جمعہ
2024-04-26
5:45 AM
Welcome مہمان
RSS
 
Read! the name of lord پڑھ اپنے رب کے نام سے
Home Sign Up Log In
حديث مبارک »
Site menu

Chat Box
 
200

Our poll
Rate my site

Total of answers: 32

Statistics

ٹوٹل آن لائن 1
مہمان 1
صارف 0


1:34 AM
وحی کی ابتدا کیسے ہوئی؟
بحَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ، قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الأَنْصَارِيُّ، قَالَ أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيُّ، أَنَّهُ سَمِعَ عَلْقَمَةَ بْنَ وَقَّاصٍ اللَّيْثِيَّ، يَقُولُ سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ـ رضى الله عنه ـ عَلَى الْمِنْبَرِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏"‏ إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا أَوْ إِلَى امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ ‏"‏‏.‏style="border: 1px dotted rgb(0, 255, 0);">حمیدی، سفیان، یحیٰی بن سعید انصاری، محمد بن ابراہیم تیمی، علقمہ بن وقاص لیثی نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا، بے شک اعمال کا دارومدار نیّتوں پر ہے اور ہر شخص کے لیے وہی ہے جس کی اُس نے نیّت کی۔ جس کی ہجرت دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لیے ہے تو اس کی ہجرت اسی چیز کی طرف ہے جس کی جانب ہجرت کی ہے۔ 
ف: یہ کتاب الوحی ہے اور اس میں وحی سے متعلقہ ہی اگلی پانچ حدیثیں ہیں لیکن یہ پہلی حدیث نیت کے متعلق ہے جس کا لبِ لباب یہ ہے کہ اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ علم منزلِ مقصود نہیں بلکہ عمل کے لیے بمنزلہ زینہ کے ہے۔ عمل بھی بذاتہ منزلِ مقصود نہیں بلکہ اخلاص اور رضائے الٰہی کے حصول میں زینے کا کام دیتا ہے۔ یہی وَاستعینوا باالصبر و الصلوٰۃ (2:45) کا مفاد ہے۔ گویا ہر عمل میں رضائے الٰہی کی نیت ہونا ہی ہمیشہ اہلِ کمال کا شیوہ رہا ہے۔ بخاری شریف کی جمع وتدوین سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود بھی یہی ہوگا جس کے باعث وحی کے بیان میں اس حدیث کو بخاری شریف کی سب سے پہلی حدیث کے طور پر درج کیا۔ ہوسکتا ہے کہ بخاری شریف کی اس درجہ شہرت اور مقبولیت کا باعث یہی خلوصِ نیت ہو۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔

حدیث نمبر 2 Hadith Number
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ ـ رضى الله عنها ـ أَنَّ الْحَارِثَ بْنَ هِشَامٍ ـ رضى الله عنه ـ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ يَأْتِيكَ الْوَحْىُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أَحْيَانًا يَأْتِينِي مِثْلَ صَلْصَلَةِ الْجَرَسِ ـ وَهُوَ أَشَدُّهُ عَلَىَّ ـ فَيُفْصَمُ عَنِّي وَقَدْ وَعَيْتُ عَنْهُ مَا قَالَ، وَأَحْيَانًا يَتَمَثَّلُ لِيَ الْمَلَكُ رَجُلاً فَيُكَلِّمُنِي فَأَعِي مَا يَقُولُ ‏"‏‏.‏ قَالَتْ عَائِشَةُ رضى الله عنها وَلَقَدْ رَأَيْتُهُ يَنْزِلُ عَلَيْهِ الْوَحْىُ فِي الْيَوْمِ الشَّدِيدِ الْبَرْدِ، فَيَفْصِمُ عَنْهُ وَإِنَّ جَبِينَهُ لَيَتَفَصَّدُ عَرَقًا‏. 
اُمّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت حارث بن ہشام رضی اللہ تعالیٰ عنہ عرض گزار ہوئے:- یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ کی طرف وحی کیسے آتی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کبھی تو گھنٹی کی آواز کی طرح آتی ہے اور وہ مجھ پر سب سے سخت ہوتی ہے۔ جب وہ تمام ہوتی ہے تو جو کہا میں اسے یاد کر لیتا ہوں اور کبھی میرے پاس فرشتہ آدمی کی شکل میں آکر گفتگو کرتا ہے جو وہ کہے میں یاد کرلیتا ہوں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ میں نے آپ کو دیکھا کہ سخت سردی کے دن میں آپ پر وحی نازل ہوتی اور وہ موقوف ہوتی تو آپ کی پیشانی سے پسینہ بہہ رہا ہوتا۔ 

