غروبِ شام ہی سے ، خود کو یُوں محسوس کرتا ہوں
کہ جیسے اک دیا ہوں، اور ہَوا کی ذرد پہ رکھّا ہوں
چمکتی دھُوپ تُم، اپنے ہی دامن میں نہ بھر لینا
میں ساری رات پیڑوں کی طرح، بارش میں بھیگا ہوں
کوئی ٹُوٹا ہُوا رشتہ نہ دامن سے اُلجھ جاۓ:
تُمھارے ساتھ پہلی بار، بازاروں میں نکلاہُوں
یہ کس آواز کا بوسہ، میرے ہونٹوں پہ کانپا ہے
میں پچھلی، سب صداؤں کی حلاوت، بھُول بیٹھا ہوں
بچھڑ کر، تُم سے، میں نے بھی کوئ ساتھی نہیں ڈھونڈا
ہجومِ رہگُزر میں، دوُر تک دیکھو، اکیلا ہوں