جمعرات
2024-04-25
1:53 AM
Welcome مہمان
RSS
 
Read! the name of lord پڑھ اپنے رب کے نام سے
Home Sign Up Log In
حديث مبارک »
Site menu

Chat Box
 
200

Our poll
Rate my site

Total of answers: 32

Statistics

ٹوٹل آن لائن 1
مہمان 1
صارف 0


10:57 PM
احادیثِ رسول محمد صلی اللہ علیہ ولہ وسلم
ابو جمرہ کہتے ہیں کہ میں سیدنا ابن عباس (ر) کے سامنے ان کے اور لوگوں کے بیچ میں مترجم تھا (یعنی اوروں کی بات کو عربی میں ترجمہ کر کے سیدنا ابن عباس (ر) کو سمجھاتا) اتنے میں ایک عورت آئی اور گھڑے کے نبیذ کے بارہ میں پوچھا۔ سیدنا ابن عباس (ر) نے کہا کہ عبدالقیس کے وفد رسول اللہ (ص) کے پاس آئے تو آپ] نے پوچھا کہ یہ وفد کون ہیں؟ یا کس قوم کے لوگ ہیں؟ لوگوں نے کہا کہ ربیعہ کے لوگ ہیں آپ (ص) نے فرمایا کہ مرحبا ہو قوم یا وفد کو جو نہ رسوا ہوئے نہ شرمند ہوئے (کیونکہ بغیر لڑائی کے خود مسلمان ہونے کیلئے آئے، اگر لڑائی کے بعد مسلمان ہوتے تو وہ رسوا ہوتے، لونڈی غلام بنائے جاتے، مال لٹ جاتا تو شرمندہ ہوتے) ان لوگوں نے کہا یارسول اللہ (ص)! ہم آپ کے پاس دور دراز سے سفر کر کے آتے ہیں اور ہمارے اور آپ (ص) کے درمیان میں کافروں کا قبیلہ مضر ہے تو ہم نہیں آ سکتے آپ (ص) تک، مگر حرمت والے مہینہ میں (جب لوٹ مار نہیں ہوتی) اس لئے ہم کو حکم کیجئے ایک صاف بات کا جس کو ہم بتلائیں اور لوگوں کو بھی اور جائیں اس کے سبب سے جنت میں۔ آپ (ص) نے ان کو چار باتوں کا حکم کیا اور چار باتوں سے منع فرمایا۔ ان کو حکم کیا اللہ وحدہ لا شریک پر ایمان لانے کا اور ان سے پوچھا کہ تم جانتے ہو کہ ایمان کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول خوب جانتا ہے، آپ (ص) نے فرمایا کہ ایمان گواہی دینا ہے اس بات کی کہ سوا اللہ کے کوئی عبادت کے لائق نہیں اور بیشک محمد (ص) اس کے بھیجے ہوئے ہیں اور نماز کا قائم کرنا اور زکوٰة کا دینا اور رمضان کے روزے رکھنا (یہ چار باتیں ہو گئیں، اب ایک پانچویں بات اور ہے) اور غنیمت کے مال میں سے پانچویں حصہ کا ادا کرنا (یعنی کفار کی سپاہ یا مسلمانوں کے خلاف لڑنے والوں سے جو مال حاصل ہو مال غنیمت کہلاتا ہے) اور منع فرمایا ان کو کدو کے برتن، سبز گھڑے اور روغنی برتن سے۔ (شعبہ نے) کبھی یوں کہا اور نقیر سے اور کبھی کہا مقیر سے۔ (یعنی لکڑی سے بنائے ہوئے برتن ہیں)۔ اور فرمایا کہ اس کو یاد رکھو اور ان باتوں کی ان لوگوں کو بھی خبر دو جو تمہارے پیچھے ہیں۔ اور ابو بکر بن ابی شیبہ نے مَنْ وَّرَآئَکُمْ کہا بدلے مِنْ وَرَآئِکُمْ کے۔ (ان دونوں کا مطلب ایک ہی ہے)۔ اور سیدنا ابن معاذ (ر) نے اپنی روایت میں ا پنے باپ سے اتنا زیادہ کیا کہ رسول اللہ (ص) نے عبدالقیس کے اشج سے (جس کا نام منذر بن حارث بن زیاد تھا یا منذر بن عبید یا عائذ بن منذر یا عبداللہ بن عوف تھا) فرمایا کہ تجھ میں دو عادتیں ایسی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے، ایک تو عقل مندی، دوسرے دیر میں سوچ سمجھ کر کام کرنا جلدی نہ کرنا۔
Views: 3001946 | Added by: loveless | Rating: 10.0/4
Total comments: 0
Only registered users can add comments.
[ Sign Up | Log In ]
Log In

Search

Calendar
«  جنوری 2012  »
SuMoTuWeThFrSa
1234567
891011121314
15161718192021
22232425262728
293031

Entries archive

Site friends