حدیث نمبر 3 Hadith Number
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، قَالَ أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رضى الله عنها، أَنَّهَا قَالَتْ أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِنَ الْوَحْىِ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ فِي النَّوْمِ، فَكَانَ لاَ يَرَى رُؤْيَا إِلاَّ جَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ، ثُمَّ حُبِّبَ إِلَيْهِ الْخَلاَءُ، وَكَانَ يَخْلُو بِغَارِ حِرَاءٍ فَيَتَحَنَّثُ فِيهِ ـ وَهُوَ التَّعَبُّدُ ـ اللَّيَالِيَ ذَوَاتِ الْعَدَدِ قَبْلَ أَنْ يَنْزِعَ إِلَى أَهْلِهِ، وَيَتَزَوَّدُ لِذَلِكَ، ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى خَدِيجَةَ، فَيَتَزَوَّدُ لِمِثْلِهَا، حَتَّى جَاءَهُ الْحَقُّ وَهُوَ فِي غَارِ حِرَاءٍ، فَجَاءَهُ الْمَلَكُ فَقَالَ اقْرَأْ‏.‏ قَالَ ‏"‏ مَا أَنَا بِقَارِئٍ ‏"‏‏.‏ قَالَ ‏"‏ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ‏.‏ قُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ‏.‏ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّانِيَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ‏.‏ فَقُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ‏.‏ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّالِثَةَ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ ‏{‏اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ * خَلَقَ الإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ * اقْرَأْ وَرَبُّكَ الأَكْرَمُ‏}‏ ‏"‏‏.‏ فَرَجَعَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَرْجُفُ فُؤَادُهُ، فَدَخَلَ عَلَى خَدِيجَةَ بِنْتِ خُوَيْلِدٍ رضى الله عنها فَقَالَ ‏"‏ زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي ‏"‏‏.‏ فَزَمَّلُوهُ حَتَّى ذَهَبَ عَنْهُ الرَّوْعُ، فَقَالَ لِخَدِيجَةَ وَأَخْبَرَهَا الْخَبَرَ ‏"‏ لَقَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِي ‏"‏‏.‏ فَقَالَتْ خَدِيجَةُ كَلاَّ وَاللَّهِ مَا يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا، إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الْكَلَّ، وَتَكْسِبُ الْمَعْدُومَ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ‏.‏ فَانْطَلَقَتْ بِهِ خَدِيجَةُ حَتَّى أَتَتْ بِهِ وَرَقَةَ بْنَ نَوْفَلِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى ابْنَ عَمِّ خَدِيجَةَ ـ وَكَانَ امْرَأً تَنَصَّرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَكَانَ يَكْتُبُ الْكِتَابَ الْعِبْرَانِيَّ، فَيَكْتُبُ مِنَ الإِنْجِيلِ بِالْعِبْرَانِيَّةِ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكْتُبَ، وَكَانَ شَيْخًا كَبِيرًا قَدْ عَمِيَ ـ فَقَالَتْ لَهُ خَدِيجَةُ يَا ابْنَ عَمِّ اسْمَعْ مِنَ ابْنِ أَخِيكَ‏.‏ فَقَالَ لَهُ وَرَقَةُ يَا ابْنَ أَخِي مَاذَا تَرَى فَأَخْبَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم خَبَرَ مَا رَأَى‏.‏ فَقَالَ لَهُ وَرَقَةُ هَذَا النَّامُوسُ الَّذِي نَزَّلَ اللَّهُ عَلَى مُوسَى صلى الله عليه وسلم يَا لَيْتَنِي فِيهَا جَذَعًا، لَيْتَنِي أَكُونُ حَيًّا إِذْ يُخْرِجُكَ قَوْمُكَ‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أَوَمُخْرِجِيَّ هُمْ ‏"‏‏.‏ قَالَ نَعَمْ، لَمْ يَأْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمِثْلِ مَا جِئْتَ بِهِ إِلاَّ عُودِيَ، وَإِنْ يُدْرِكْنِي يَوْمُكَ أَنْصُرْكَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا‏.‏ ثُمَّ لَمْ يَنْشَبْ وَرَقَةُ أَنْ تُوُفِّيَ وَفَتَرَ الْوَحْىُ‏.
قَالَ ابْنُ شِهَابٍ وَأَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ الأَنْصَارِيَّ، قَالَ ـ وَهُوَ يُحَدِّثُ عَنْ فَتْرَةِ الْوَحْىِ، فَقَالَ ـ فِي حَدِيثِهِ ‏"‏ بَيْنَا أَنَا أَمْشِي، إِذْ سَمِعْتُ صَوْتًا، مِنَ السَّمَاءِ، فَرَفَعْتُ بَصَرِي فَإِذَا الْمَلَكُ الَّذِي جَاءَنِي بِحِرَاءٍ جَالِسٌ عَلَى كُرْسِيٍّ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ، فَرُعِبْتُ مِنْهُ، فَرَجَعْتُ فَقُلْتُ زَمِّلُونِي‏.‏ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى ‏{‏يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ * قُمْ فَأَنْذِرْ‏}‏ إِلَى قَوْلِهِ ‏{‏وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ‏}‏ فَحَمِيَ الْوَحْىُ وَتَتَابَعَ ‏"‏‏.‏ تَابَعَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ وَأَبُو صَالِحٍ‏.‏ وَتَابَعَهُ هِلاَلُ بْنُ رَدَّادٍ عَنِ الزُّهْرِيِّ‏.‏ وَقَالَ يُونُسُ وَمَعْمَرٌ ‏"‏ بَوَادِرُهُ ‏"‏‏. 
