نبي کريم کي خوش مزاجي۔۔۔تھوڑی ہنسی کے تھوڑے آنسوں
حضرت محمد رسول الله
ہمارے رسول پاک صلي اللہ عليہ وسلم ہنس مکھ اور خوش مزاج تھے، آپ صلي اللہ عليہ وسلم کبھي کبھي لوگوں سے ہنسي مذاق کر ليتے تھے، ليکن ہنسي مذاق بھي پاکيزہ اور پيارا ہوتا تھا۔
ايک بار ايک نابينا شخص آپ صلي اللہ عليہ وسلم کي خدمت ميں حاضر ہوئے اور عرض کيا اے اللہ کے رسول صلي اللہ عليہ وسلم کيا ميں جنت ميں داخل ہو سکوں گا؟
آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا نہيں بھائي کوئي اندھا جنت ميں نہيں جائے گا۔
وہ نابينا رونے لگا آپ صلي اللہ عليہ وسلم مسکرائے اور فرمايا بھائي کوئي اندھا، اندھے نونے کي حالت ميں جنت ميں داخل نہ ہوسکے گا بلکہ اب کي آنکھيں روشن ہوگي۔ يہ سن وہ خوش ہوگئے۔
ايک مرتبہ ايک بوڑھي عورت صحابيہ رضي اللہ عنہا آپ صلي اللہ عليہ وسلم کي خدمت ميں حاضر ہوئيں اور آپ صلي اللہ عليہ وسلم سے درخواست کي کہ ميرے لئے جنت کي دعا کريں، آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا کوئي بڑھيا جنت ميں نہ جائے گي۔
وہ رونے لگيں، آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے مسکرا کر کہا، بوڑھياں جنت ميں نہ جائيں گي مگر جوان ہو کر جائيں گي، اس پر وہ خوش ہوگئيں۔
ايک بار آپ صلي اللہ عليہ وسلم کي کھلائي ماں حضرت ام ايمن رضي اللہ تعالي عنہا نے آپ صلي اللہ عليہ وسلم سے ايک اونٹ مانگا، آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ميں اونٹ کا بچہ دوں گا۔
انہونے عرض کيا ميں اونٹ کا بچہ لے کر کيا کروں گي؟ آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ميں تو آپ کو اونٹ کا بچہ ہي دونگا، اس پر وہ مغموم ہوگئيں، آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے ایک خادم کو اشارہ کيا، انہوں نے ايک جوان اونٹ لا کر حضرت ام ايمن رضي اللہ تعالي عنہا کے سپرد کرديا، آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے مسکرا کر فرمايا کيا يہ اونت کا بچہ نہيں ہے، ہر اونٹ، اونٹ کا بچہ ہي تو ہوتا ہے، يہ سن کر وہ مسکراديں۔
ايک بار ايک صحابيہ رضي اللہ تعالي عنہا حاضر ہو کر درخواست کي يا رسول للہ ميرا شوہر بيمار ہے اس کي صحت کيلئے دعا فرمائيں۔
آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا تمہارا خاوند وھي ہے جس کي انکھ ميں سفيدی ہے؟
وہ حيران ہوگئيں اور گھر جا کر اپنے خاوند کي آنکھ کھول کر ديکھنے لگيں، ان کے خاوند نے کہا کيا بات ہے؟
کہنے لگيں رسول صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے کہ تمہارے خاوند کي آنکھ ميں سفيدي وہ ہنس پڑا اور کہنے لگا کہ کيا کوئي ايسا بھي آدمي ہے جس کي آنکھ ميں سفيدی نہيں ہے، اب وہ رسول صلي اللہ عليہ وسلم کے مذاق کو سمجھيں، آپ صلي اللہ عليہ وسلم کا مقصد ان کے شوہر کو خوش کرنا تھا۔
ہمارے رسول صلي اللہ عليہ وسلم بڑے خوش اخلاق اور نرم مذاج تھے آپ صلي اللہ عليہ وسلم کبھي کسي کا دل نہيں دکھاتے تھے اور ہر ايک سے بڑي محبت اور نرمي سے گفتگو فرماتے تھے، آپ صلي اللہ عليہ وسلم کا چہرہ مبارک ہر وقت کھلا رہتا تھا، زبان مبارک ميں اتنی مٹھاس تھي، کہ ہر ايک کا دل مول ليتي تھی، ايک دفعہ ايک شخص آپ صلي اللہ عليہ وسلم کے دروزاے پر حاضر ہوئے اور اندر آنے کي اجازت مانگي، آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
اسے اندر آنے دو۔ ليکن يہ اپنے قبيلے کا اچھا آدمي نہیں ہے۔
جب وہ اندر آيا تو آپ صلي اللہ عليہ وسلم اس سے بہت اچھي طرح پيش آئے اور بڑي محبت سے اور نرمي سے گفتگو فرمائي، جب وہ چلا گيا تو حضرت عاشہ رضي اللہ تعالي عنہ نے حيران ہوکر پوچھا ۔۔۔۔
يا رسول اللہ آپ کے نزديک تو وہ شخص اچھا نہيں تھا، ليکن آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے اس کے ساتھ نہايت نرمي اور محبت کے ساتھ گفتگو فرمائي۔
آپ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمايا ۔اللہ کے نزديک سب سے برا آدمي وہ ہے جس کي بد زباني کي وجہ سے لوگ اس سے ملنا چھوڑ ديں۔
مدينے ميں ايک دفعہ قحط پڑا، ايک صاحب عباد بن شرجيل بھوک سے مجبور ہو کر ايک باغ ميں گھس گئے اور کچھ پھل توڑ کر کھالئے، کچھ اپنے پاس رکھ لئے، باغ کے مالک نے ان کو پکڑ کر مارا اور پھر کپڑے اتروا لئے، عباد آپ صلي اللہ عليہ وسلم کي خدمت مين شکايت لے کر حاضر ہوئے، باغ کا مالک بھي ساتھ تھا، اس نے عباد کي چوري کا حال بيان کيا آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا۔
يہ جاہل تھا تم تو نرمي اور محبت سے اسے تعليم ديتے بھوکا تھا اس کو کھانا کھلاتے۔
پھر آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے عباد کے کپڑے واپس دلوائے اور بہت سا غلہ اپنے پاس سے سے دے ديا۔