت اور قرآن کا تدبر سے مطالعہ ہے۔
۴۔ لڑائی جھگڑا:
اس اجتماعی عبادت میں بارہا مواقع آتے ہیں جب ایک دوسرے سے تکرا ر اور لڑائی جھگڑا ہونے کے امکانات ہوتے ہیں۔ طواف اور رمی کے دوران رش کی زیادتی ، منیٰ میں جگہ کی تنگی اور بیت الخلا کی تعداد میں کمی، بسوں میں تکالیف اور ٹریفک جام وغیرہ وہ امور ہیں جو چڑچڑاہٹ، غصہ اور بالآخر فساد کی بنیاد بن جاتے ہیں۔ اس کا اصولی علاج تو یہ ہے کہ شیطانی وسوسوں اور نفس کے تقاضوں پر صبر اور تحمل سے کام لیا جائے ۔ دوسرا یہ کہ فساد کے اسباب سے ہر صورت اجتناب برتا جائے مثال کے طور پر طواف میں دوسروں کے دھکوں اور تکالیف پر صبر اور عفو درگذر اختیا ر کرتے ہوئے اللہ سے اجر کی امید رکھیں۔ حجر اسود ، ملتزم اور حطیم تک پہنچنے کی ایسی کوشش نہ کریں جو لوگوں کو دھکا دینے یا اذیت کا سبب بنے کیونکہ دوسروں کو اذیت دینا حرام اور حجر اسود کا بوسہ نفل ہے۔ لہٰذا ایک نفل کے لئے حرام کام کرنا کوئی نیکی نہیں۔اسی طرح مقام ابراہیم یا مطاف میں طواف کے نفل رش کے اوقات میں پڑھنے سے گریز کریں۔
کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر انہوں نے حجر اسود کو بوسہ نہ دیا ، حطیم میں نماز نہ پڑھی، ملتزم سے نہ چمٹے تو انکا حج ادھورا رہ جائے گا یا کم از کم وہ اس کے عظیم اجر سے محروم رہ جائیں گے۔ حقیقت اس کے برخلاف ہے۔ دوسروں کو تکلیف سے بچانے کے لئے بوسے کی جگہ استلام زیادہ اجر کا باعث ہے۔ اسی طرح سینکڑوں لوگوں کو دھکا دے کر ملتزم سے چمٹنے کی بجائے ملتزم کو دور سے دیکھ کر مانگی گئی دعا کی قبولیت کا زیادہ امکان ہے۔
منیٰ میں قیام کے دوران جگہ کی تنگی ہوتی ہے چنانچہ ایثار کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے بھائی کے لئے اپنا حق بھی چھوڑنے کاپر آمادہ ہو جائیں۔ باتھ رومز میں بہت رش ہوتا اور لائنیں لمبی ہوتی ہیں۔ چنا نچہ لائن میں کھڑے ہو کر بد دیانتی یا بے صبری نہ کریں ، نیز کم سے کم کھانے پینے کو ترجیح دیں تاکہ زیادہ باتھ روم نہ جانا پڑے۔بسوں میں سفر کے دوران بھی اسی ایثار ، ہمدردی اور صبر کا مظاہرہ کریں۔
اسی طرح عرفات سے مزدلفہ جاتے وقت لوگ راستوں میں ہی بیٹھنا شروع ہوجاتے ہیں جس پیچھے آنے والے لوگوں کو شدید تکلیف ہوتی ہے اور تصادم کا خطرہ بڑھ جاتا ہے ۔گذرگاہ میں ہرگز نہ بیٹھیں خواہ آ پ کو کتنا ہی پیدل کیوں نہ چلنا پڑے۔
۵۔االلہ کے شعائر اور حدود کی بے حرمتی:
جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا کہ مکہ حرم ہے جہاں چند جائز کام بھی حرام ہو جاتے اور ناجائز امور کی کراہیت تو بدرجہ اولیٰ بڑھ جاتی ہے۔ اسی طرح خانہء کعبہ، حجرِ اسود، مسجدالحرام ، صفا اور مروہ وغیرہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں ۔ انکا احترام ، تعظیم اور تکریم کرنا فرض ہے۔ لیکن عمومی طور پر مسلمانوں کا رویہ کچھ مناسب نہیں۔ مسجدالحرام میں نمازوں کے اوقات کے علاوہ ایک شور کی سی کیفیت ہوتی ہے۔ اسی طرح مسجد میں دنیاوی باتیں ، موبائل کی بے ہودہ ٹیونز کا استعمال، کھانا ،پینا ، سونا اور کعبہ کی طرف ٹانگیں کرنا ایک معمول ہے۔ دوسری جانب کچھ لوگ آبِ زمزم سے ناک صاف کرتے، وضو بناتے اور بعض اوقات غسل تک کرکے گندگی پھیلانے کا سبب بنتے ہیں۔اس کا علاج یہ ہے کہ حج یا عمرے پر جانے سے پہلے تربیت حاصل کی جائے اور خدا کی نشانیوں کی ہیبت دل میں رکھی جائے ورنہ اس سفر کے ثمرات کے ضایع ہونے کا اندیشہ ہے۔
۶۔بازاروں کا طواف:
مسجد حرام اور مسجد نبوی کی حدود سے باہر نکلتے ہی بازار شروع ہوجاتے ہیں ۔ چونکہ حج اور عمرے میں فراغت بہت ہوتی ہے لہٰذا لوگ نمازوں سے فارغ ہوتے ہی بازاروں کا رخ کرتے ہیں۔ کچھ لوگ تو اپنے وطن سے نکلتے وقت ہی ایک طویل فہرست لے کر چلتے اور پھر اس کی تکمیل میں مکہ و مدینہ کی تمام دوکانوں کا طواف کرڈالتے ہیں۔ چنانچہ وہ وقت جو اللہ کے گھر کے طواف ،دنیا سے دوری ، زہد اور درویشی اختیا ر کرنے میں صرف ہونا چاہئے تھا وہ شاپنگ کی نظر ہوجاتا ہے اور شیطان کا داؤ چل جاتا ہے۔
پہلی بات تو یہ سمجھنی چاہئے کہ یہ دور آزادانہ تجارت کا دور ہے۔ آج جو اشیاء عرب ملکوں میں دستیاب ہیں وہ تمام چیزیں کم و بیش اسی دام میں پاکستانی اسٹوروں پر بھی موجودہیں۔ لہٰذا خوا مخواہ کا بوجھ لاد کر لانا بے وقوفی ہے۔
بازاروں سے بچنے او ر فراغت کو ختم کرنے کے لئے طواف کثرت سے کریں کیونکہ یہ وہ عبادت ہے جو دنیا میں کہیں اور نہیں کی جاسکتی۔ اسی طرح مسجدِ حرام میں نوافل و تسبیحات کا اہتمام کریں کیونکہ اس مسجد میں نماز کا اجر ایک لاکھ گنا زیادہ ہے۔ خانہ کعبہ کا دیدار کریں اور خدا سے دعائیں مانگیں، اسکی حمد و ثنا کریں۔ پھر اپنی قیام گاہ میں آکر قرآن کا غور سے مطالعہ کریں۔ پیغمبر کی سیرت پر کتاب( مثلاََالرحیق المختوم) پڑھیں اور مکہ مدینہ کی گلیوں میں گھوم کر ابراہیم و اسماعیل،نبی کریم ﷺ اور صحابہ کی یادیں تازہ کریں ۔
۷۔دعا کی روح سے محرومی:
کچھ لوگ طواف اور سعی کرتے وقت کتاب سے دیکھ کر دعا پڑھ رہے ہوتے ہیں حالانکہ اسکی ضرورت نہیں کیونکہ طواف اور سعی کی کوئی دعائیں مخصوص نہیں۔ اسی طرح کچھ لوگ کورس کی شکل میں بلند آواز میں دعا مانگتے ہیں جو خلاف سنت اور باعثِ تکلیف ہے۔ اس ضمن میں ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ عوام کی اکثریت کو علم نہیں ہوتا کہ دعا کیا اور کس طرح مانگی جائے ۔ وہ مال، اولاد، صحت، بچوں کی شادی و تعلیم اور دیگر دنیاوی امور کی دعا مانگ کر بور ہوجاتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ آخرت میں کامیابی بھی دعا ہے، خدا کی تعریف کرنا، اس سے باتیں کرنا، سکی تسبیح بیان کرنا بھی دعا ہے۔ اس سلسلے میں دعاؤں کی کتاب حصنِ حصین سے مدد لی جاسکتی ہے۔ البتہ جو دعا بھی مانگی جائے وہ سمجھ اور شعور سے مانگی جائے خواہ وہ کسی بھی زبان میں ہو۔
