پاکستان میں کا نگو وائرس
2002 ء کے اوائل کی بات ہے کہ آزاد کشمیر کے بعض علاقوں، راولپنڈی، اسلام آباد اور کراچی کے مختلف علاقوں میں کانگو وائرس نے دہشت پھیلا دی۔ اُس وقت اس وبائی مرض کے وجہ سے کم از کم 7 افراد ہلاک ہو گئے، جن میں ایک نوجوان لیڈی ڈاکٹر اور 4 کمسن بچے بھی شامل تھے۔ کہا جاتا ہے کہ کانگو وائرس کی پہلی شکار آزاد کشمیر کے علاقے باغ کی سلمیٰ بیگم تھی جو 6 فروری 2002 ءکو ایک مقامی کلینک پر معمولی بخار کی شکایت کے ساتھ گئی، جب 9 فروری کو اس کے بخار میں کوئی خاطر خواہ کمی واقع نہیں ہوئی تو 11 فروری کو اسے مین ڈریسنگ سینٹر لے جایا گیا جہاں پر اس کے جسم سے شدید قسم کا اخراجِ خُون شروع ہو گیا، صُورتحال کی سنگینی کے پیش نظر ڈاکٹروں نے اسے ہولی فیملی ہسپتال راولپنڈی بھجوا دیا، 12 فروری کو اسے راولپنڈی بھیجا گیا جب کہ 13 فروری کو اس کی موت واقع ہو گئی۔
کانگو وائرس کی وجہ سے موت کا پاکستان میں یہ پہلا واقعہ تھا۔ ڈاکٹروں کے مطابق یہ مریضہ کانگو وائرس کا شکار ہو کر زرد بخار میں مبتلا ہوئی جس کی وجہ سے وہ جانبر نہ ہو سکی اور ایک ہفتے کے اندر اندر اس کی موت واقع ہو گئی۔ بعد ازاں ہولی فیملی ہسپتال کی لیڈی ڈاکٹر فرزانہ جس نے سلمیٰ کا علاج کیا تھا، وہ بھی دو ہفتے کے بعد 25 فروری کو موت کی آغوش میں چلی گئی۔ اس کے بعد اس مرض کی دہشت نے پورے مُلک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور خاص کر ڈاکٹرز اور نرسیں اس مرض کی دہشت کا زیادہ شکار ہوئے۔
کانگو وائرس کا پورا نام کریمین ۔کانگو ہموریجک فیور (Crimean.Congo Haemorrhagic Fever) ہے، جسے مختصراََ سی سی ایچ ایف کہا جاتا ہے یہ بنیادی طور پر جانوروں کی بیماری Zoonosis ہے، اور یہ زیادہ تر بھیڑ بکریوں کے بالوں میں چھپے ہوئے پسووں میں پایا جاتا ہے، اس پِسو کو ٹِک (tick) بھی کہتے ہیں۔ جب یہ پَسوبھیڑ بکری یا انسانوں کو کاٹ لے تو پھر یہ وائرس متحرک ہو جاتا ہے، اس کے علاوہ یہ وائرس متاثرہ جانور کے خُون کے ذریعے بھی پھیل سکتا ہے، مثلاََ اگر قصاب جانور ذبح کرتے ہوئے احیتاط نہیں کرتا اور اس کے ہاتھ پر کٹ لگ جاتا ہے تو اس طرح متاثرہ جانور کے خُون سے مخصوص وائرس اس کے جسم میں داخل ہو جائے گا۔ اس لیے مویشیوں کے زیادہ قریب رہنے والے افراد جیسے مویشیوں کے بیوپاری، زرعی کارکن، قصاب، جانوروں کے ڈاکٹر اور ان کے وائرس میں مبتلا ہونے والے افراد کا علاج کرنے والے یا ان کے لواحقین جلد اور آسانی سے اس وائرس کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ یہ وائرس مریض کے خُون، تھوک اور فضلات میں پایا جاتا ہے۔
کانگو وائرس کی تاریخ کا ایک جائزہ لیا جائے تو یہ مرض کوئی نیا نہیں ہے بلکہ اس سے بیشتر بھی پاکستان میں اس مرض سے کئی لوگ متاثر ہو چکے ہیں۔ 1974 ء میں راولپنڈی کے جنرل اسپتال کے ڈاکٹر متین صدیقی اس مرض میں مبتلا ہو کر چل بسے تھے، جب کہ پاکستان کے علاقے چاغی اور لورالائی میں یہ وائرس 1976 ءمیں ظاہر ہوا تھا، تب سے اب تک پاکستان بھر میں کانگو وائرس کے 200 سے زائد مریض سامنے آ چکے ہیں جن میں سے زیادہ تر چل بسے ہیں۔ حالیہ خبروں کے مطابق کراچی میں اس وائرس سے متاثرہ ایک مریض ہلاک ہو چکا ہے اور متعبر ذرائع کے مطابق چند ہفتوں میں مرنے والوں کی تعداد 5 یا اس سے تجاوز کر گئی ہے، اور کراچی کے مختلف ہسپتالوں میں 40 سے زائد مریض زیرِ علاج ہیں۔(بحوالہ روزنامہ دوپہر، ٧٢ نومبر۔٥٠٠٢ئ)۔