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی ابتدا اچھے خوابوں سے ہوئی۔ آپ جو خواب دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح ظاہر ہوجاتا۔ پھر آپ خلوت پسند ہوگئے اور غارِ حرا میں جانے لگے۔ وہاں کئی کئی راتیں ٹھہر کر عبادت کرتے، کاشانہ آقدس کی طرف لوٹنے سے پہلے اور کھانے پینے کی چیزیں لے جاتے۔ پھر حضرت خدیجہ کی طرف لوٹتے اور وہ اُسی طرح کھانے پینے کا بندوبست کر دیا کرتیں۔ یہاں تک کہ آپ کے پاس حق آگیا جب کہ آپ غارِ حرا میں تھے یعنی فرشتے نے آپ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر کہا:-پڑھیے۔ حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتی ہیں:- میں نے کہا:- میں پڑھنے والا نہیں ہوں۔ اُس نے مجھے پکڑ کر بڑے زور سے دبایا۔ پھر چھوڑتے ہوئے کہا:- پڑھیے، میں نے کہاں، میں پڑھنے والا نہیں ہوں، اُس نے مجھے پکڑ کر دوبارہ بڑے زور سے دبایا۔ پھر چھوڑا دیا اور کہا، پڑھیے، میں نے کہا، میں پڑھنے والا نہیں ہوں۔ اُس نے مجھے پھر پکڑا اور سہ بارہ دبایا۔ پھر مجھے چھوڑ کر کہا، پڑھو اپنے رب کے نام سے، جس نے پیدا کیا۔ آدمی کو خون کی پھٹک سے بنایا۔ پڑھو اور تمہارا رب ہی سب سے بڑا کریم ہے(3:96-1)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ واپس لوٹے۔ آپ کا دل کانپ رہا تھا۔ پس حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس آئے اور فرمایا، مجھے کمبل اڑھا دو، مجھے کمبل اڑھا دو۔ انہوں نے کمبل اڑھا دیا۔ یہاں تک کہ خوف دور ہوگیا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو سارا واقعہ بتاتے ہوئے فرمایا کے مجھے اپنی جان کا ڈر ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہاں کہ خدا کی قسم، ہر گز نہیں، اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا کیونکہ آپ صلہ رحمی کرتے، کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے، محتاجوں کے لیے کماتے، مہمان کی ضیافت کرتے اور راہِ حق میں مصائب برداشت کرتے ہیں۔ پس حضرت خدیجہ آپ کو ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبدالعزّیٰ کے پاس لے گئیں جو حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے چچا زاد تھے۔ وہ جاہلیت میں نصرانی ہو گئے تھے اور عبرانی میں کتابت کیا کرتے تھے۔ پس جو اللہ چاہتا وہ انجیل سے عبرانی میں لکھا کرتے۔ وہ بوڑھے اور بینائی سے محروم تھے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان سے کہا، اے چچا کے بیٹے! اپنے بھتیجے کی بات سنیے۔ ورقہ نے آپ سے کہا، اے بھتیجے، تم کیا دیکھتے ہو؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دیکھا تھا اسے بتا دیا۔ پس ورقہ نے آپ سے کہا کہ یہی تو وہ ناموس ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر اتارا تھا۔ اے کاش میں جوان ہوتا۔ اے کاش میں زندہ رہتا جب کہ آپ کی قوم آپ کو نکالے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کیا وہ مجھے نکالیں گے؟ کہا ہاں، جب بھی کوئی شخص یہ چیز لے کر آیا جیسی آپ لائے ہیں تو اس کے ساتھ عداوت کی گئی۔ اگر میں اس وقت تک زندہ رہا تو آپ کی بھرپور مدد کروں گا۔ چند دنوں بعد ورقہ نے وفات پائی اور وحی کا سلسلہ بھی رک گیا۔ ابنِ شہاب کا بیان ہے کہ مجھے ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن نے بتایا کہ حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا، انھوں نے وحی کا سلسلہ بند ہونا بیان کرتے ہوئے اپنی حدیث میں کہا، میں (حضور صلی اللہ علیہ وسلم) چلا جا رہا تھا کہ میں نے آسمان سے ایک آواز سنی۔ نظر اٹھا کر دیکھا تو وہی فرشتہ زمین و آسمان کے درمیان کرسی پر بیٹھا ہوا تھا جو میرے پاس حرا میں آیا تھا۔ میں اس سے ڈر گیا، واپس لوٹا اور کہا، مجھے کمبل اڑھاؤ، مجے کمبل اڑھاؤ، پس اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی، " اے بالاپوش اوڑھنے والے، کھڑے ہوجاؤ، پھر ڈر سناؤ اور اپنے رب کی بڑائی بیان کرو اور اپنے کپڑے پاک رکھو اور بتوں سے دور رہو (5:74-1) پس وحی متوتر اتر آنے لگی۔ متابعت کی ہے اس کی عبداللہ بن یوسف اور ابو صالح نے نیز ہلال بن رواد نے بھی زہری سے جب کہ یونس اور معمر نے بوادرہ کہا ہے۔ 

