روزہ توڑنے کے کفارے کے بارے میں
یہ مضمون روزہ توڑنے کے کفارے سے متعلق ہے اور اس میں مختلف حالات کی وضاحت کی گئی ہے کہ کس طرح روزہ توڑنے کی صورت میں کفارہ ادا کیا جاتا ہے۔ ذیل میں اس کا خلاصہ اور وضاحت دی گئی ہے:
- دو مہینے کے پے در پے روزے:
- جو شخص روزے رکھنے کی طاقت رکھتا ہو اور روزہ توڑ دے، اس کے لیے کفارہ دو مہینے کے مسلسل روزے رکھنے کا ہے۔
- اگر درمیان میں ایک روزہ بھی چھوٹ جائے، تو نئے سرے سے روزے رکھنا ہوں گے۔
- چاند کے مہینے کے حساب سے:
- اگر چاند کے مہینے کی پہلی تاریخ سے روزے شروع کیے تھے، تو دو مہینے کے روزے رکھے جائیں گے، چاہے مہینے 29، 29 کے ہوں یا 30، 30 کے۔
- اگر کسی مہینے کے درمیان سے روزے شروع کیے گئے ہوں، تو 60 دن مکمل کرنے ضروری ہیں۔
- جو شخص روزے رکھنے پر قادر نہ ہو:
- اگر کوئی شخص روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتا، تو اسے 60 مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلانا ہوگا۔
- یا ہر مسکین کو صدقہ فطر کی مقدار کا غلہ یا اس کی قیمت دے دی جائے۔
- کفارہ کی صورت میں:
- اگر ایک رمضان میں کئی دفعہ روزے توڑے جائیں، تو ایک ہی کفارہ لازم ہوگا۔
- اگر مختلف رمضانوں میں روزے توڑے جائیں، تو ہر روزے کے لیے علیحدہ کفارہ ادا کرنا ہوگا۔
- بیوی اور شوہر کی حالت:
- اگر رمضان کے روزے میں بیوی اور شوہر کے درمیان صحبت ہو، تو دونوں پر علیحدہ علیحدہ کفارہ لازم ہوگا۔
- قصداً روزہ توڑنا:
- اگر کسی شخص نے جان بوجھ کر روزہ توڑ دیا، تو اس پر قضا اور کفارہ دونوں لازم ہوں گے۔
قرآن اور حدیث کی روشنی میں
"تمہارا اُمّت واحدہ ہے اور میں تمہارا پروردگار ہوں، پس میری عبادت کرو" (الأنبیاء: 92)
"اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی بات مانو، اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو" (آل عمران: 103)
"میرے بعد تمہاری حالت یہ ہو گی کہ تم میں سے ہر ایک گروہ اپنی من پسند بات کو درست سمجھے گا اور باقی سب گروہ باطل سمجھے گا"۔ (مسلم)
"تم سے پہلے لوگ اپنے دین میں تفرقہ ڈال چکے ہیں، اور تم بھی اسی طرح تفرقہ ڈال کر ان کے نقش قدم پر چل پڑو گے" (بخاری)
یہ تمام باتیں روزہ رکھنے کے حوالے سے اہم اصول اور وضاحت فراہم کرتی ہیں، اور اسلامی تعلیمات کے مطابق ان پر عمل کرنا ضروری ہے۔