کانگو وائرس دُنیا کے جن علاقوں میں پایا گیا ہے ان میں افریقہ، ایشیا، مشرقِ وسطیٰ اور مشرقی یورپ شامل ہیں۔
کانگو وائرس کی علامات
کانگو وائرس عموماََ جسم میں داخل ہونے کے بعد 14 دن کے اندر اندر علامات ظاہر کر دیتا ہے، اور عموماََ مریضوں میں جو علامات ظاہر ہوتی ہیں وہ درج ذیل ہیں:
١۔ ابتدا میں معمولی بخار کی علامت ظاہر ہوتی ہے۔
٢۔ عموماََ مریض پٹھوں میں درد کی شکایت کرتے ہیں۔
٣۔ گردن میں درد اور کھنچاؤ کی علامات بھی ظاہر ہو سکتی ہیں۔
٤۔ بخار کے ساتھ مریض کو شدید کمر درد کی شکایت ہوتی ہے۔
٥۔ متلی، قے اور گلے کی سوزش بھی نمایاں علامات ہیں۔
٦۔ متلی قے کے بعد مریض کو پیٹ میں شدت کا درد اٹھتا ہے اور دست لگ جاتے ہیں۔
٧۔ مرض کے کچھ دن رہنے کے بعد مریض کا مُوذ بدلنے لگتا ہے اور عموماََ مریض غضب ناک ہو جاتے ہیں۔
٨۔ پیٹ کا درد عموماََ دائیں طرف بالائی حصے میں ہوتا ہے۔
٩۔ مریض کا جگر بڑھا ہوا ہوتا ہے۔
١٠۔ بیماری کے پانچویں دن مریض کا جگر، گردے اور پھیپھڑوں کا فعل متاثر ہونے لگتا ہے۔
١١۔ خُون کا جائزہ لینے سے پلیٹ لیٹس کی تعداد میں کمی آ جاتی ہے اور خُون میں جمنے کی صلاحیت کم ہونے لگتی ہے۔
١٢۔مریض کی جِلد کے مساموں سے خُون رِسنے لگتا ہے خاص کر مسوڑھوں، ناک اور اندرونی اعضاء سے خُون خارج ہونے لگتا ہے۔
اگر ایسی علامات کسی مریض میں دیکھیں تو فوری طور پر اسے مناسب طبی مرکز میں داخل کروا دیں اور مریض کے نزدیک محفوظ طریقے سے جائیں ۔
-----
[/font]
2002 ء کے اوائل کی بات ہے کہ آزاد کشمیر کے بعض علاقوں، راولپنڈی، اسلام آباد اور کراچی کے مختلف علاقوں میں کانگو وائرس نے دہشت پھیلا دی۔ اُس وقت اس وبائی مرض کے وجہ سے کم از کم 7 افراد ہلاک ہو گئے، جن میں ایک نوجوان لیڈی ڈاکٹر اور 4 کمسن بچے بھی شامل تھے۔ کہا جاتا ہے کہ کانگو وائرس کی پہلی شکار آزاد کشمیر کے علاقے باغ کی سلمیٰ بیگم تھی جو 6 فروری 2002 ءکو ایک مقامی کلینک پر معمولی بخار کی شکایت کے ساتھ گئی، جب 9 فروری کو اس کے بخار میں کوئی خاطر خواہ کمی واقع نہیں ہوئی تو 11 فروری کو اسے مین ڈریسنگ سینٹر لے جایا گیا جہاں پر اس کے جسم سے شدید قسم کا اخراجِ خُون شروع ہو گیا، صُورتحال کی سنگینی کے پیش نظر ڈاکٹروں نے اسے ہولی فیملی ہسپتال راولپنڈی بھجوا دیا، 12 فروری کو اسے راولپنڈی بھیجا گیا جب کہ 13 فروری کو اس کی موت واقع ہو گئی۔
کانگو وائرس کی وجہ سے موت کا پاکستان میں یہ پہلا واقعہ تھا۔ ڈاکٹروں کے مطابق یہ مریضہ کانگو وائرس کا شکار ہو کر زرد بخار میں مبتلا ہوئی جس کی وجہ سے وہ جانبر نہ ہو سکی اور ایک ہفتے کے اندر اندر اس کی موت واقع ہو گئی۔ بعد ازاں ہولی فیملی ہسپتال کی لیڈی ڈاکٹر فرزانہ جس نے سلمیٰ کا علاج کیا تھا، وہ بھی دو ہفتے کے بعد 25 فروری کو موت کی آغوش میں چلی گئی۔ اس کے بعد اس مرض کی دہشت نے پورے مُلک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور خاص کر ڈاکٹرز اور نرسیں اس مرض کی دہشت کا زیادہ شکار ہوئے۔
