جمعرات
2024-11-21
1:15 AM
Welcome مہمان
RSS
 
Read! the name of lord پڑھ اپنے رب کے نام سے
Home Sign Up Log In
اسلام میں متعہ »
Site menu

Chat Box
 
200

Our poll
Rate my site

Total of answers: 32

Statistics

ٹوٹل آن لائن 2
مہمان 2
صارف 0

اسلام یقینی طور پر سعادتوں اور خوش بختیوں کا پیغام لے کر آیا ہے ۔ اسلام لوگوں کو بَلاؤں میں اور مشکلات کے پیچ و خم میں پھنسانے کے لئے ہرگز نہيں آیا۔ زندگی کے کسی شعبے میں کمزوری کا پھلو نہيں لایا ہے ۔ انسانی خوش بختی میں بہت اہم کردہر ادا کرتا ہے اسلام نے انسان کی زندگی کو سعادت سے ہمکنار کرنے میں معمولی فروگذاشت بھی نہيں برتی ہے اور اپنی انہيں گونا گوں خصوصیات کی بنا پر کامل ترین مذھب ہے ۔ اسلام اپنے اندر اتنی صلاحیت رکھتا ہے کہ موجودہ دور کی جملہ ضرورتوں کا مثبت جواب دے سکے ۔ شادی بیاہ و تشکیل خاندان سے متعلق قوانین، اسلام کے ان عظیم قوانین میں داخل ہيں جن کا جواب دنیا کا کوئی مذھب نہيں پیش کر سکا ، کلیسا کا رویہ شادی بیاہ کے مسئلے میں اسلام کے بالکل برعکس ہے ۔ اور کلیسا کے کارکنان اور پادریوں کے لئے شادی کلی طور پر منع کی گئی ہے۔ یہ مسلمہ امر ہے کہ جب فطرت کے تقاضوں کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کی جائیں گی اور اس فطری مطالبے کا صحیح جواب نہ دیا جائے گا تو جنسی بے راہ روی کا ہونا ناگزیر ہوجائے گا ۔ شادی بیاہ سے اجتناب یا شادی کے بڑھتے ہوئے اخراجات کی بنا پر شادی کا عدم امکان بہت سی برائیوں اور جنسی بے راہ روی کا سبب بنا ہے۔ دینی شخصیات کے سلسلے میں عیسائیت کا عقیدہ بھی حتی کہ کلیسا میں بسہغیوں کا پیش خیمہ ہے ۔ اسلام کا لوگوں کو ابتدائے بلوغ پر شادی کی ترغیب دلانا در حقیقت اس جنسی قوت سے استفادہ کرنے کی دلیل ہے لیکن اسی کے ساتھ اسلام حیوانوں کی طرح اس قوت سے لطف اندوز ہونے کو منع کرتا ہے اور ایسے طریقے پر آمادہ کرتا ہے جو انسان کے لائق و سزاوار ہو چونکہ بال بچوں سے محبت کرنا انسانی فطرت کا تقاضا ہے اور انسانی فطرت کے اندر جنسی قوت کا وجود بھی مسلم ہے لھذا اسلام اس کو تسلیم کرتا ہے اور اس قوت سے اخلاقی و قانونی حدود میں رہتے ہوئے بھرپور لطف اندوز ہونے کی اجازت دیتا ہے اور لوگوں کے لئے شادی بیاہ کو زینت تصور کرتا ہے ۔اسلام میں جنسی خواہش کی بنیاد پربیوی بچوں سے محبت انسانوں کے لئے باعث زینت قرار دیا گیا ہے۔ "(زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاء وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ذَلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَاللّهُ عِندَهُ حُسْنُ الْمَآبِ (۱) چودہ سو سال پہلے اجتماعی ضرورتوں کی بنا ء پر آج کی موجودہ عالمگیر فحاشی و بدکاری کے خاتمے کے لئے اسلام نے نہایت ہی سادہ و آسان شرائط کے ساتھ متعہ کا قانون بنایا تھا اور اس طرح مفاسد کا خاتمہ کر کے بشریت کو فلاح و بہبود کی طرف دعوت دی تھی ۔ اسلام سے پھلے زمانہ جاھلیت میں دیگر نا شائستہ افعال کی طرح فحاشی اور نا مشروع جنسی روابط بھی ایک عام چیز تھی ، کھلے عام فحاشی کے اڈے بنائے گئے تہے ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے اعمال و اخلاق و افکار کی اصلاح اور جنسی بے راہ روی کو روکنے کے لئے متعہ کا قانون بنایا اور اسی قانون کے زیر سایہ جنسی خواہش کو صحیح راستے پر لگایا ۔ رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی طرف سے ایک منادی نے کوچہ و بازار میں اعلان کیا کہ اے: لوگو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے تمہارے لئے متعہ کو جائز قرار دیا ہے ۔ جنسی پیاس بجھانے کے لئے صحیح طریقوں کا استعمال کرو، بدکاری و جنسی بے راہ روی کو چھوڑ دو ۔(۲) اس قانون کی بناء پر مرد و عورت نکاح دائمی کے بوجہ سے بچتے ہوئے محدود وقت کے لئے متعہ کر سکتے ہیں اور مدت کے ختم ہونے تک زوجیت کی رعایت کی جائے گی۔ متعہ میں نہ تو توارث ہے (مرد اور عورت کو ایک دوسرے کا ترکہ نهیں ملتا) نہ مرد عورت کو خوراک ، پوشاک اور گھر دینے کا ذمہ دار ہے لیکن نکاح دائمی کے تمام اصول متعے پر لاگو ہیں۔ متعہ شدہ عورت واقعاً مرد کی بیوی ہے اور زوجیت کے سارے احکام اس پرنافذ ہیں ۔ قرآن فرماتا ہے : (فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ)- جن عورتوں سے متعہ کرو انکا مھر ادا کرو۔ ۔ (۳) اگر متعہ میں مدت معین نہ کی جائے تو وہ نکاح دائمی شمار ہو جائے گا جو ہمیشہ باقی رہے گا اور اس کو ختم کرنے کےلئے طلاق جیسی چیزوں کا سہارا لینا پڑے گا لیکن چونکہ اس کی مدت معین ہوتی ہے اس لئے اس کو متعہ کہا جاتا ہے ۔ نکاح و متعہ سے ہونے والی بیوی میں کوئی اصولی فرق نہيں ہے ۔ صرف اتنا فرق ہے کہ متعہ محدود وقت کے لئے ہوتا ہے اور نکاح غیر محدود وقت کے لئے ہوتا ہے ۔ اسی طرح دا‏ئمی اور میعادی ازدواج سے ہونے والی اولاد میں بھی کوئی فرق نہيں ہے اور دونوں کو ایک جیسی قانونی اور شرعی رعایتیں حاصل ہيں۔ بدکاری عام ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کچھ لوگ نکاح نہيں کر سکتے کیونکہ شادی کی ذمہ داریاں خصوصاً مالی پریشانی اورکمر توڑ اخراجات ہر شخص کو تشکیل خاندان کی اجازت نہيں دیتا اور یہ مسئلہ ہر زمانے میں رہا ہے۔ اسی طرح تجارت ، دفاعی و فوجی مقاصد ، تحصیل علم ، تفریح اور دیگر امور کی انجام دہی کے لئے انسان کو سفر کرنا پڑتا ہے اور وطن سے دور رہنا پڑتا ہے اور یہ سفر بھی زندگی کی ضروریات میں داخل ہے ۔ اب حالت سفر میں نکاح دائمی یا بال بچوں کو ہر موقع پر ساتھ لئے پھرنا سفر اور اکثر مقامات پر بھت ہی دشوار بلکہ نا ممکن ہے۔ ایسے موقع پرمتعہ کے علاوہ کوئی بھی راہ حل نہيں ہے ۔ اس بات کو پیش نظر رکھ کر دیکھئے کہ عموما ًطویل سفر کرنے والے نوجوان افراد ہوتے ہيں جو بھرپور نوجوانی سے مالامال ہيں اور جنسی خواہش ان کے یاں عروج پر ہوتی ہے تو ایسی صورت میں متعہ کے علاوہ اس مسئلے کا کیا حل ہو سکتا ہے؟ اسی لئے اگر نظم و ضبط کے ساتھ یہ اصلاحی و مترقی (Progressive) قانون نافذ کیا جائے اور صحیح طریقے سے اس کو استعمال کیا جائے تو سماجی انحرافات اور فحشاء و مفاسد کے خلاف بہترین ہتھیار ہے ۔ اور اس طرح فساد و جسم فروشی کو روکا جا سکتا ہے، عمومی اخلاق بہتر ہو سکتے ہيں اور بہت سی دامن آلودہ خواتین نجات پا سکتی ہيں ۔ یہاں صحیح طریقے سے استعمال کی شرط اس لئے لگائی گئی ہے کہ کچھ نادان اور بے لگام لوگ اس قانون سے غلط فائدے حاصل کرنے لگے ہيں اور پہر مخالفین و کوتاہ نظروں کی اس مسئلے کے خلاف بے بنیاد قسم کی تبلیغات نے مسئلے کی صورت ہھی بدل دی ہے اور حقیقت کے بالکل بر عکس اس کا تعارف کرایا ہے، اگر گناہ کی اہمیت نہ سمجھنے والے لوگ متعہ (جو ایک پاکیزہ شادی ہے) کی طرف آجائیں تو صورت حال بالکل بدل سکتی ہے اور پہر قطعی طور پر جسم فروشی و بد کاری کو روکا جا سکتا ہے ۔ صرف متعہ ہی کے لئے یہ بات نہيں ہے کہ لوگ اس کا غلط استعمال کرتے ہيں بلکہ لوگ تو ہر چیز کو غلط استعمال کر سکتے ہيں ۔ ان باتوں کے لئے تہذیب روح اور لوگوں میں اخلاقی بلندی پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور اسلام نے لوگوں کے اخلاقی فضائل کی طرف بہت زیادہ توجہ دی ہے ۔ ہر قانون کی خلاف ورزی کرنے پر کچھ نہ کچھ تأدیب و تنبیہ ہوتی ہے اس لئے قانون متعہ کے خلاف ورزی پر بھی تأدیب ہونی چاہئے اور واقعی بات یہ ہے کہ بغیر تأدیب کے متعہ کا فائدہ بھی حاصل نہ ہو سکے گا چونکہ یہ قانون معاشرے کے فائدے کے لئے ہے اس لئے مخالفت کی صورت میں حکومت کو دخل دینا چاہئے اور سرکشوں کو صحیح راستے پر لگانا چاہئے تاکہ فردی و اجتماعی مصلحتیں محفوظ رہ سکیں امام پنجم علیہ السلام نے حضرت علی علیہ السلام سے نقل فرمایا ہے: لولا أن عمر نهى عن المتعة ما زنا إلا شقي - اگر خلیفہ دوم متعہ کو حرام نہ کرتا تو کمینہ و پست فطرت افراد کے علاوہ کوئی بھی شخص زنا کا ارتکاب نہ کرتا ۔ (۴) سنی و شیعہ علماء و دانشوران نے عمر بن خطاب کا جو قول نقل کیا ہے اس میں غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ متعہ یقینی طور پر رسول خدا کے زمانے میں رائج تھا لیکن عمر نے نا معلوم اسباب کی بناء پر اپنے دور خلافت میں یہ کھہ کر حرام قرار دیا کہ : (قد عرفت نسخ إباحة المتعة ما روي عن عمر أنه قال في خطبته : متعتان كانتا على عهد رسول الله صلى الله عليه وآله أنا أنهى عنهما وأعاقب عليهما وقال في خبر آخر لو تقدمت فيها لرجمت) دو متعے جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے زمانے میں رائج و مرسوم تھے ، میں ان دونوں کو روکتا ہوں اور حرام کرتا ہوں جو بھی یہ کام کرے گا اس کو سزا دوں گا اوروہ دونوں متعہ ایک تو متعہ حج ہے اور دوسرا متعہ نساء ہے ۔ اس عبارت سے واضح ہے کہ عمر نے اپنی شخصی رائے سے متعہ کو حرام قرار دیا ۔ حالانکہ بہت سے اصحاب پیغمبر صلی الله علیہ و آلہ و سلم نے عمر کی بات پر کوئی اعتنا نہيں کی اور برابر متعہ کو جائز و حلال سمجھا۔ (۵) آج کی دنیا میں ہر طرف فتنہ اور آزادروی ہے اور عصمت و عفت کے خلاف رسالے ، روزنامے ، شہوت کو ابھارنے والی فلمیں ، سینما ، اور گمراہ باتیں نشر کرنے والے ریڈیو ، ٹیلی ویژن ، عورتوں کی نیم عریانی، ایسی چیز یں ہيں جو نوجوانوں کے اخلاق کو خراب کرتی ہيں ۔ پاکدامن نوجوان ایک بندگلی میں پھنسے ہيں اسلامی قوانین سے نا واقف لوگ جو متعہ کے بارے میں غلط افواہيں پھیلاتے رہتے ہيں اور نا معقول قسم کا شور و غل کرتے رہتے ہيں اس مشکل کا کیا حل پیش کریں گے۔؟ کیا سارے نوجوان اپنے نفس پر کنٹرول کر لیں گے ؟ اور نوجوانی کی بدمستیوں کے سامنے سینہ سپر ہو سکیں گے ؟ نفس امارہ کو عقل کا تابع بنا سکیں گے؟ چلئے تھوڑی دیر کے لئے ہم مان لیتے ہيں کہ سارے نوجوان اپنے نفس کو قابو میں کر لیں گے لیکن کیا اس سے مقصد خلقت فوت نہ ہو جائے گا؟ کیونکہ نسل انسانی میں قلت پیدا ہوجائے گی نطفے بیکار ہو جائیں گے اور یہ سب روح اسلام کے منافی ہے کیونکہ قرآن مقدس نے اعلان کر دیا ہے : (وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ) خدا وند عالم نے دین اسلام میں دشوار اور نا قابل برداشت بوجھ تمہارے کندہوں پر نہيں ڈالا ہے ۔ (۶) اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ متعہ کو ختم کر کے کیا تمام بداخلاقیوں کی اجازت دے دی جائے؟ اور ٓج پورے معاشرے میں سرایت ان برائیوں اور بد بختیوں کو اپنی تمام تر بے شرمیوں کے ساتھ رائج و عام کر دیا جائے ؟ تاکہ بشریت دریائے شہوت میں ڈوب جائے اور انارکی اور لا قانونیت عام کا دور دورہ ہو جائے؟ قرآن کا ارشاد ہے : (الَّذِي هُوَ أَدْنَى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ)کیا اچھی چیزوں کو چھوڑ کر بری باتوں کو اختیار کرو گے ۔(۷) دوسری صورت یہ ہے کہ قانون متعہ کو رائج کر کے پریشانی و عسرت کی زندگی بسر کرنے والی کروڑوں مطلقہ ،بن بیاہی اوربیوہ عورتوں کو نجات دی جائے تاکہ ان کی زندگی کی گاڑی پھر سے چل پڑے ۔ مان لیتے ہيں کہ یہ عورتیں اپنی عسر ت و تنگدستی کا علاج کر سکتی ہيں لیکن کیا یہ اپنے باطنی احساسات اور روحانی جذبوں کی بھی تکمیل کر لیں گی؟ اور کیا مردوں کی طرف فطری میلان اور وابستگی کا صحیح جواب دیا جا سکے گا؟ اگر فطری احساسات اور جنسی جذبات کا صحیح تدارک نہ کیا گیا تو بھت ممکن ہے کہ اس کی وجہ سے عورتیں تباہی و بربادی اور آلودگی کے راستے پر لگ جائیں ۔ آج مغربی ممالک میں عورتوں اور مردوں کے درمیان متعہ کی جگہ عملی طور پر نا جائز ”جنسی تعلقات " نے لے رکھی ہے اور مغربی مفکرین اس نازک صورت حال کے لئے ایک قانون کی ضرورت محسوس کر رہے ہيں اور جواز متعہ کو معاشرے کے لئے ایک ضرورت سمجھنے لگے ہيں ۔ انگریز فلسفی برٹرانڈ راسل (BERTRAND RUSSELL) لکھتا ہے : آج کی دنیا میں معاشرتی و اقتصادی مسائل و ضروریات نے ہمارے نوجوانوں کی شادی میں تاخیر پیدا کی ہے کیونکہ سو دو سو سال پھلے ایک طالب علم اٹھارہ بیس سال کی عمر میں اپنی تعلیم مکمل کر کے عین شباب میں شادی کے لئے تیار ہو جاتا تھا۔ بھت سے تھی دست لوگ جو تیس چالیس سال محنت کرکے کسی شعبے میں ماہر ہو کر شادی کرتے تھے لیکن آج کل بیس سال کے بعد (اگر ماہر ہو بھی جائیں) ان کا کافی وقت حصول معاش کے چکر میں گذر جاتا ہے۔ عموما ً۳۵ سال سے پھلے شادی بیاہ کی نوبت نہيں آتی، اسی لئے آج کل کے نوجوان تعلیم سے فراغت پانے کے بعد اور شادی کرنے کے وقت تک زندگی کا بھت ہی اہم حصہ مجبوراً - جس طرح بھی ممکن ہو - گذاردیتے ہيں ۔زندگی کے اس حصے سے کسی بھی قیمت پر چشم پوشی نہيں کی جا سکتی، اگر ہم اس کے لئے کوئی فکر نہ کریں گے تو نسل ، اخلاق ، معاشرتی اصول سب کے سب تباہ ہو جائیں گے اسی لئے بمیں کچھ کرنا چاہئے مگر کریں تو کیا کریں ؟ اس مشکل کا حل صرف یہ ہے کہ عمر کے اس حساس حصے میں (لڑکیوں اور لڑکوں کےلئے) میعادی شادی (متعہ) کو قانوناً تسلیم کیا جائے تا کہ وہ عائلی زندگی اور نکاح دائم کی دشواریاں جھیلنے اور غلط اعمال اور نامشروع افعال اورگناہ سے بھی محفوظ ہوں اور بہت سی بیماریوں سے بھی بچے رہیں۔ امریکی یونیورسٹی کے پروفیسر ویلیان وان لوم (VELYAN WAON LOME) تحریر کرتے ہيں کہ تجربے سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ نکاح کی عمر گذر جانے کے بعد مرد تازگی اور نشاط کی طرف مائل نہيں ہوتے اسی لئے جنسی انحرافات کی طرف مائل ہو جاتے ہيں ۔ چنانچہ مغربی ممالک کے اعداد و شمار بتاتے ہيں کہ ۳ سے ۶۵ فیصد شادی شدہ مرد اپنی بیویوں سے خیانت کرتے ہيں۔ اس جنسی بے راہ روی کو ختم کرنے اور نکاح کے مصارف کو ہلکا کرنے کے لئے مخصوص شرائط کے ساتھ _ جس مدت تک میاں بیوی تیار ہوں- قانونی طور پر بھی متعہ جائز ہوناچاہئے ۔(۸) حوالے : (۱)سورہ آل عمران آیت /14 (۲)وسائل ابواب متعھ (۳) سورہ نساء /آیت 24 (۴) روى الثعلبي في تفسيره في ج3 ص 286 ، ط الأولى بيروت دار إحياء التراث العربي (۵)و روى الجصاص في أحكام القرآن ج 3 ص 94 الى 105 ، قد عرفت نسخ إباحة المتعة ما روي عن عمر ط دار إحياء التراث العربي بيروت مزید تفصیل کے لئے اھل سنت کی کتب تفسیر ،فقہ ، حدیث کا مطالعہ فرمائیے (۶) سورہ حج آیت ۷۸ (۷)سورہ بقرہ آیت /۶۱ (۸)بھداشت ازدواج از نظر اسلام ص ۱۷۸ ترجمہ: ف۔ح۔مہدوی حدیث پڑھنے والوں کے لئے تحفہ: من ذالذي حرّم الزواج المؤقت؟ متعہ کس نے حرام کیا؟ على الرغم مما في صحاح أهل السنة وكتبهم من أن عمر بن الخطاب هو من منع هذا الزواج إلا أننا نجد من يصر على أن رسول الله صلى الله عليه وآله هو الذي حرمها !! نذكر هنا بعض الروايات التي تثبت أن المنع والتحريم قد صدر منه و بعض هذه الروايات کما یلی : 1- روى مسلم في صحيحه (( عن أبي نضرة قال كان ابن عباس يأمر بالمتعة وكان ابن الزبيـر ينهى عنها قال فذكرت ذلك لجابر بن عبدالله فقال على يدي دار الحديث تمتعنا مع رسول الله صلى الله عليه وآله فلما قام عمر قال : إن الله كان يحل لرسوله ما شاء بما شاء وإن القرآن قد نزل منازله فأتموا الحج والعمرة لله كما أمركم الله وأبتوا نكاح هذه النساء فلن أوتي برجـل نكح امرأة إلى أجل إلا رجمته بالحجارة)) 2- الرواية الثانية التي بعدها وهي من صحيح مسلم أيضاً (( سمعت جابر بن عبدالله يقول كنا نستمتع بالقبضة من التمر والدقيق الأيام على عهد رسول الله صلى الله عليه وآله وأبي بكر حتى نهى عنها عمر في شأن عمرو بن حـريث )) 3- والرواية التي بعدها من صحيح مسلم أيضاً (( عن أبي نضرة قال كنت عند جابر بن عبدالله فأتاه آت فقال ابن عباس وابن الزبير اختلفا في المتعتين فقال جابر : فعلناهما مع رسول الله صلى الله عليه وآله ثم نهانا عنهما عمر فلم نعد لهما )) 4- وقال ابن رشد في كتاب بداية المجتهد و نهاية المقتصد في ج2 ص 47 ، ط دار الفكر / و ج2 ص 57 ، ط إيران (( واشتهر عن ابن عباس تحليلها وتبع ابن عباس على القول بها أصحابه ...... و روي عنه أنه قال : ما كانت المتعة إلا رحمة من الله عزوجل رحم بها أمة محمد ولولا نهي عمر عنها ما اضطر إلى الزنا إلا شقي )) 5- قال ابن حجر في الإصابة ج3 ص 121 ، ط دار الكتب العلمية (( أن سلمة بن أمية استمتع من سلمى مولاة حكيم بن أمية بن الأوقص الأسلمي فولدت له فجحد ولدها فبلغ ذلك عمر فنهى عن المتعة )) 6- روى القرطبي في تفسيره ج 3 ص 1700 ، ط دار الثقافة (( وروى عطاء عن ابن عباس قال : ما كانت المتعة إلا رحمة من الله تعالى رحم بها عباده ولولا نهى عمر عنها ما زنى إلا شقي )) 7- جاء في تفسير الطبري ج 5 ص19 ، ط الأولى دار إحياء التراث العربي (( قال الحكم : قال علي رضي الله عنه : لولا أن عمر رضي الله عنه نهى عن المتعة ما زنى إلا شقى )) 8- و قال السيوطي في تفسيره الدر المنثور ج 2 ص 486 ، ط دار الفكر (( وأخرج عبدالرزاق وأبو داوود في ناسخه وابن جرير عن الحكم أنه سئل عن هذه الآية أمنسوخة ؟ قال : لا وقال علي : لولا أن عمر نهى عن المتعة ما زنا إلا شقي )) 9- وجاء كذلك في الدر المنثور في نفس الجزء والصفحة (( وأخرج مالك وعبد الرزاق عن عروة ابن الزبير أن خولة بنت حكيم دخلت على عمر بن الخطاب فقالت : إن ربيعة بن أمية استمتع بامرأة مولدة فحملت منه فخرج عمر بن الخطاب يجر رداءه فزعاً فقال : هذه المتعة ولو كـنت تقدمت فيها لرجمت )) 10- و أيضاً في الدر المنثور ج 2 ص 487 (( وأخرج عبد الرزاق وابن المنذر من طريق عطاء عن ابن عباس قال : يرحم الله عمر ما كانت المتعة إلا رحمة من الله رحم بها أمة محمد ولولا نهيه عنها ما احتاج إلى الزنا إلا شقي قال وهي التي في سورة النساء فما استمتعتم به منهن إلى كذا وكذا من الأجل على كذا وكذا .. قال وليس بينهما وراثة فإن بدا لهما أن يتراضيا بعد الأجل فنعم وإن تفرقا فنعم وليس بينهما نكاح و أخبر أنه سمع ابن عباس يراها الآن حلالاً )) 11- و في الدر المنثور أيضاً ج 2 ص 487 (( وأخرج ابن أبي شيبة عن سعيد بن المسيب قال : نهى عمر عن متعتين متعة النساء ومتعة الحج )) 12- و روى الجصاص في أحكام القرآن ج 3 ص 94 الى 105 ، ط دار إحياء التراث العربي بيروت (( عن ابن جريج قال أخبرني عطاء قال سمعت ابن عباس يقول : رحم الله عمر ما كانت المتعة إلا رحمة من الله تعالى رحم الله بها أمة محمد صلى الله عليه وآله ولولا نهيه لما احتاج إلى الزنا إلا شفا )) 13- و روى الجصاص كذلك (( قد عرفت نسخ إباحة المتعة ما روي عن عمر أنه قال في خطبته : متعتان كانتا على عهد رسول الله صلى الله عليه وآله أنا أنهى عنهما وأعاقب عليهما وقال في خبر آخر لو تقدمت فيها لرجمت )) 14- وروى الثعلبي في تفسيره في ج3 ص 286 ، ط الأولى بيروت دار إحياء التراث العربي (( قال الحكم قال علي بن أبي طالب كرم الله وجهه : لولا أن عمر نهى عن المتعة ما زنا إلا شقي )) 15- وكذلك روى الثعلبي في بحثه حول زواج المتعة ، في نفس الجزء والصفحة من تفسيره (( أبو رجاء العطاردي عن عمران بن الحصين قال : نزلت هذه الآية (المتعة) في كتاب الله ، لم تنزل آية بعدها تنسخها ، فأمرنا بها رسول الله صلى الله عليه وآله وتمتعنا مع رسول الله صلى الله عليه وآله ولم ينهنا عنه وقال رجل بعد برأيه ما شاء )) 16- وأيضاً روى الثعلبي في ص287 من نفس الجزء هذه الرواية (( روى الفضل بن دكين عن البراء بن عبدالله القاص عن أبي نضرة عن ابن عباس أن عمر نهى عن المتعة التي تذكر في سورة النساء فقال : إنما أحل الله ذلك على عهد رسول الله صلى الله عليه وآله والنساء يومئذ قليل ثم حرم عليهم بعد أن نهى عنها . )) 17- جاء في تفسير النيسابوري ج2 ص 392 ، ط الأولى دار الكتب العلمية (( وروي عن عمر أنه نهى عن المتعة على المنبر بمحضر من الصحابة ولم ينكر عليه أحد منهم )) 18- قال ابن عاشور في تفسيره ج 4 ص88 ، ط الأولى مؤسسة التاريخ (( وروي عن ابن عباس أنه قال : لولا أن عمر نهى عن المتعة ما زنى إلا شفى ، وعن عمران بن حصين في الصحيح أنه قال : ( نزلت آية المتعة في كتاب الله ولم ينزل بعدها آية تنسخها ، وأمرنا بها رسول الله صلى الله عليه وآله ثم قال رجل برأيه ما شاء) يعني عمر بن الخطاب حين نهى عنها في زمن من خلافته بعد أن عملوا بها في معظم خلافته )) 19- قال ابن قدامة في المغني ج7 ص 178 ، ط الأولى مكتبة القاهرة ، في حديثه عن زواج المتعة (( وحكي عن ابن عباس أنها جائزة وعليه أكثر أصحابه : عطاء وطاووس وبه قال ابن جريج وحكى ذلك عن أبي سعيد الخدري وجابر وإليه ذهب الشيعة لأنه قد ثبت أن النبي صلى الله عليه وآله أذن فيها وروي أن عمر قال : متعتان كانتا على عهد رسول الله فأنهى عنهما وأعاقب عليهما متعة النساء ومتعة الحج )) 20- روى الدار قطني قي سننه ج2 ص 158 ، ط دار الفكر (( .. حدثنا البراء بن عبدالله أبو النصرة عن ابن عباس أن عمر نهى عن المتعة التي في النساء وقال : إنما أحل الله ذلك للناس على عهد رسول الله صلى الله عليه وآله والنساء يومئذ قليل ثم حرم عليهم بعد فلا أقدر على أحد يفعل من ذلك شيئاً فتحل به العقوبة )) 21- روى عمر بن شبه في كتابه تاريخ المدينة المنورة ج2 ص 716 ، الطبعة من تحقيق فهيم محمد شلتوت في ( باب تحريم عمر متعة النساء ) (( حدثنا ابن أبي خداش الموصلي قال حدثنا عيسى بن يونس الأجلح قال سمعت أبا الزبير يقول : فيما يروى عن جابر بن عبدالله : تمتع عمرو بن حريث من امرأة بالمدينة فحملت فأتى بها عمر فأراد أن يضربها فقالت : يا أمير المؤمنين تمتع مني عمرو بن حريث فقال : من شهد نكاحك ؟ فقالت أمي وأختي ، فقال عمر: بغير ولي ولا شهود !! فأرسل إلى عمرو بن حريث فقام عليه فسأله ، فقال : صَدَقت ، فقال عمر للناس : هذا نكاح فاسد وقد دخل فيه ما ترون ، فرأى عمر أن يُحرّمه )) 22- أيضاً روى عمر بن شبه في كتابه تاريخ المدينة المنورة ج2 ص 717 (( عن جابر بن عبدالله رضي الله عنهما قال : استمتعتُ من النساء على عهد رسول الله صلى الله عليه وآله ، وزمن أبي بكر ثم زمن عمر حنى كان من شأن عمرو بن حريث الذي كان فقال عمر : إنا كنا نستمتع ونفي ، وإني أراكم تستمتعون ولا تفون ، فانكحوا ولا تستمتعوا )) 23- وقال ابن شبه أيضاً في كتابه المذكور ج2 ص 719 (( كان ابن عباس رضي الله عنهما يأمر بالمتعة وكان ابن الزبير ينهى عنها ، فذكرت ذلك لجابر بن عبدالله فقال : على يدي دار الحديث ، تمتعنا مع رسول الله صلى الله عليه وآله فلما قام عمر قال : إن الله يحل لرسوله ما شاء بما شاء ، فإن القرآن قد نزل منازله ، فأتموا الحج والعمرة كما أمركم الله ، وأتموا نكاح هذه النساء ولن أوتي برجل نكح امرأة إلى أجل إلا رجمته بالحجارة )) 24- وقال ابن شبه أيضاً في كتابه المذكور ج2 ص 720 (( عن جابر رضي الله عنه قال : لما ولي عمر خطب الناس فقال : إن القرآن هو القرآن ، وإن الرسول هو الرسول وإنهما كانتا متعتين على عهد رسول الله إحداهما متعة الحج والأخرى متعة النساء ، فافصلوا حجكم عن عمرتكم فإنه أتم لحجكم وأتم لعمرتكم ، والأخرى متعة النساء فلا أوتي برجل تزوج امرأة إلى أجل إلا غـيبـته في الحجارة )) 25- وروى ابن شبه أيضاً في كتابه المذكور ج2 ص 720 (( قال ابن عباس رضي الله عنه : رحم الله عمر لولا نهى عن المتعة ما زنى أحـد )) 26- روى ابن جرير الطبري في ج3 ص 290 من تاريخه ، ط مؤسسة الأعلمي في بيروت ، من حديث عمران بن سواد عندما نصح عمر وواجهه بما فعله في دين محمد وأمته وكان مما قاله عمران بن سواد لعمر (( .. و ذكروا أنك حرمت متعة النساء و قد كانت رخصة من الله نستمتع بقبضة و نفارق عن ثلاث ، قال (عمر) : إن رسول الله صلى الله عليه وآله أحلها في زمان ضرورة ثم رجع الناس إلى السعة ثم لم أعلم أحداً من المسلمين عمل بها ولا عاد إليها فالآن من شاء نكح بقبضة وفارق عن ثلاث بطلاق و قد أصبت )) ونرى في هذه الرواية كيف أنه قد حصل الإنكار والاحتجاج على عمر سواء في مسألة المتعة أو غيرها ، كما نرى أن عمر في دفاعه عن نفسه لم يدعي أن الله نسخها أو أن رسول الله حرمها و نهى عنها لأن ذلك لم يقع أصلاً ، ولو كان التحريم والنسخ واقع من عند الله و رسوله لاستدل به عمر ودافع عن نفسه ولكان أقوى في الحجة و البرهان . 27- - قال ابـن رشد في بداية المجتهد ج2 ص 50 ط مصر (( وعن عطاء قال : سمعت جابر بن عبدالله يقول : تمتعنا على عهد رسول الله صلى الله عليه وآله وأبي بكر و نصفاً من خلافة عمر ثم نهى عمر الناس )) 28- روى البيهقي في السنن الكبرى ج10 ص 490 ط الأولى دار الفكر ، عن جابر بن عبد الله الأنصاري (( ... تمتعنا مع رسول الله صلى الله عليه وآله ومع أبي بكر فلما ولي عمر خطب الناس فقال : إن رسول الله هذا الرسول وإن هذا القرآن هذا القرآن ، وإنهما كانتا متعتان على عهد رسول الله وأنا أنهى عنهما وأعاقب عليهما ، إحداهما متعة النساء ولا أقدر على رجل تزوج امرأة إلى أجـل إلا غيبته بالحجارة ، والأخرى متعة الحج ....