حدیث نمبر |
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، قَالَ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ، أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَا سُفْيَانَ بْنَ حَرْبٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ هِرَقْلَ أَرْسَلَ إِلَيْهِ فِي رَكْبٍ مِنْ قُرَيْشٍ ـ وَكَانُوا تُجَّارًا بِالشَّأْمِ ـ فِي الْمُدَّةِ الَّتِي كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مَادَّ فِيهَا أَبَا سُفْيَانَ وَكُفَّارَ قُرَيْشٍ، فَأَتَوْهُ وَهُمْ بِإِيلِيَاءَ فَدَعَاهُمْ فِي مَجْلِسِهِ، وَحَوْلَهُ عُظَمَاءُ الرُّومِ ثُمَّ دَعَاهُمْ وَدَعَا بِتَرْجُمَانِهِ فَقَالَ أَيُّكُمْ أَقْرَبُ نَسَبًا بِهَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ فَقُلْتُ أَنَا أَقْرَبُهُمْ نَسَبًا. فَقَالَ أَدْنُوهُ مِنِّي، وَقَرِّبُوا أَصْحَابَهُ، فَاجْعَلُوهُمْ عِنْدَ ظَهْرِهِ. ثُمَّ قَالَ لِتَرْجُمَانِهِ قُلْ لَهُمْ إِنِّي سَائِلٌ هَذَا عَنْ هَذَا الرَّجُلِ، فَإِنْ كَذَبَنِي فَكَذِّبُوهُ. فَوَاللَّهِ لَوْلاَ الْحَيَاءُ مِنْ أَنْ يَأْثِرُوا عَلَىَّ كَذِبًا لَكَذَبْتُ عَنْهُ، ثُمَّ كَانَ أَوَّلَ مَا سَأَلَنِي عَنْهُ أَنْ قَالَ كَيْفَ نَسَبُهُ فِيكُمْ قُلْتُ هُوَ فِينَا ذُو نَسَبٍ. قَالَ فَهَلْ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ مِنْكُمْ أَحَدٌ قَطُّ قَبْلَهُ قُلْتُ لاَ. قَالَ فَهَلْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مِنْ مَلِكٍ قُلْتُ لاَ. قَالَ فَأَشْرَافُ النَّاسِ يَتَّبِعُونَهُ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ فَقُلْتُ بَلْ ضُعَفَاؤُهُمْ. قَالَ أَيَزِيدُونَ أَمْ يَنْقُصُونَ قُلْتُ بَلْ يَزِيدُونَ. قَالَ فَهَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ مِنْهُمْ سَخْطَةً لِدِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ قُلْتُ لاَ. قَالَ فَهَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ قُلْتُ لاَ. قَالَ فَهَلْ يَغْدِرُ قُلْتُ لاَ، وَنَحْنُ مِنْهُ فِي مُدَّةٍ لاَ نَدْرِي مَا هُوَ فَاعِلٌ فِيهَا. قَالَ وَلَمْ تُمْكِنِّي كَلِمَةٌ أُدْخِلُ فِيهَا شَيْئًا غَيْرُ هَذِهِ الْكَلِمَةِ. قَالَ فَهَلْ قَاتَلْتُمُوهُ قُلْتُ نَعَمْ. قَالَ فَكَيْفَ كَانَ قِتَالُكُمْ إِيَّاهُ قُلْتُ الْحَرْبُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُ سِجَالٌ، يَنَالُ مِنَّا وَنَنَالُ مِنْهُ. قَالَ مَاذَا يَأْمُرُكُمْ قُلْتُ يَقُولُ اعْبُدُوا اللَّهَ وَحْدَهُ، وَلاَ تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا، وَاتْرُكُوا مَا يَقُولُ آبَاؤُكُمْ، وَيَأْمُرُنَا بِالصَّلاَةِ وَالصِّدْقِ وَالْعَفَافِ وَالصِّلَةِ. فَقَالَ لِلتَّرْجُمَانِ قُلْ لَهُ سَأَلْتُكَ عَنْ نَسَبِهِ، فَذَكَرْتَ أَنَّهُ فِيكُمْ ذُو نَسَبٍ، فَكَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْعَثُ فِي نَسَبِ قَوْمِهَا، وَسَأَلْتُكَ هَلْ قَالَ أَحَدٌ مِنْكُمْ هَذَا الْقَوْلَ فَذَكَرْتَ أَنْ لاَ، فَقُلْتُ لَوْ كَانَ أَحَدٌ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ قَبْلَهُ لَقُلْتُ رَجُلٌ يَأْتَسِي بِقَوْلٍ قِيلَ قَبْلَهُ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مِنْ مَلِكٍ فَذَكَرْتَ أَنْ لاَ، قُلْتُ فَلَوْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مِنْ مَلِكٍ قُلْتُ رَجُلٌ يَطْلُبُ مُلْكَ أَبِيهِ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ فَذَكَرْتَ أَنْ لاَ، فَقَدْ أَعْرِفُ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ لِيَذَرَ الْكَذِبَ عَلَى النَّاسِ وَيَكْذِبَ عَلَى اللَّهِ، وَسَأَلْتُكَ أَشْرَافُ النَّاسِ اتَّبَعُوهُ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ فَذَكَرْتَ أَنَّ ضُعَفَاءَهُمُ اتَّبَعُوهُ، وَهُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ، وَسَأَلْتُكَ أَيَزِيدُونَ أَمْ يَنْقُصُونَ فَذَكَرْتَ أَنَّهُمْ يَزِيدُونَ، وَكَذَلِكَ أَمْرُ الإِيمَانِ حَتَّى يَتِمَّ، وَسَأَلْتُكَ أَيَرْتَدُّ أَحَدٌ سَخْطَةً لِدِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ فَذَكَرْتَ أَنْ لاَ، وَكَذَلِكَ الإِيمَانُ حِينَ تُخَالِطُ بَشَاشَتُهُ الْقُلُوبَ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ يَغْدِرُ فَذَكَرْتَ أَنْ لاَ، وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ لاَ تَغْدِرُ، وَسَأَلْتُكَ بِمَا يَأْمُرُكُمْ، فَذَكَرْتَ أَنَّهُ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَعْبُدُوا اللَّهَ، وَلاَ تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا، وَيَنْهَاكُمْ عَنْ عِبَادَةِ الأَوْثَانِ، وَيَأْمُرُكُمْ بِالصَّلاَةِ وَالصِّدْقِ وَالْعَفَافِ. فَإِنْ كَانَ مَا تَقُولُ حَقًّا فَسَيَمْلِكُ مَوْضِعَ قَدَمَىَّ هَاتَيْنِ، وَقَدْ كُنْتُ أَعْلَمُ أَنَّهُ خَارِجٌ، لَمْ أَكُنْ أَظُنُّ أَنَّهُ مِنْكُمْ، فَلَوْ أَنِّي أَعْلَمُ أَنِّي أَخْلُصُ إِلَيْهِ لَتَجَشَّمْتُ لِقَاءَهُ، وَلَوْ كُنْتُ عِنْدَهُ لَغَسَلْتُ عَنْ قَدَمِهِ. ثُمَّ دَعَا بِكِتَابِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم الَّذِي بَعَثَ بِهِ دِحْيَةُ إِلَى عَظِيمِ بُصْرَى، فَدَفَعَهُ إِلَى هِرَقْلَ فَقَرَأَهُ فَإِذَا فِيهِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ. مِنْ مُحَمَّدٍ عَبْدِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى هِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّومِ. سَلاَمٌ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى، أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي أَدْعُوكَ بِدِعَايَةِ الإِسْلاَمِ، أَسْلِمْ تَسْلَمْ، يُؤْتِكَ اللَّهُ أَجْرَكَ مَرَّتَيْنِ، فَإِنْ تَوَلَّيْتَ فَإِنَّ عَلَيْكَ إِثْمَ الأَرِيسِيِّينَ وَ{يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَنْ لاَ نَعْبُدَ إِلاَّ اللَّهَ وَلاَ نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلاَ يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ} قَالَ أَبُو سُفْيَانَ فَلَمَّا قَالَ مَا قَالَ، وَفَرَغَ مِنْ قِرَاءَةِ الْكِتَابِ كَثُرَ عِنْدَهُ الصَّخَبُ، وَارْتَفَعَتِ الأَصْوَاتُ وَأُخْرِجْنَا، فَقُلْتُ لأَصْحَابِي حِينَ أُخْرِجْنَا لَقَدْ أَمِرَ أَمْرُ ابْنِ أَبِي كَبْشَةَ، إِنَّهُ يَخَافُهُ مَلِكُ بَنِي الأَصْفَرِ. فَمَا زِلْتُ مُوقِنًا أَنَّهُ سَيَظْهَرُ حَتَّى أَدْخَلَ اللَّهُ عَلَىَّ الإِسْلاَمَ. وَكَانَ ابْنُ النَّاظُورِ صَاحِبُ إِيلِيَاءَ وَهِرَقْلَ سُقُفًّا عَلَى نَصَارَى الشَّأْمِ، يُحَدِّثُ أَنَّ هِرَقْلَ حِينَ قَدِمَ إِيلِيَاءَ أَصْبَحَ يَوْمًا خَبِيثَ النَّفْسِ، فَقَالَ بَعْضُ بَطَارِقَتِهِ قَدِ اسْتَنْكَرْنَا هَيْئَتَكَ. قَالَ ابْنُ النَّاظُورِ وَكَانَ هِرَقْلُ حَزَّاءً يَنْظُرُ فِي النُّجُومِ، فَقَالَ لَهُمْ حِينَ سَأَلُوهُ إِنِّي رَأَيْتُ اللَّيْلَةَ حِينَ نَظَرْتُ فِي النُّجُومِ مَلِكَ الْخِتَانِ قَدْ ظَهَرَ، فَمَنْ يَخْتَتِنُ مِنْ هَذِهِ الأُمَّةِ قَالُوا لَيْسَ يَخْتَتِنُ إِلاَّ الْيَهُودُ فَلاَ يُهِمَّنَّكَ شَأْنُهُمْ وَاكْتُبْ إِلَى مَدَايِنِ مُلْكِكَ، فَيَقْتُلُوا مَنْ فِيهِمْ مِنَ الْيَهُودِ. فَبَيْنَمَا هُمْ عَلَى أَمْرِهِمْ أُتِيَ هِرَقْلُ بِرَجُلٍ أَرْسَلَ بِهِ مَلِكُ غَسَّانَ، يُخْبِرُ عَنْ خَبَرِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَلَمَّا اسْتَخْبَرَهُ هِرَقْلُ قَالَ اذْهَبُوا فَانْظُرُوا أَمُخْتَتِنٌ هُوَ أَمْ لاَ. فَنَظَرُوا إِلَيْهِ، فَحَدَّثُوهُ أَنَّهُ مُخْتَتِنٌ، وَسَأَلَهُ عَنِ الْعَرَبِ فَقَالَ هُمْ يَخْتَتِنُونَ. فَقَالَ هِرَقْلُ هَذَا مَلِكُ هَذِهِ الأُمَّةِ قَدْ ظَهَرَ. ثُمَّ كَتَبَ هِرَقْلُ إِلَى صَاحِبٍ لَهُ بِرُومِيَةَ، وَكَانَ نَظِيرَهُ فِي الْعِلْمِ، وَسَارَ هِرَقْلُ إِلَى حِمْصَ، فَلَمْ يَرِمْ حِمْصَ حَتَّى أَتَاهُ كِتَابٌ مِنْ صَاحِبِهِ يُوَافِقُ رَأْىَ هِرَقْلَ عَلَى خُرُوجِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَأَنَّهُ نَبِيٌّ، فَأَذِنَ هِرَقْلُ لِعُظَمَاءِ الرُّومِ فِي دَسْكَرَةٍ لَهُ بِحِمْصَ ثُمَّ أَمَرَ بِأَبْوَابِهَا فَغُلِّقَتْ، ثُمَّ اطَّلَعَ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ الرُّومِ، هَلْ لَكُمْ فِي الْفَلاَحِ وَالرُّشْدِ وَأَنْ يَثْبُتَ مُلْكُكُمْ فَتُبَايِعُوا هَذَا النَّبِيَّ، فَحَاصُوا حَيْصَةَ حُمُرِ الْوَحْشِ إِلَى الأَبْوَابِ، فَوَجَدُوهَا قَدْ غُلِّقَتْ، فَلَمَّا رَأَى هِرَقْلُ نَفْرَتَهُمْ، وَأَيِسَ مِنَ الإِيمَانِ قَالَ رُدُّوهُمْ عَلَىَّ. وَقَالَ إِنِّي قُلْتُ مَقَالَتِي آنِفًا أَخْتَبِرُ بِهَا شِدَّتَكُمْ عَلَى دِينِكُمْ، فَقَدْ رَأَيْتُ. فَسَجَدُوا لَهُ وَرَضُوا عَنْهُ، فَكَانَ ذَلِكَ آخِرَ شَأْنِ هِرَقْلَ. رَوَاهُ صَالِحُ بْنُ كَيْسَانَ وَيُونُسُ وَمَعْمَرٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ. |
حضرت عبداللہ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ انھیں حضرت ابو سفیان بن حرب نے بتایا کہ انھیں ہرقل نے قریش کی ایک جماعت کے ساتھ بلایا جب کہ وہ شام میں بغرض تجارت گئے ہوئے تھے، اُس مدت کے دوران جب کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ابو سفیان اور قریش سے معاہدہ کیا ہوا تھا۔ وہ اس کے پاس گئے جب کہ ایلیا میں تھے۔ اس نے انھیں اپنے دربار میں طلب کیا اور اس کے گرد رومی سردار تھے۔ انہیں بلا کر اس نے اپنے ترجمان کو بلایا اور کہا :- جس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے تم میں ملجاظ نسب اس کا زیادہ قریبی کون ہے؟ ابو سفیان نے کہا کہ ملجاز نسب میں اس کے زیادہ قریب ہوں۔ اس نے کہا کہ اسے میرے نزدیک کر دو اور دوسرے لوگوں کو اس کے نزدیک کر دو۔ پس درباریوں نے انھیں اس کے پیچھے کر دیا۔ پھر اس نے اپنے ترجمان سے کہا :- میں اس سے اس شخص کے متعلق پوچھنے لگا ہوں۔ اگر یہ غلط بیانی کرے تو اس کی تکذیب کر دینا۔ خدا کی قسم اگر مجھے جھوٹا کہلانے سے حیا نہ آتی تو میں ضرور جھوٹ بولتا۔ پھر اس نے سب سے پیلے حضور کے متعلق پوچھتے ہوئے کہا :- تم میں اس کا نسب کیسا ہے؟ میں نے کہا کہ وہ ہم میں سے عالی نسب ہے۔ اس نے کہا:- کیا تم میں سے پہلے بھی یہ بات کسی نے کہی تھی؟ میں نے کہا نہیں۔ اس نے کہا:- کیا اس کے آباواجداد میں کوئی بادشاہ ہوا ہے؟ میں نے کہا:- نہیں۔ اس نے کہا کہ اس کے پیروکار مالدار لوگ ہیں یا غرباء؟ میں نے کہا:- غریب لوگ۔ اس نے کہا:- وہ بڑھ رہے ہیں یا گھٹ رہے ہیں:- میں نے کہا:- بلکہ بڑھ رہے ہیں۔ اس نے کہا:- اس کے دین میں داخل ہونے کے بعد کیا کوئی ناراض ہو کر پھرا ہے؟ میں نے کہا:- نہیں۔ اس نے کہا:- کیا یہ بات کہنے سے پہلے تم اس پر جھوٹ کی تہمت لگاتے تھے؟ میں نے کہا:- نہیں۔ اس نے کہا:- کیا وہ وعدہ خلافی کرتا ہے؟ میں نے کہا:- نہیں اور یہ ہمارے معاہدے کی موت ہے نہیں معلوم وہ اس میں کیا کرنے والا ہے۔ اس لفظ کے سوا اور کوئی غلط لفظ ملانا میرے لیے ممکن نہیں رہا تھا۔ا س نے کہا:- کیا تم نے اس سے جنگ کی ہے؟ میں نے کہا:- ہاں۔ تمہاری لڑائیوں کا انجام کیا ہوا؟ میں نے کہا کہ لڑائی ہمارے اور اس کے درمیان ڈول کی طرح رہی۔ کبھی وہ بھر لیتے کبھی ہم۔ کہا:- وہ تمہیں کن باتوں کا حکم دیتا ہے؟ میں نے کہا:- وہ کہتا ہے کہ صرف اکیلے خدا کی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور ان باتوں کو چھوڑ دو جو تمہارے آباواجداد کہتے تھے اور وہ ہمیں نماز، سچائی، پاک دامنی اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے۔ اس نے ترجمان سے کہا کہ ان سے کہو کہ میں نے تم سے اس کے نسب کے متعلق پوچھا تو تم نے بتایا کہ وہ سب سے عالی نسب ہے اور رسول اپنی قوم کے ایسے ہی نسب میں مبعوث فرمائے جاتے تھے اور میں نے تم سے پوچھا کہ کیا تم میں سے کسی نے یہ بات پہلے بھی کہی تھی تو تم نے بیان کیا کہ نہیں۔ میں نے سوچا کہ اگر یہ بات پہلے کسی نے کہی ہوتی تو یہ شخص پہلے کہی ہوئی بات کی نقل کر رہا ہے اور میں نے تم سے پوچھا کہ اس کے آباواجداد میں کوئی بادشاہ ہوا ہو تو تم نے کہا کہ نہیں میں نے سوچا کہ اگر اس کے آباواجداد میں کوئی بادشاہ ہوا تو یہ اپنے بڑے کی بادشاہی حاصل کرنا چاہتا ہے اور میں نے تم سے پوچھا کہ یہ بات کہنے سے پہلے کیا اس پر جھوٹ کی تہمت لگاتے تھے تو تم نے نفی میں جواب دیا۔ میں جان گیا کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک آدمی لوگوں کے متعلق جھوٹ بولنے سے تو بچے لیکن خدا کے متعلق جھوٹ بولے۔ اور میں نے تم سے پوچھا کہ اس کے پیروکار تمہارے مالدار ہیں یا غریب لوگ تو تم نے بیان کیا کہ غریبوں نے اس کی پیروی کی ہے جب کہ رسولوں کے پیروکار وہی لوگ ہوتے ہیں اور میں نے تم سے پوچھا وہ بڑھ رہے ہیں یا گھٹتے ہیں تو تم نے بتایا کہ بڑھ رہے ہیں جب کہ ایمان کا معاملہ یہی ہے یہاں تک کے مکمل ہوجاتا ہے اور میں نے تم سے پوچھا کہ کیا کوئی اس کے دین سے ناراض ہو کر اسے قبول کرنے کے بعد پھرتا بھی ہے تو تم نے نفی میں جواب دیا اور ایمان کا یہی حال ہوتا ہے جب وہ اس کی بشاشت دلوں میں سما جائے اور میں نے تم سے پوچھا کہ کیا وہ وعدہ خلافی کرتا ہے تو تم نے انکار کیا اور رسول وعدہ خلافی نہیں کیا کرتے اور میں نے تم سے پوچھا کہ وہ تمہیں کن باتوں کا حکم دیتا ہے تو تم نے بتایا کہ وہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کہ شریک نہ کرو اور تمہیں بتوں کی پوجا کرنے سے منع کرتا ہے اور تمہیں نماز، سچائی اور پاک دامنی کا حکم دیتا ہے۔ اگر تمہاری یہ بات درست ہے تو عنقریب وہ میرے ان قدموں کی جگہ کے بھی مالک ہوجائیں گے۔ مجھے خوب معلوم تھا کہ وہ پیدا ہونے والے ہیں لیکن یہ گمان نہیں تھا کہ وہ تم میں سے ہونگے۔ اگر میں جانتا کہ ان تک پہنچ سکونگا تو ضرور ان کی زیارت کا شرف حاصل کرتا اور اگر میں ان کی بارگاہ میں ہوتا تو ان کے قدموں کو دھونے کی سعادت حاصل کرتا۔ پھر اس نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا نامہ مبارک کو منگوایا۔ جو آپ نے حضرت دحیہ کلبی کے زریعے گورنر بصرٰی کے پاس بھیجا تھا اور گورنر بصرٰی نے ہرقل تک۔ اسے پڑھا تو اس میں تھا:- اللہ کے نام سے شروع جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔ محمد کی طرف سے جو اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ روم کے شہنشاہ ہرقل کے لیے سلام اس پر جو ہدایت کی پیروی کرے۔ اما بعد:- میں تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں۔ اسلام قبول کرلو تو سلامت رہوگے۔ اللہ تعالیٰ تمہیں دوگنا اجر دے گا اور اگر پیٹھ پھیروگے تو رعیّت کا گناہ بھی تم پر ہوگا۔ اے اہلِ کتاب! ایک بات کی طرف آجاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے کہ نہ عبادت کریں مگر اللہ کی اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور آپس میں ایک دوسرے کو رب نہ بنائیں اللہ کو چھوڑ کر۔ اگر اس سے پھرو تو کہہ دو کہ گواہ رہنا کیونکہ ہم مسلمان ہیں(64:3) ابوسفیان کا بیان ہے کہ جب اس نے اپنے تاثرات بیان کیے اور نامہ مبارک کو پڑھ کر فارغ ہوا تو اس کے پاس شور ہونے لگا اور آوازیں بلند ہوگئیں اور ہمیں نکال دیا گیا۔ تو نکلتے وقت میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا ابنِ ابی کبشہ کا معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ بنی اصفر کا بادشاہ اس سے ڈرتا ہے۔اس وقت سے مجھے برابر یقین رہا کہ عنقریب وہ غالب آئے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے دائرہ اسلام میں داخل کر دیا۔ ابنِ ناطور جو ہرقل کی طرف سے حاکمِ ایلیا اور شام کے نصرانیوں کا سردار تھا، اس کا بیان ہے ہرقل جب ایلیا میں آیا تو ایک صبح کو افسردہ خاطر تھا۔ اس کے کسی مصاحب نے کہا کہ ہم آپ کو کبیدہ خاطر دیکھتے ہیں۔ ابنِ ناطور کا بیان ہے کہ ہرقل ماہر نجوم تھا لہذا اس نے سوال کے جواب میں کہا کہ آج رات جب میں نے تاروں کو دیکھا تو نظر آیا کہ ختنہ والوں کا بادشاہ ظاہر ہو چکا ہے اس امت میں ختنہ کون کرواتا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ یہود کے سوا کوئی بھی ختنہ نہیں کرواتا۔ اور ان کی طرف سے آپ کو کوئی اندیشہ نہیں۔ اپنے ملک کے شہروں کو لکھ بھیجے کہ ان میں جتنے یہودی ہوں قتل کر دیئے جائیں۔ ابھی اسی غور و فکر میں تھے کہ ہرقل کی خدمت میں ایک آدمی کو پیش کیا گیا جس کو غسّان کے بادشاہ نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خبر دینے کے لیے بھیجا تھا۔ جب اس نے ہرقل کو خبر دی تو اس نے کہا: جا کر دیکھو کہ وہ لوگ ختنہ کرواتے ہیں یا نہیں؟ انھوں نے دیکھا اور بتایا کہ وہ ختنہ کرواتے ہیں اور عرب کے متعلق پوچھا تو اسے بتایا گیا کہ وہ بھی ختنہ کرواتے ہیں۔ پس ہرقل نے کہا کہ اس ظاہر ہونے والی امت کا بادشاہ یہی ہے۔ پھر ہرقل نے اپنے ایک رومی مصائب کے لیے یہ بات لکھی جو علم نجوم میں اس کا ہم پلہ تھا اور ہرقل حِمص کی جانب روانہ ہوگیا۔ ابھی حِمص سے گیا نہیں تھا کہ اس مصاحب کا خط آگیا جو ہرقل کی موافقت میں تھا کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ظاہر ہوچکے اور وہ برحق نبی ہیں۔ پھر ہرقل نے حمص کے بڑے بڑے آدمیوں کو محل میں بلایا اور حکم دیا کہ اس کے دروازے بند کر دئیے جائیں۔ وہ بند کر دئے گئے۔ وہ سامنے آیا اور کہا: اے رومی کے سردارو! اگر تمہیں نجات اور ہدایت مطلوب ہے اور چاہتے ہو کہ تمہاری حکومت قائم رہے تو اس نبی کی بیعت کر لو۔ پس وہ جنگلی گدھوں کی طرح دروازوں کی طرف بھاگے جو بند پائے۔ جب ہرقل نے ان کی نفرت دیکھی تو ان کے ایمان لانے سے مایوس ہوگیا اور کہا:- میں نے ابھی یہ بات اس لیے کہی تھی کہ دین میں تمہاری مضبوطی کا اندازہ کروں جو میں نے دیکھ لی۔ پس انہوں نے اس کے لیے سجدہ کیا اور اس سے راضی ہوگئے۔ ہرقل کا آخری حال یہ ہے۔ امام بخاری نے فرمایا کہ روایت کیا ہے اسے صالح بن کیسان اور یونس اور معمر نے زہری سے۔ |
|
var container = document.getElementById('nativeroll_video_cont');
if (container) {
var parent = container.parentElement;
if (parent) {
const wrapper = document.createElement('div');
wrapper.classList.add('js-teasers-wrapper');
parent.insertBefore(wrapper, container.nextSibling);
}
}
|
Views: 240831 |
Added by: loveless
|