حدیث نمبر 4 Hadith Number
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، قَالَ حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ أَبِي عَائِشَةَ، قَالَ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِي قَوْلِهِ تَعَالَى ‏{‏لاَ تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ‏}‏ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يُعَالِجُ مِنَ التَّنْزِيلِ شِدَّةً، وَكَانَ مِمَّا يُحَرِّكُ شَفَتَيْهِ ـ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَأَنَا أُحَرِّكُهُمَا لَكُمْ كَمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يُحَرِّكُهُمَا‏.‏ وَقَالَ سَعِيدٌ أَنَا أُحَرِّكُهُمَا كَمَا رَأَيْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يُحَرِّكُهُمَا‏.‏ فَحَرَّكَ شَفَتَيْهِ ـ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى ‏{‏لاَ تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ* إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ‏}‏ قَالَ جَمْعُهُ لَهُ فِي صَدْرِكَ، وَتَقْرَأَهُ ‏{‏فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ‏}‏ قَالَ فَاسْتَمِعْ لَهُ وَأَنْصِتْ ‏{‏ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ‏}‏ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا أَنْ تَقْرَأَهُ‏.‏ فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَعْدَ ذَلِكَ إِذَا أَتَاهُ جِبْرِيلُ اسْتَمَعَ، فَإِذَا انْطَلَقَ جِبْرِيلُ قَرَأَهُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم كَمَا قَرَأَهُ‏. 
سعید بن جبیر سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے ارشادِ خداوندی:- تم یاد کرنے کی جلدی میں قران کے ساتھ اپنی زبان کو حرکت نہ دو (16:75) کے تحت فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نزول کے ساتھ بہت جلدی کرتے اور اپنے مبارک ہونٹوں کو حرکت دیتے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ میں تمہیں حرکت سے کر دکھاتا ہوں جیسے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے انھیں حرکت دی تھی اور سعید نے فرمایا کہ میں تمھیں حرکت دے کر دکھاتا ہوں جیسے میں نے حضرت ابنِ عباس کو دیکھا۔ پس آپ حرکت دیتے تو اللہ تعالیٰ نے حکم نازل فرمایا:- تم یاد کرنے کی جلدی میں قران کے ساتھ اپنی زبان کو حرکت نہ دو۔ بے شک اس کا محفوظ کرنا اور پڑھنا ہمارے زمّہ ہے (16-75:17) یعنی تمہارے سینے میں جمع کردینا اور پڑھوا دینا، لہذا:- " جب ہم اسے پڑھ چکیں تو اس وقت پڑھے ہوئے کی اتباع کرو " (18:75) یعنی اسے غور سے سنو اور خاموش رہو۔ پھر بے شک اس کی باریکیوں کا تم پر ظاہر فرمانا ہمارے زمّہ ہے (19:75) یعنی ہمارے زمّہ کرم پر ہے تم سے پڑھوانا پس اِس کے بعد جب رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس حضرت جبرئیل علیہ السلام آتے تو آپ غور سے سنتے اور جب جبرئیل علیہ السلام چلے جاتے تو نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اسی طرح پڑھتے جیسے آپ کو پڑھایا ہوتا۔ 