اسی طرح منیٰ میں قیام کے دوران گپ شپ کرنے کی بجائے ذرا خیمے سے ہٹ کر پہاڑ پر چڑھ جائیں اور خدا کی قدرت کا نظارہ کریں، اس کی تعریف کریں، اس کی تسبیح کریں اور تنہائی میں گڑگڑا کر اس سے مانگیں۔ عرفات میں بھی تنہائی میں برہنہ پا کھلے آسمان کے نیچے کھڑے رب کائنات کو پکاریں۔
۸۔ظاہری فقہ میں اشتغال:
ایک اور آفت یہ ہے کہ لوگ ظواہر میں حد سے زیادہ ملوث ہوکر وہم کا شکار ہو جاتے ہیں کہ کہ کہیں حج فاسد تو نہیں ہوگیا۔ حج کی غیر مستند کتابیں ، عام لوگوں کے مفتیانہ مشورے اور مسالک کا اختلاف اس کنفیوژن کے اہم اسباب ہیں۔ اس کا حل یہ ہے کہ کسی بھی مسئلے کی صورت میں مستند کتابوں سے رجوع کریں اور کسی غیر عالم سے پوچھنے کی بجائے اپنے اعتماد کے علما ء سے رجوع کریں جو بڑی آسانی سے دورانِ سفر دستیاب ہوتے ہیں۔ نیز حج کے ہر ظاہری عمل کو سمجھ کر اسکی اصل روح کے مطابق اداکریں کیونکہ خدا کو ہماری قربانی کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ تقوٰی پہنچتا ہے۔
۹۔ زیارتِ مدینہ کے مسائل:
مدینے کی زیارت حج یا عمرے کا جزو تو نہیں البتہ دنیا بھر کے حاجی مدینے کی زیارت کا شرف حاصل کرتے ہیں جو بڑی سعادت کی بات ہے۔مکہ خدا کے جلا ل جبکہ کے مدینہ اس کے جمال کا اظہار ہے۔ مدینے کو نبی کریم ﷺ نے حرم ٹہرایا ہے لہٰذا اس حرم کی حرمت ، تعظیم اور اکرام بھی لازم ہے۔
مسجدِ نبوی میں نماز پڑھنا عام مساجد کے مقابلے میں ہزار گنا افضل ہے۔ نبی کریم ﷺ کے روضے کی حاضری ایک شرف کی بات ہے کہ یہاں خدا کا آخری اور عظیم ترین پیغمبر محوِ استراحت ہے۔ چنانچہ مسجدِ نبوی میں روضہ رسول ﷺ کی زیارت کریں، ان پر سلام پیش کریں، انکے درجات کی بلندی کے لئے اللہ سے دعا کریں۔ انکے اصحاب پر بھی سلام بھیجیں۔ مسجد کے درو دیوار سے انس و محبت کا اظہار کریں، پیغمبر ﷺ کے ممبر، انکے حجرے، انکی تہجد پڑھنے کی جگہ ، اورریا ض الجنۃ کی زیارت کریں اور کثرت سے نوافل اور درود پڑھیں ۔
البتہ کچھ لوگ غلو کا مظاہرہ کرتے ہوئے نبی کریم ﷺ ہی سے مانگنے لگ جاتے یا براہِ راست انہیں مخاطب کرتے ہیں۔ اسی طرح جنت البقیع کے قبرستان میں جاکر کچھ لوگ صحابہ کرام سے اپنی منت اور مرادیں مانگتے اور پیغمبر ﷺ کی بنیادی تعلیم ( توحید)کا انکا ر کر بیٹھتے ہیں۔ یاد رکھیں شرک ظاہری ہو یا پوشیدہ، اسکی معافی نہیں۔
۱۰۔دنیا میں واپسی: حج ختم ہوا۔ اب وطن واپس آکر اسی دنیا میں زندگی کی ابتدا کرنی ہے جہاں نفس کے تقاضے بھی ہیں اور شیطان کے جھانسے بھی۔ لیکن حج کا سبق اور تربیت یاد رکھیں کہ نفس کے ہر غلط تقاضے کو قربان کرنا اور ابلیس کو ہر دعوت پر سنگسار کرنا ہے۔


ہماری جنگ تو خود سے تھی،ڈھال کیا رکھتے
فقیر لوگ تھے ،مال و منال کیا رکھتے
 
آپ اس وقت فورم پر تشریف فرما ہیں » کیٹگری فورم » اسلام » حج (حج کے لغوی معنی ارادہ کرنے کے ہیں)
  • Page 1 of 1
  • 1
Search: