اسلام سے قبل عورت

اسلام سے قبل عورت کا مقام

اسلام سے قبل عورت کا مقام

اسلام کی آمد سے قبل عرب معاشرے میں عورت کا کوئی اہم مقام نہ تھا۔ اسے مکمل طور پر نظرانداز کیا جاتا تھا اور اس کی عزت و وقار کا کوئی تصوّر نہیں تھا۔ اس زمانے میں عورت کی موجودگی کا مقصد صرف اولاد کی پیدائش اور مردوں کی ضروریات کو پورا کرنا تھا۔

وَيَجْعَلُونَ لِلّهِ مَا يَكْرَهُونَ (النحل، 16 : 62)

قرآن کریم نے ان حالات کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ اللہ کے لیے ایسی بیٹیاں ٹھہراتے ہیں، جنہیں خود ان کے دل پسند نہیں کرتے تھے۔ اس دور میں لڑکیوں کو زندہ دفن کرنے کی مکری روایت بھی موجود تھی، جو ایک انتہائی ظالمانہ عمل تھا۔

نومولود بچیوں کو زندہ دفن کرنے کا رواج

دورِ جاہلیت میں جب کسی کے ہاں بیٹی پیدا ہوتی، تو اس کی زندگی کو بوجھ سمجھا جاتا۔ بہت سے لوگ اپنے معاشرتی دباؤ کی وجہ سے اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیتے۔ قرآن نے اس قبیح عمل کو اس طرح بیان کیا:

وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنثَى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ

يَتَوَارَى مِنَ الْقَوْمِ مِن سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ أَيُمْسِكُهُ عَلَى هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُرَابِ أَلاَ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ (النحل، 16 : 58-59)

’’اور جب ان میں سے کسی کو بچی کی ولادت کی خبر دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے اور وہ غصہ میں گھٹتا جاتا ہے۔‘‘

زمانۂ جاہلیت میں شادی کے رواج

عرب معاشرے میں شادی کا کوئی واضح یا باقاعدہ نظام نہیں تھا۔ عورتوں کو مال و متاع سمجھا جاتا تھا اور ان کے ساتھ برتاؤ انتہائی ظالمانہ ہوتا تھا۔ مختلف طریقوں سے نکاح کیا جاتا تھا، جیسے:

  • زواج البعولۃ: ایک مرد کئی عورتوں کا مالک بن سکتا تھا۔
  • زواج البدل: عورتوں کا آپس میں تبادلہ۔
  • نکاح متعہ: ایک مقررہ مدت تک نکاح کیا جاتا تھا۔
  • نکاح الضغینہ: جنگی قیدیوں سے تعلقات بنائے جاتے تھے۔
  • نکاح شغار: وٹے سٹے کی شادی۔
"خدا کی ہدایت کے بغیر انسان اپنی عقل و فہم سے کچھ نہیں جان سکتا۔"

اسلام نے آ کر ان تمام مظالم کا خاتمہ کیا اور عورتوں کو عزت و وقار دیا۔ اسلام نے نہ صرف عورتوں کو حقوق دیے بلکہ ان کی حیثیت کو بلند کیا۔ قرآن اور حدیث میں عورت کے حقوق کی جو وضاحت کی گئی ہے، وہ انسانیت کے لیے ایک بہترین ضابطہ اخلاق فراہم کرتی ہے۔

اسلام میں عورتوں کے حقوق

اسلام نے عورتوں کو تعلیم حاصل کرنے کا حق دیا، ان کی وراثت میں حصہ مختص کیا، اور انہیں شادی میں انتخاب کا حق دیا۔ قرآن میں ہے:

وَلَكُنَّ نِصْفُ مَا يَرِثُ الرَّجُلُ (النساء، 4 : 7)

"مردوں کے مقابلے میں عورتوں کا نصف حصہ ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ عورتوں کی قیمت یا اہمیت کم ہے، بلکہ یہ ان کے فطری کردار اور ذمہ داریوں کے مطابق ہے۔"

عورت کی عزت و مقام

قرآن اور حدیث میں عورت کی عزت اور مقام کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"تم میں بہترین وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔"

اسلام نے عورت کو معاشرتی، اقتصادی، اور قانونی طور پر حقوق دیے ہیں۔ اس کے علاوہ، اسلام نے عورت کو والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی بھی ترغیب دی ہے۔

اسلام سے قبل کے اور بعد کے موازنہ

اسلام سے قبل عورتوں کی زندگی انتہائی مشکل اور ظلم و ستم کا شکار تھی۔ اسلام نے آ کر ان کے حقوق کا تحفظ کیا اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے احکام دیے۔ اسلامی تعلیمات نے عورتوں کو ان کے حقوق کی آگاہی دی اور ان کی حیثیت کو

دوبارہ ایک بلند مقام پر پہنچایا۔

دورِ جاہلیت میں عورت کی حیثیت کی مزید تفصیل

اس دور میں عورتیں اپنے حقوق سے بے بہرہ تھیں۔ نہ ان کے پاس تعلیم تھی، نہ کوئی اقتصادی آزادی، اور نہ ہی کوئی سماجی حیثیت۔ ان کی زندگی مردوں کی مرضی پر منحصر تھی اور ان کو صرف "مال" یا "وراثت" کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔

عرب معاشرت میں، عورت کو بیٹی کی صورت میں بوجھ سمجھا جاتا تھا اور اس کی پیدائش کو عیب سمجھا جاتا۔ خواتین کو یہ اختیار بھی نہیں تھا کہ وہ اپنے آپ کو پسند کریں یا کسی بات پر اپنی رائے کا اظہار کریں۔

اسلام میں عورت کا سماجی کردار

اسلام نے عورت کو سماج میں فعال کردار ادا کرنے کا موقع دیا۔ انہیں نہ صرف گھریلو کاموں میں حصہ داری کا حق دیا گیا، بلکہ اجتماعی سرگرمیوں، تجارت، سیاست اور تعلیم میں بھی بھرپور حصہ لینے کی آزادی دی گئی۔ قرآن میں خواتین کے لیے

بے شمار آیات ہیں جو ان کے کردار اور ذمہ داریوں کو واضح کرتی ہیں۔