الخ )) 29- قال الحسن بن عبدالله العسكري في كتابه الأوائـل ص 117 ، ط الأولى منشورات دار الكتب العلمية ، في باب ( أول من حرّم المتعة عمر ) روى بإسناده عن الزبير (( سمعت الزبير يقول : تمتع عمرو بن حريث من امرأة بالمدينة فحبلت ، فأتي بها عمر فأراد أن يضربها فقالت : تمتع مني عمرو بن حريث ، فقال : من شهد نكاحك ؟ فقالت : أمي وأختي ، فأرسل عمر إلى عمرو فقدم فسأله ، فقال : صدقت ، فقال عمر للناس : هذا نكاح فاسد و قد دخل فيه ما ترون و رأى عمر أن يحرمه .... وخطب عمر فقال : متعتان كانتا على عهد رسول الله صلى الله عليه وآله أنا أنهي عنهما أو أعاقب عليهما )) 30- و أيضاً قال الحسن بن عبدالله العسكري في كتابه الأوائـل ص 117 ، في باب ( أول من حرّم المتعة عمر ) (( وقال ابن عباس رضي الله عنه : رحم الله عمر لو أنه ما نهى عن المتعة ما زنى أحد ، وكان ابن عباس يرى المتعة )) 31- قال السيوطي في تاريخ الخلفاء ، في فصل أوليات عمر ص 103 ، ط دار المنار في مصر (( وهو ( أي عمر ) أول من حرّم المتعة )) 32- روى النسائي في السنن الكبرى ج3 ص326 ، ط الأولى منشورات دار الكتب العلمية في بيروت (( حدثنا عمرو بن دينار عن جابر بن عبدالله قال : كنا نعمل بها يعني متعة النساء على عهد رسول الله صلى الله عليه وآله وفي زمان أبي بكر وصدراً من خلافة عمر حتى نهانا عنها )) 33- روى الذهبي في تذكرة الحفاظ ج1 ص 268 ، ط الأولى منشورات دار الكتب العلمية (( عن ابن عمر عن عمر قال : متعتان كانتا على عهد رسول الله صلى الله عليه وآله أنهى عنهما وأعاقب عليهما متعة النساء و متعة الحج )) 34- روى عبد الرزاق الصنعاني في مصنفه ج7 ص 497 ، في باب المتعة (( قال عطاء و سمعت ابن عباس يقول : يرحم الله عمر ما كانت المتعة إلا رخصة من الله عزوجل رحم بها أمة محمد صلى الله عليه وآله فلولا نهيه عنها ما احتاج إلى الزنا إلا شقي )) 35- روى عبد الرزاق الصنعاني في مصنفه ج7 ص 500 ، في باب المتعة (( قال ابن جريج : وأخبرني من أصدّق أن علياً قال بالكوفة : لولا ما سبق من رأي عمر بن الخطاب أو قال : من رأي ابن الخطاب لأمرتُ بالمتعة ثم ما زنا إلا شقي )) 36- جاء في كنز العمال للمتقي الهندي ج16 ص 519 ، ط الأولى في حلب (( عن عمر قال : متعتان كانا على عهد رسول الله صلى الله عليه وآله أنهى عنهما وأعاقب عليهما : متعة النساء ومتعة الحج )) 37- جاء في كنز العمال أيضاً ج16 ص 521 (( عن أبي قلابة أن عمر قال : متعتان كانتا على عهد رسول الله صلى الله عليه وآله أنا أنهى عنهما وأضرب فيهما )) 38- جاء في كنز العمال أيضاً ج16 ص 520 (( عن سعيد بن المسيب أن عمر نهى عن متعة النساء وعن متعة الحاج )) 39- جاء في كنز العمال أيضاً ج16 ص 520 (( عن جابر قال : تمتعنا متعة الحج ومتعة النساء على عهد رسول الله صلى الله عليه وآله فلما كان عمر نهانا فانتهينا )) 40- جاء في كنز العمال أيضاً ج16 ص 522 (( عن سليمان بن يسار عن أم عبدالله ابنة أبي خيثمة أن رجلاً قدم من الشام فنزل عليها ، فقال إن العزبة قد اشتدت عليّ فابغيني امرأة أتمتع معها ، قالت : فدللته على امرأة فشارطها فاشهدوا على ذلك عدولاً ، فمكث معها ما شاء الله أن يمكث ثم إنه خرج ، فأخبر عن ذلك عمر بن الخطاب فأرسل إليّ فسألني : أحقٌ ما حدث ؟ قلت : نعم ، قال : فإذا قدم فآذنيني به ، فلما قدم أخبرته ، فأرسل إليه فقال : ما حملك على الذي فعلته ؟ قال فعلته مع رسول الله صلى الله عليه وآله ثم لم ينهانا عنه حتى قبضه الله ثم مع أبي بكر فلم ينهانا عنه حتى قبضه الله ، ثم معك فلم تُحدث لنا فيه نهياً ، فقال عمر : أما والذي نفسي بيده لو كـنت تقدمت في نهى ٍلرجمتك ، بينوا حتى يُعرف النكاح من السفاح )) 41- جاء في كنز العمال أيضاً ج16 ص 522 (( عن علي قال : لولا ما سبق من رأي عمر بن الخطاب لأمرتُ بالمتعة ، ثم ما زنى إلا شقيّ )) 42- جاء في كتاب نيل الأوطار للشوكاني ج6 ص 521 (( ان ابن عباس كان يقول : يرحم الله عمر ما كانت المتعة إلا رحمة رحم الله بها عباده ، ولو لا نهي عمر لما احتيج إلى الزنا أبداً )) 43- قال أبو بكر السرخسي في أصوله ج2 ص 6 ، ط دار المعرفة (( قال عمر : متعتان كانتا على عهد رسول الله عليه السلام وأنا أنهى عنهما و أعاقب عليهما : متعة النساء ومتعة الحج )) 44- جاء في مسند أحمد بن حنبل ص 998 ، ط بيت الأفكار الدولية في الرياض (( حدثنا إسحاق حدثنا عبدالملك عن عطاء عن جابر بن عبدالله قال : كنا نتمتع على عهد رسول الله صلى الله عليه وآله وأبي بكر وعمر حتى نهانا عمر أخيراً يعني النساء )) 45- وفي مسند أحمد ص 1013 (( حدثنا عبدالصمد حدثنا حماد عن عاصم عن أبي نضرة عن جابر قال : متعتان كانتا على عهد النبي صلى الله عليه وآله ، فنهانا عنهما عمر فانتهينا )) 46- وأيضاً روى أحمد في مسنده ص 1041 (( حدثنا عفان حدثنا حماد أخبرنا علي بن زيد وعاصم الأحول عن أبي نضرة عن جابر بن عبدالله قال : تمتعنا على عهد رسول الله صلى الله عليه وآله متعتين : الحج و النساء ، (وقد قال حماد أيضاً : متعة الحج ومتعة النساء) فلما كان عمر نهانا عنهما فانتهينا )) 47- ذكر السيد سابق في كتابه فقه السنة ج2 ص 42 ، ط الثانية منشورات دار الكتاب العربي ، في أدلة تحريم زواج المتعة ذكر الدليل الثالث (( ثالثاً : أن عمر حرمها وهو على المنبر أيام خلافته وأقرّه الصحابة وما كانوا ليقروه على خطأ لو كان مخطئاً )) 48- قال ابن أبي الحديد المعتزلي في كتابه شرح النهج ج1 ص 182 ، ط الأولى منشورات دار إحياء الكتب العربية ، تحقيق محمد أبو الفضل إبراهيم في حديثه عن عمر (( وقال : متعتان كانتا على عهد رسول الله صلى الله عليه وآله وأنا محرمهما ومعاقب عليهما : متعة النساء ومتعة الحج )) ثم عقّب المعتزلي قائلاً : وهذا الكلام و إن كان ظاهره منكراً فله عندنا مخرج و تأويل وقد ذكره أصحابنا الفقهاء في كتبهم . 49- جاء في كتاب المحاضرات للراغب الأصفهاني المجلد 2 ج3 ص 214 ، منشورات دار مكتبة الحياة (( قال يحيى بن أكثم لشيخ البصرة : بمن اقتديت في جواز المتعة ؟ قال : بعمر بن الخطاب ، قال : كيف و عمر كان أشد الناس ، قال : لأن الخبر الصحيح أنه صعد إلى المنبر فقال : إن الله ورسوله قد أحلا لكما متعتين و أني محرمها عليكم أو أعاقب عليهما ، فقبلنا شهادته ولم نقـبل تحريمه )) 50- ذكر الجاحظ في كتاب البيان و التبيين ج2 ص 368 ، ط المكتبة العصرية (( وقال عمر في جواب كلام قد تقدم وقول قد سلف منه (متعتان كانتا على عهد رسول الله صلى الله عليه وآله أنا أنهى عنهما وأضرب عليهما) )) 51- وقال الفقيه الأباضي أبي زكريا الجناوني في كتابه النكاح ص 148 (( و قد روي عن ابن عباس رضي الله عنه أنه قال (لو أطاعني عمر في نكاح المتعة لم يجلد على الزنا إلا شقي) )) فكل هذه الروايات و الأقوال تنسب التحريم و المنع لعمر بن الخطاب ، و حتى التألم و التأسف المروي عن الإمام علي عليه السلام وعن ابن عباس رضي الله عنهما أيضاً يتجه نحو عمر وليس إلى رسول الله صلى الله عليه وآله ، فمن ذالذي اجتهد في مقابل النص القرآني و ما تقول هذه الروايات السنية؟ ، و حتى حينما أرادوا وضع روايات على لسان رسول الله صلى الله عليه و آله تحرّم النكاح المؤقت لم يفـلحوا ، فتجد رواياتهم في ذلك متعددة ومضطربة ومتناقضة واعترف بذلك أكثر من واحد من علمائهم مما يُشتمّ منها رائحة الكذب والوضع مع الأسف الشديد وسيكون لنا وقفة معهم في هذه الروايات والأقوال إن شاء الله ، ثم انهم لم يلتـفتوا إلى أنه يلزم من وضعهم لهذه الروايات أن تكون السنة ناسخة للقرآن الكريم ومُغيرة لأحكامه وتعاليمه والأنكى أنها ليست من السنة التي تواترت عن النبي صلى الله عليه وآله حتى يقال قد تنسخ السنة المتواترة النص القرآني کما یقولون بعضهم ، بل هي مما تفرد به الخلیفة من أخبار الآحاد !! .
Log In

Search

Calendar
«  نومبر 2024  »
SuMoTuWeThFrSa
     12
3456789
10111213141516
17181920212223
24252627282930

Entries archive

Site friends