حدیث نمبر 5 Hadith Number
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، قَالَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، ح وَحَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ أَخْبَرَنَا يُونُسُ، وَمَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، نَحْوَهُ قَالَ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَجْوَدَ النَّاسِ، وَكَانَ أَجْوَدُ مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ، وَكَانَ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَيُدَارِسُهُ الْقُرْآنَ، فَلَرَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَجْوَدُ بِالْخَيْرِ مِنَ الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ‏. 
عبدان، عبداللہ، یونس، زہری ۔۔۔۔۔۔ بشر بن محمد، عبداللہ یونس اور معمر، زہری، عبیداللہ بن عبداللہ سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا :- رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور رمضان میں جب حضرت جبرئیل علیہ السلام سے ملاقات ہوتی تو آپ کی سخاوت اور بڑھ جاتی۔ وہ رمضان کی ہر رات میں آپ سے ملتے اور آپ کے ساتھ قران مجید کا دور کرتے۔ پس رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم احسان کرنے میں تیز ہوا سے بھی زیادہ سخی تھے۔ 

حدیث نمبر 6 Hadith Number
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، قَالَ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ، أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَا سُفْيَانَ بْنَ حَرْبٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ هِرَقْلَ أَرْسَلَ إِلَيْهِ فِي رَكْبٍ مِنْ قُرَيْشٍ ـ وَكَانُوا تُجَّارًا بِالشَّأْمِ ـ فِي الْمُدَّةِ الَّتِي كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مَادَّ فِيهَا أَبَا سُفْيَانَ وَكُفَّارَ قُرَيْشٍ، فَأَتَوْهُ وَهُمْ بِإِيلِيَاءَ فَدَعَاهُمْ فِي مَجْلِسِهِ، وَحَوْلَهُ عُظَمَاءُ الرُّومِ ثُمَّ دَعَاهُمْ وَدَعَا بِتَرْجُمَانِهِ فَقَالَ أَيُّكُمْ أَقْرَبُ نَسَبًا بِهَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ فَقُلْتُ أَنَا أَقْرَبُهُمْ نَسَبًا‏.‏ فَقَالَ أَدْنُوهُ مِنِّي، وَقَرِّبُوا أَصْحَابَهُ، فَاجْعَلُوهُمْ عِنْدَ ظَهْرِهِ‏.‏ ثُمَّ قَالَ لِتَرْجُمَانِهِ قُلْ لَهُمْ إِنِّي سَائِلٌ هَذَا عَنْ هَذَا الرَّجُلِ، فَإِنْ كَذَبَنِي فَكَذِّبُوهُ‏.‏ فَوَاللَّهِ لَوْلاَ الْحَيَاءُ مِنْ أَنْ يَأْثِرُوا عَلَىَّ كَذِبًا لَكَذَبْتُ عَنْهُ، ثُمَّ كَانَ أَوَّلَ مَا سَأَلَنِي عَنْهُ أَنْ قَالَ كَيْفَ نَسَبُهُ فِيكُمْ قُلْتُ هُوَ فِينَا ذُو نَسَبٍ‏.‏ قَالَ فَهَلْ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ مِنْكُمْ أَحَدٌ قَطُّ قَبْلَهُ قُلْتُ لاَ‏.‏ قَالَ فَهَلْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مِنْ مَلِكٍ قُلْتُ لاَ‏.‏ قَالَ فَأَشْرَافُ النَّاسِ يَتَّبِعُونَهُ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ فَقُلْتُ بَلْ ضُعَفَاؤُهُمْ‏.‏ قَالَ أَيَزِيدُونَ أَمْ يَنْقُصُونَ قُلْتُ بَلْ يَزِيدُونَ‏.‏ قَالَ فَهَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ مِنْهُمْ سَخْطَةً لِدِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ قُلْتُ لاَ‏.‏ قَالَ فَهَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ قُلْتُ لاَ‏.‏ قَالَ فَهَلْ يَغْدِرُ قُلْتُ لاَ، وَنَحْنُ مِنْهُ فِي مُدَّةٍ لاَ نَدْرِي مَا هُوَ فَاعِلٌ فِيهَا‏.‏ قَالَ وَلَمْ تُمْكِنِّي كَلِمَةٌ أُدْخِلُ فِيهَا شَيْئًا غَيْرُ هَذِهِ الْكَلِمَةِ‏.‏ قَالَ فَهَلْ قَاتَلْتُمُوهُ قُلْتُ نَعَمْ‏.‏ قَالَ فَكَيْفَ كَانَ قِتَالُكُمْ إِيَّاهُ قُلْتُ الْحَرْبُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُ سِجَالٌ، يَنَالُ مِنَّا وَنَنَالُ مِنْهُ‏.‏ قَالَ مَاذَا يَأْمُرُكُمْ قُلْتُ يَقُولُ اعْبُدُوا اللَّهَ وَحْدَهُ، وَلاَ تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا، وَاتْرُكُوا مَا يَقُولُ آبَاؤُكُمْ، وَيَأْمُرُنَا بِالصَّلاَةِ وَالصِّدْقِ وَالْعَفَافِ وَالصِّلَةِ‏.‏ فَقَالَ لِلتَّرْجُمَانِ قُلْ لَهُ سَأَلْتُكَ عَنْ نَسَبِهِ، فَذَكَرْتَ أَنَّهُ فِيكُمْ ذُو نَسَبٍ، فَكَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْعَثُ فِي نَسَبِ قَوْمِهَا، وَسَأَلْتُكَ هَلْ قَالَ أَحَدٌ مِنْكُمْ هَذَا الْقَوْلَ فَذَكَرْتَ أَنْ لاَ، فَقُلْتُ لَوْ كَانَ أَحَدٌ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ قَبْلَهُ لَقُلْتُ رَجُلٌ يَأْتَسِي بِقَوْلٍ قِيلَ قَبْلَهُ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مِنْ مَلِكٍ فَذَكَرْتَ أَنْ لاَ، قُلْتُ فَلَوْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مِنْ مَلِكٍ قُلْتُ رَجُلٌ يَطْلُبُ مُلْكَ أَبِيهِ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ فَذَكَرْتَ أَنْ لاَ، فَقَدْ أَعْرِفُ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ لِيَذَرَ الْكَذِبَ عَلَى النَّاسِ وَيَكْذِبَ عَلَى اللَّهِ، وَسَأَلْتُكَ أَشْرَافُ النَّاسِ اتَّبَعُوهُ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ فَذَكَرْتَ أَنَّ ضُعَفَاءَهُمُ اتَّبَعُوهُ، وَهُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ، وَسَأَلْتُكَ أَيَزِيدُونَ أَمْ يَنْقُصُونَ فَذَكَرْتَ أَنَّهُمْ يَزِيدُونَ، وَكَذَلِكَ أَمْرُ الإِيمَانِ حَتَّى يَتِمَّ، وَسَأَلْتُكَ أَيَرْتَدُّ أَحَدٌ سَخْطَةً لِدِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ فَذَكَرْتَ أَنْ لاَ، وَكَذَلِكَ الإِيمَانُ حِينَ تُخَالِطُ بَشَاشَتُهُ الْقُلُوبَ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ يَغْدِرُ فَذَكَرْتَ أَنْ لاَ، وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ لاَ تَغْدِرُ، وَسَأَلْتُكَ بِمَا يَأْمُرُكُمْ، فَذَكَرْتَ أَنَّهُ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَعْبُدُوا اللَّهَ، وَلاَ تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا، وَيَنْهَاكُمْ عَنْ عِبَادَةِ الأَوْثَانِ، وَيَأْمُرُكُمْ بِالصَّلاَةِ وَالصِّدْقِ وَالْعَفَافِ‏.‏ فَإِنْ كَانَ مَا تَقُولُ حَقًّا فَسَيَمْلِكُ مَوْضِعَ قَدَمَىَّ هَاتَيْنِ، وَقَدْ كُنْتُ أَعْلَمُ أَنَّهُ خَارِجٌ، لَمْ أَكُنْ أَظُنُّ أَنَّهُ مِنْكُمْ، فَلَوْ أَنِّي أَعْلَمُ أَنِّي أَخْلُصُ إِلَيْهِ لَتَجَشَّمْتُ لِقَاءَهُ، وَلَوْ كُنْتُ عِنْدَهُ لَغَسَلْتُ عَنْ قَدَمِهِ‏.‏ ثُمَّ دَعَا بِكِتَابِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم الَّذِي بَعَثَ بِهِ دِحْيَةُ إِلَى عَظِيمِ بُصْرَى، فَدَفَعَهُ إِلَى هِرَقْلَ فَقَرَأَهُ فَإِذَا فِيهِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ‏.‏ مِنْ مُحَمَّدٍ عَبْدِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى هِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّومِ‏.‏ سَلاَمٌ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى، أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي أَدْعُوكَ بِدِعَايَةِ الإِسْلاَمِ، أَسْلِمْ تَسْلَمْ، يُؤْتِكَ اللَّهُ أَجْرَكَ مَرَّتَيْنِ، فَإِنْ تَوَلَّيْتَ فَإِنَّ عَلَيْكَ إِثْمَ الأَرِيسِيِّينَ وَ‏{‏يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَنْ لاَ نَعْبُدَ إِلاَّ اللَّهَ وَلاَ نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلاَ يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ‏}‏ قَالَ أَبُو سُفْيَانَ فَلَمَّا قَالَ مَا قَالَ، وَفَرَغَ مِنْ قِرَاءَةِ الْكِتَابِ كَثُرَ عِنْدَهُ الصَّخَبُ، وَارْتَفَعَتِ الأَصْوَاتُ وَأُخْرِجْنَا، فَقُلْتُ لأَصْحَابِي حِينَ أُخْرِجْنَا لَقَدْ أَمِرَ أَمْرُ ابْنِ أَبِي كَبْشَةَ، إِنَّهُ يَخَافُهُ مَلِكُ بَنِي الأَصْفَرِ‏.‏ فَمَا زِلْتُ مُوقِنًا أَنَّهُ سَيَظْهَرُ حَتَّى أَدْخَلَ اللَّهُ عَلَىَّ الإِسْلاَمَ‏.‏ وَكَانَ ابْنُ النَّاظُورِ صَاحِبُ إِيلِيَاءَ وَهِرَقْلَ سُقُفًّا عَلَى نَصَارَى الشَّأْمِ، يُحَدِّثُ أَنَّ هِرَقْلَ حِينَ قَدِمَ إِيلِيَاءَ أَصْبَحَ يَوْمًا خَبِيثَ النَّفْسِ، فَقَالَ بَعْضُ بَطَارِقَتِهِ قَدِ اسْتَنْكَرْنَا هَيْئَتَكَ‏.‏ قَالَ ابْنُ النَّاظُورِ وَكَانَ هِرَقْلُ حَزَّاءً يَنْظُرُ فِي النُّجُومِ، فَقَالَ لَهُمْ حِينَ سَأَلُوهُ إِنِّي رَأَيْتُ اللَّيْلَةَ حِينَ نَظَرْتُ فِي النُّجُومِ مَلِكَ الْخِتَانِ قَدْ ظَهَرَ، فَمَنْ يَخْتَتِنُ مِنْ هَذِهِ الأُمَّةِ قَالُوا لَيْسَ يَخْتَتِنُ إِلاَّ الْيَهُودُ فَلاَ يُهِمَّنَّكَ شَأْنُهُمْ وَاكْتُبْ إِلَى مَدَايِنِ مُلْكِكَ، فَيَقْتُلُوا مَنْ فِيهِمْ مِنَ الْيَهُودِ‏.‏ فَبَيْنَمَا هُمْ عَلَى أَمْرِهِمْ أُتِيَ هِرَقْلُ بِرَجُلٍ أَرْسَلَ بِهِ مَلِكُ غَسَّانَ، يُخْبِرُ عَنْ خَبَرِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَلَمَّا اسْتَخْبَرَهُ هِرَقْلُ قَالَ اذْهَبُوا فَانْظُرُوا أَمُخْتَتِنٌ هُوَ أَمْ لاَ‏.‏ فَنَظَرُوا إِلَيْهِ، فَحَدَّثُوهُ أَنَّهُ مُخْتَتِنٌ، وَسَأَلَهُ عَنِ الْعَرَبِ فَقَالَ هُمْ يَخْتَتِنُونَ‏.‏ فَقَالَ هِرَقْلُ هَذَا مَلِكُ هَذِهِ الأُمَّةِ قَدْ ظَهَرَ‏.‏ ثُمَّ كَتَبَ هِرَقْلُ إِلَى صَاحِبٍ لَهُ بِرُومِيَةَ، وَكَانَ نَظِيرَهُ فِي الْعِلْمِ، وَسَارَ هِرَقْلُ إِلَى حِمْصَ، فَلَمْ يَرِمْ حِمْصَ حَتَّى أَتَاهُ كِتَابٌ مِنْ صَاحِبِهِ يُوَافِقُ رَأْىَ هِرَقْلَ عَلَى خُرُوجِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَأَنَّهُ نَبِيٌّ، فَأَذِنَ هِرَقْلُ لِعُظَمَاءِ الرُّومِ فِي دَسْكَرَةٍ لَهُ بِحِمْصَ ثُمَّ أَمَرَ بِأَبْوَابِهَا فَغُلِّقَتْ، ثُمَّ اطَّلَعَ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ الرُّومِ، هَلْ لَكُمْ فِي الْفَلاَحِ وَالرُّشْدِ وَأَنْ يَثْبُتَ مُلْكُكُمْ فَتُبَايِعُوا هَذَا النَّبِيَّ، فَحَاصُوا حَيْصَةَ حُمُرِ الْوَحْشِ إِلَى الأَبْوَابِ، فَوَجَدُوهَا قَدْ غُلِّقَتْ، فَلَمَّا رَأَى هِرَقْلُ نَفْرَتَهُمْ، وَأَيِسَ مِنَ الإِيمَانِ قَالَ رُدُّوهُمْ عَلَىَّ‏.‏ وَقَالَ إِنِّي قُلْتُ مَقَالَتِي آنِفًا أَخْتَبِرُ بِهَا شِدَّتَكُمْ عَلَى دِينِكُمْ، فَقَدْ رَأَيْتُ‏.‏ فَسَجَدُوا لَهُ وَرَضُوا عَنْهُ، فَكَانَ ذَلِكَ آخِرَ شَأْنِ هِرَقْلَ‏.‏ رَوَاهُ صَالِحُ بْنُ كَيْسَانَ وَيُونُسُ وَمَعْمَرٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ‏. 