کانگو وائرس کا پورا نام کریمین ۔کانگو ہموریجک فیور (Crimean.Congo Haemorrhagic Fever) ہے، جسے مختصراََ سی سی ایچ ایف کہا جاتا ہے یہ بنیادی طور پر جانوروں کی بیماری Zoonosis ہے، اور یہ زیادہ تر بھیڑ بکریوں کے بالوں میں چھپے ہوئے پسووں میں پایا جاتا ہے، اس پِسو کو ٹِک (tick) بھی کہتے ہیں۔ جب یہ پَسوبھیڑ بکری یا انسانوں کو کاٹ لے تو پھر یہ وائرس متحرک ہو جاتا ہے، اس کے علاوہ یہ وائرس متاثرہ جانور کے خُون کے ذریعے بھی پھیل سکتا ہے، مثلاََ اگر قصاب جانور ذبح کرتے ہوئے احیتاط نہیں کرتا اور اس کے ہاتھ پر کٹ لگ جاتا ہے تو اس طرح متاثرہ جانور کے خُون سے مخصوص وائرس اس کے جسم میں داخل ہو جائے گا۔ اس لیے مویشیوں کے زیادہ قریب رہنے والے افراد جیسے مویشیوں کے بیوپاری، زرعی کارکن، قصاب، جانوروں کے ڈاکٹر اور ان کے وائرس میں مبتلا ہونے والے افراد کا علاج کرنے والے یا ان کے لواحقین جلد اور آسانی سے اس وائرس کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ یہ وائرس مریض کے خُون، تھوک اور فضلات میں پایا جاتا ہے۔
کانگو وائرس کی تاریخ کا ایک جائزہ لیا جائے تو یہ مرض کوئی نیا نہیں ہے بلکہ اس سے بیشتر بھی پاکستان میں اس مرض سے کئی لوگ متاثر ہو چکے ہیں۔ 1974 ء میں راولپنڈی کے جنرل اسپتال کے ڈاکٹر متین صدیقی اس مرض میں مبتلا ہو کر چل بسے تھے، جب کہ پاکستان کے علاقے چاغی اور لورالائی میں یہ وائرس 1976 ءمیں ظاہر ہوا تھا، تب سے اب تک پاکستان بھر میں کانگو وائرس کے 200 سے زائد مریض سامنے آ چکے ہیں جن میں سے زیادہ تر چل بسے ہیں۔ حالیہ خبروں کے مطابق کراچی میں اس وائرس سے متاثرہ ایک مریض ہلاک ہو چکا ہے اور متعبر ذرائع کے مطابق چند ہفتوں میں مرنے والوں کی تعداد 5 یا اس سے تجاوز کر گئی ہے، اور کراچی کے مختلف ہسپتالوں میں 40 سے زائد مریض زیرِ علاج ہیں۔(بحوالہ روزنامہ دوپہر، ٧٢ نومبر۔٥٠٠٢ئ)۔
کانگو وائرس دُنیا کے جن علاقوں میں پایا گیا ہے ان میں افریقہ، ایشیا، مشرقِ وسطیٰ اور مشرقی یورپ شامل ہیں۔
کانگو وائرس کی علامات
کانگو وائرس عموماََ جسم میں داخل ہونے کے بعد 14 دن کے اندر اندر علامات ظاہر کر دیتا ہے، اور عموماََ مریضوں میں جو علامات ظاہر ہوتی ہیں وہ درج ذیل ہیں:
١۔ ابتدا میں معمولی بخار کی علامت ظاہر ہوتی ہے۔
٢۔ عموماََ مریض پٹھوں میں درد کی شکایت کرتے ہیں۔
٣۔ گردن میں درد اور کھنچاؤ کی علامات بھی ظاہر ہو سکتی ہیں۔
٤۔ بخار کے ساتھ مریض کو شدید کمر درد کی شکایت ہوتی ہے۔
٥۔ متلی، قے اور گلے کی سوزش بھی نمایاں علامات ہیں۔
٦۔ متلی قے کے بعد مریض کو پیٹ میں شدت کا درد اٹھتا ہے اور دست لگ جاتے ہیں۔
٧۔ مرض کے کچھ دن رہنے کے بعد مریض کا مُوذ بدلنے لگتا ہے اور عموماََ مریض غضب ناک ہو جاتے ہیں۔
٨۔ پیٹ کا درد عموماََ دائیں طرف بالائی حصے میں ہوتا ہے۔
٩۔ مریض کا جگر بڑھا ہوا ہوتا ہے۔
١٠۔ بیماری کے پانچویں دن مریض کا جگر، گردے اور پھیپھڑوں کا فعل متاثر ہونے لگتا ہے۔
١١۔ خُون کا جائزہ لینے سے پلیٹ لیٹس کی تعداد میں کمی آ جاتی ہے اور خُون میں جمنے کی صلاحیت کم ہونے لگتی ہے۔
١٢۔مریض کی جِلد کے مساموں سے خُون رِسنے لگتا ہے خاص کر مسوڑھوں، ناک اور اندرونی اعضاء سے خُون خارج ہونے لگتا ہے۔
اگر ایسی علامات کسی مریض میں دیکھیں تو فوری طور پر اسے مناسب طبی مرکز میں داخل کروا دیں اور مریض کے نزدیک محفوظ طریقے سے جائیں ۔
-----