حضرت عبداللہ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ انھیں حضرت ابو سفیان بن حرب نے بتایا کہ انھیں ہرقل نے قریش کی ایک جماعت کے ساتھ بلایا جب کہ وہ شام میں بغرض تجارت گئے ہوئے تھے، اُس مدت کے دوران جب کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ابو سفیان اور قریش سے معاہدہ کیا ہوا تھا۔ وہ اس کے پاس گئے جب کہ ایلیا میں تھے۔ اس نے انھیں اپنے دربار میں طلب کیا اور اس کے گرد رومی سردار تھے۔ انہیں بلا کر اس نے اپنے ترجمان کو بلایا اور کہا :- جس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے تم میں ملجاظ نسب اس کا زیادہ قریبی کون ہے؟ ابو سفیان نے کہا کہ ملجاز نسب میں اس کے زیادہ قریب ہوں۔ اس نے کہا کہ اسے میرے نزدیک کر دو اور دوسرے لوگوں کو اس کے نزدیک کر دو۔ پس درباریوں نے انھیں اس کے پیچھے کر دیا۔ پھر اس نے اپنے ترجمان سے کہا :- میں اس سے اس شخص کے متعلق پوچھنے لگا ہوں۔ اگر یہ غلط بیانی کرے تو اس کی تکذیب کر دینا۔ خدا کی قسم اگر مجھے جھوٹا کہلانے سے حیا نہ آتی تو میں ضرور جھوٹ بولتا۔ پھر اس نے سب سے پیلے حضور کے متعلق پوچھتے ہوئے کہا :- تم میں اس کا نسب کیسا ہے؟ میں نے کہا کہ وہ ہم میں سے عالی نسب ہے۔ اس نے کہا:- کیا تم میں سے پہلے بھی یہ بات کسی نے کہی تھی؟ میں نے کہا نہیں۔ اس نے کہا:- کیا اس کے آباواجداد میں کوئی بادشاہ ہوا ہے؟ میں نے کہا:- نہیں۔ اس نے کہا کہ اس کے پیروکار مالدار لوگ ہیں یا غرباء؟ میں نے کہا:- غریب لوگ۔ اس نے کہا:- وہ بڑھ رہے ہیں یا گھٹ رہے ہیں:- میں نے کہا:- بلکہ بڑھ رہے ہیں۔ اس نے کہا:- اس کے دین میں داخل ہونے کے بعد کیا کوئی ناراض ہو کر پھرا ہے؟ میں نے کہا:- نہیں۔ اس نے کہا:- کیا یہ بات کہنے سے پہلے تم اس پر جھوٹ کی تہمت لگاتے تھے؟ میں نے کہا:- نہیں۔ اس نے کہا:- کیا وہ وعدہ خلافی کرتا ہے؟ میں نے کہا:- نہیں اور یہ ہمارے معاہدے کی موت ہے نہیں معلوم وہ اس میں کیا کرنے والا ہے۔ اس لفظ کے سوا اور کوئی غلط لفظ ملانا میرے لیے ممکن نہیں رہا تھا۔ا س نے کہا:- کیا تم نے اس سے جنگ کی ہے؟ میں نے کہا:- ہاں۔ تمہاری لڑائیوں کا انجام کیا ہوا؟ میں نے کہا کہ لڑائی ہمارے اور اس کے درمیان ڈول کی طرح رہی۔ کبھی وہ بھر لیتے کبھی ہم۔ کہا:- وہ تمہیں کن باتوں کا حکم دیتا ہے؟ میں نے کہا:- وہ کہتا ہے کہ صرف اکیلے خدا کی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور ان باتوں کو چھوڑ دو جو تمہارے آباواجداد کہتے تھے اور وہ ہمیں نماز، سچائی، پاک دامنی اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے۔ اس نے ترجمان سے کہا کہ ان سے کہو کہ میں نے تم سے اس کے نسب کے متعلق پوچھا تو تم نے بتایا کہ وہ سب سے عالی نسب ہے اور رسول اپنی قوم کے ایسے ہی نسب میں مبعوث فرمائے جاتے تھے اور میں نے تم سے پوچھا کہ کیا تم میں سے کسی نے یہ بات پہلے بھی کہی تھی تو تم نے بیان کیا کہ نہیں۔ میں نے سوچا کہ اگر یہ بات پہلے کسی نے کہی ہوتی تو یہ شخص پہلے کہی ہوئی بات کی نقل کر رہا ہے اور میں نے تم سے پوچھا کہ اس کے آباواجداد میں کوئی بادشاہ ہوا ہو تو تم نے کہا کہ نہیں میں نے سوچا کہ اگر اس کے آباواجداد میں کوئی بادشاہ ہوا تو یہ اپنے بڑے کی بادشاہی حاصل کرنا چاہتا ہے اور میں نے تم سے پوچھا کہ یہ بات کہنے سے پہلے کیا اس پر جھوٹ کی تہمت لگاتے تھے تو تم نے نفی میں جواب دیا۔ میں جان گیا کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک آدمی لوگوں کے متعلق جھوٹ بولنے سے تو بچے لیکن خدا کے متعلق جھوٹ بولے۔ اور میں نے تم سے پوچھا کہ اس کے پیروکار تمہارے مالدار ہیں یا غریب لوگ تو تم نے بیان کیا کہ غریبوں نے اس کی پیروی کی ہے جب کہ رسولوں کے پیروکار وہی لوگ ہوتے ہیں اور میں نے تم سے پوچھا وہ بڑھ رہے ہیں یا گھٹتے ہیں تو تم نے بتایا کہ بڑھ رہے ہیں جب کہ ایمان کا معاملہ یہی ہے یہاں تک کے مکمل ہوجاتا ہے اور میں نے تم سے پوچھا کہ کیا کوئی اس کے دین سے ناراض ہو کر اسے قبول کرنے کے بعد پھرتا بھی ہے تو تم نے نفی میں جواب دیا اور ایمان کا یہی حال ہوتا ہے جب وہ اس کی بشاشت دلوں میں سما جائے اور میں نے تم سے پوچھا کہ کیا وہ وعدہ خلافی کرتا ہے تو تم نے انکار کیا اور رسول وعدہ خلافی نہیں کیا کرتے اور میں نے تم سے پوچھا کہ وہ تمہیں کن باتوں کا حکم دیتا ہے تو تم نے بتایا کہ وہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کہ شریک نہ کرو اور تمہیں بتوں کی پوجا کرنے سے منع کرتا ہے اور تمہیں نماز، سچائی اور پاک دامنی کا حکم دیتا ہے۔ اگر تمہاری یہ بات درست ہے تو عنقریب وہ میرے ان قدموں کی جگہ کے بھی مالک ہوجائیں گے۔ مجھے خوب معلوم تھا کہ وہ پیدا ہونے والے ہیں لیکن یہ گمان نہیں تھا کہ وہ تم میں سے ہونگے۔ اگر میں جانتا کہ ان تک پہنچ سکونگا تو ضرور ان کی زیارت کا شرف حاصل کرتا اور اگر میں ان کی بارگاہ میں ہوتا تو ان کے قدموں کو دھونے کی سعادت حاصل کرتا۔ پھر اس نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا نامہ مبارک کو منگوایا۔ جو آپ نے حضرت دحیہ کلبی کے زریعے گورنر بصرٰی کے پاس بھیجا تھا اور گورنر بصرٰی نے ہرقل تک۔ اسے پڑھا تو اس میں تھا:- اللہ کے نام سے شروع جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔ محمد کی طرف سے جو اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ روم کے شہنشاہ ہرقل کے لیے سلام اس پر جو ہدایت کی پیروی کرے۔ اما بعد:- میں تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں۔ اسلام قبول کرلو تو سلامت رہوگے۔ اللہ تعالیٰ تمہیں دوگنا اجر دے گا اور اگر پیٹھ پھیروگے تو رعیّت کا گناہ بھی تم پر ہوگا۔ اے اہلِ کتاب! ایک بات کی طرف آجاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے کہ نہ عبادت کریں مگر اللہ کی اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور آپس میں ایک دوسرے کو رب نہ بنائیں اللہ کو چھوڑ کر۔ اگر اس سے پھرو تو کہہ دو کہ گواہ رہنا کیونکہ ہم مسلمان ہیں(64:3) ابوسفیان کا بیان ہے کہ جب اس نے اپنے تاثرات بیان کیے اور نامہ مبارک کو پڑھ کر فارغ ہوا تو اس کے پاس شور ہونے لگا اور آوازیں بلند ہوگئیں اور ہمیں نکال دیا گیا۔ تو نکلتے وقت میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا ابنِ ابی کبشہ کا معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ بنی اصفر کا بادشاہ اس سے ڈرتا ہے۔اس وقت سے مجھے برابر یقین رہا کہ عنقریب وہ غالب آئے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے دائرہ اسلام میں داخل کر دیا۔ ابنِ ناطور جو ہرقل کی طرف سے حاکمِ ایلیا اور شام کے نصرانیوں کا سردار تھا، اس کا بیان ہے ہرقل جب ایلیا میں آیا تو ایک صبح کو افسردہ خاطر تھا۔ اس کے کسی مصاحب نے کہا کہ ہم آپ کو کبیدہ خاطر دیکھتے ہیں۔ ابنِ ناطور کا بیان ہے کہ ہرقل ماہر نجوم تھا لہذا اس نے سوال کے جواب میں کہا کہ آج رات جب میں نے تاروں کو دیکھا تو نظر آیا کہ ختنہ والوں کا بادشاہ ظاہر ہو چکا ہے اس امت میں ختنہ کون کرواتا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ یہود کے سوا کوئی بھی ختنہ نہیں کرواتا۔ اور ان کی طرف سے آپ کو کوئی اندیشہ نہیں۔ اپنے ملک کے شہروں کو لکھ بھیجے کہ ان میں جتنے یہودی ہوں قتل کر دیئے جائیں۔ ابھی اسی غور و فکر میں تھے کہ ہرقل کی خدمت میں ایک آدمی کو پیش کیا گیا جس کو غسّان کے بادشاہ نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خبر دینے کے لیے بھیجا تھا۔ جب اس نے ہرقل کو خبر دی تو اس نے کہا: جا کر دیکھو کہ وہ لوگ ختنہ کرواتے ہیں یا نہیں؟ انھوں نے دیکھا اور بتایا کہ وہ ختنہ کرواتے ہیں اور عرب کے متعلق پوچھا تو اسے بتایا گیا کہ وہ بھی ختنہ کرواتے ہیں۔ پس ہرقل نے کہا کہ اس ظاہر ہونے والی امت کا بادشاہ یہی ہے۔ پھر ہرقل نے اپنے ایک رومی مصائب کے لیے یہ بات لکھی جو علم نجوم میں اس کا ہم پلہ تھا اور ہرقل حِمص کی جانب روانہ ہوگیا۔ ابھی حِمص سے گیا نہیں تھا کہ اس مصاحب کا خط آگیا جو ہرقل کی موافقت میں تھا کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ظاہر ہوچکے اور وہ برحق نبی ہیں۔ پھر ہرقل نے حمص کے بڑے بڑے آدمیوں کو محل میں بلایا اور حکم دیا کہ اس کے دروازے بند کر دئیے جائیں۔ وہ بند کر دئے گئے۔ وہ سامنے آیا اور کہا: اے رومی کے سردارو! اگر تمہیں نجات اور ہدایت مطلوب ہے اور چاہتے ہو کہ تمہاری حکومت قائم رہے تو اس نبی کی بیعت کر لو۔ پس وہ جنگلی گدھوں کی طرح دروازوں کی طرف بھاگے جو بند پائے۔ جب ہرقل نے ان کی نفرت دیکھی تو ان کے ایمان لانے سے مایوس ہوگیا اور کہا:- میں نے ابھی یہ بات اس لیے کہی تھی کہ دین میں تمہاری مضبوطی کا اندازہ کروں جو میں نے دیکھ لی۔ پس انہوں نے اس کے لیے سجدہ کیا اور اس سے راضی ہوگئے۔ ہرقل کا آخری حال یہ ہے۔ امام بخاری نے فرمایا کہ روایت کیا ہے اسے صالح بن کیسان اور یونس اور معمر نے زہری سے۔ 
var container = document.getElementById('nativeroll_video_cont'); if (container) { var parent = container.parentElement; if (parent) { const wrapper = document.createElement('div'); wrapper.classList.add('js-teasers-wrapper'); parent.insertBefore(wrapper, container.nextSibling); } }
Views: 240798 | Added by: loveless | Rating: 10.0/2
Total comments: 0
Only registered users can add comments.
[ Sign Up | Log In ]
Log In

Search

Calendar
«  جولائی 2011  »
SuMoTuWeThFrSa
     12
3456789
10111213141516
17181920212223
24252627282930
31

Entries archive

Site friends