عظیم مسلمان سائینسدان "" ابن الہیثم ""
ابن الہیثم کا پورا نام “ابو علی الحسن بن الہیثم” ہےلیکن وہ '' ابن الہیثم '' کے نام سے مشہور ہوۓ۔ ان کی پیدائش عراق کے شہر بصرہ میں غالباً 354 ہجری اور وفات 430 ہجری کو ہوئی ۔ وہ طبعیات ، ریاضی ، انجنئرنگ ،فلکیات اورادویات کے مایہ ناز محقق تھے۔ وہ مصر چلے گئے تھے اور اپنی وفات تک وہیں رہے ۔ 996 ء میں وہ فاطمی خلافت مصر کے دربار سے منسلک ہو گیا۔ اس نے دریائے نیل پر اسوان کے قریب تین طرف بند باندھ کر پانی کا ذخیرہ کرنے کی تجویز پیش کی لیکن ناکافی وسائل کی وجہ سے اسے ترک کرنا پڑا۔ اب اسی جگہ مصر کا سب سے بڑا ڈیم یعنی اسوان ڈیم قائم ہے۔
، قفطی کی “اخبار الحکماء” میں ابن الہیثم کی زبانی یہ الفاظ نقل کیے گئے ہیں:
“لو کنت بمصر لعملت بنیلھا عملاً یحصل النفع فی کل حالہ من حالاتہ من زیادہ ونقصان”
ترجمہ: “اگر میں مصر میں ہوتا تو اس کی نیل کے ساتھ وہ عمل کرتا کہ اس کے زیادہ اور نقصان کے تمام حالات میں نفع ہی ہوتا”
ان کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ نیل کے پانی کو آبپاشی کے لیے سال کے بارہ مہینے دستیاب کر سکتے تھے، ان کا یہ قول مصر کے حاکم الحاکم بامر اللہ الفاطمی کو پہنچا تو انہوں خفیہ طور پر کچھ مال بھیج کر انہیں مصر آنے کی دعوت دی جو انہوں نے قبول کر لی اور مصر کی طرف نکل کھڑے ہوئے جہاں الحاکم بامر اللہ نے انہیں اپنی کہی گئی بات پر عمل درآمد کرنے کو کہا، ابن الہیثم نے نیل کے طول وعرض کا سروے شروع کیا اور جب اسوان تک پہنچے جہاں اس وقت “السد العالی” (السد العالی ڈیم) قائم ہے اور اس کا بھرپور جائزہ لینے کے بعد انہیں اندازہ ہوا کہ ان کے زمانے کے امکانات کے حساب سے یہ کام ناممکن ہے اور انہوں نے جلد بازی میں ایک ایسا دعوی کردیا جسے وہ پورا نہیں کرسکتے تھے، چنانچہ الحاکم بامراللہ کے پاس جا کر معذرت کر لی جسے الحاکم بامراللہ نے قبول کرکے انہیں کوئی منصب عطا کر دیا، مگر ابن الہیثم نے الحاکم بامراللہ کی ان سے رضا مندی کو ایک ظاہری رضا مندی سمجھی اور انہیں یہ ڈر لاحق ہوگیا کہ کہیں یہ الحاکم بامراللہ کی کوئی چال نہ ہو، چنانچہ انہوں نے پاگل پن کا مظاہرہ شروع کردیا اور الحاکم بامر اللہ کی موت تک یہ مظاہرہ جاری رکھا اور اس کے بعد اس سے باز آ گئے اور اپنے گھر سے نکل کر جامعہ ازہر کے پاس ایک کمرے میں رہائش اختیار کر لی اور اپنی باقی زندگی کو تحقیق وتصنیف کے لیے وقف کردیا۔
ابن ابی اصیبعہ “عیون الانباء فی طبقات الاطباء” میں کہتے ہیں: “ابن الہیثم فاضل النفس، سمجھدار اور علوم کے فن کار تھے، ریاضی میں ان کے زمانے کا کوئی بھی سائنسدان ان کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتا تھا، وہ ہمیشہ کام میں لگے رہتے تھے، وہ نہ صرف کثیر التصنیف تھے بلکہ زاہد بھی تھے”.
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ قدیم یونان اور یورپ میں نشاط ثانیہ کے درمیان میں کوئی بڑی سائنسی پیش رفت نہیں ہوئی۔ لیکن صرف اس لیے کہ مغربی یورپ تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا اس کا مطلب یہ نہیں کہ دنیا میں دوسری جگہوں پر بھی کوئی کام نہیں ہو رہا تھا۔ نویں اور تیرہویں صدی کے درمیان کا عرصہ عرب سائنسدانوں کا سنہرا دور تھا۔ ریاضی، فلکیات، طب، طبعیات، کیمیا اور فلسفے کے میدان میں بہت کام کیا گیا۔ اس دور کے بڑے ناموں میں ابن الہیثم کا نام شاید سب سے روشن ہے۔
ابن الہیثم کو جدید سائنسی ضابطۂ عمل کا بانی کہا جاتا ہے۔ یہ وہ طریقۂ کار ہے جس کو سائنسدان معلومات کے حصول، معلومات کی درستگی، الگ الگ معلومات کو ملا کر نتیجہ اخذ کرنے اورمشاہدے کی حقیقت تک پہنچنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ وہ طریقہ ہے جس سے سائنسدان اپنا کام کرتے ہیں اور یہی میرے سائنس پر اعتماد کی وجہ ہے۔
ان کی کتاب “کتاب المناظر” بصریات کی دنیا میں ایک کلیدی حیثیت رکھتی ہے، کیونکہ ابن الہیثم نے بطلیموس کے نظریات قبول نہیں کیے، بلکہ انہوں نے بطلیموس کے روشنی کے حوالے سے بہت سارے نظریات کی مخالفت کی اور انہیں رد کردیا، ان کی روشنی کے حوالے سے دریافتیں جدید سائنس کی بنیاد بنیں، مثال کے طور پر بطلیموس کا نظریہ تھا کہ دیکھنا تب ہی ممکن ہوتا ہے جب شعاع آنکھ سے کسی جسم سے ٹکراتی ہے، بعد کے سائنسدانوں نے اس نظریہ کو من وعن قبول کیا، مگر ابن الہیثم نے کتاب المناظر میں اس نظریہ کی دھجیاں بکھیر دیں.. انہوں نے ثابت کیا کہ معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے اور شعاع آنکھ سے نہیں بلکہ کسی جسم سے دیکھنے والے کی آنکھ سے ٹکراتی ہے.
ابن الہیثم نے روشنی کا انعکاس اور روشنی کا انعطاف یعنی مڑنا دریافت کیا، انہوں نے نظر کی خامیوں کو دور کرنے کے لیے عدسوں کا استعمال کیا.. ان کی سب سے اہم دریافتوں میں آنکھ کی مکمل تشریح بھی ہے. انہوں نے آنکھ کے ہر حصہ کے کام کو پوری تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے جس میں آج کی جدید سائنس بھی رتی برابر تبدیلی نہیں کرسکی.
ابن الہیثم نے آنکھ کا ایک دھوکا یا وہم بھی دریافت کیا جس میں مخصوص حالات میں نزدیک کی چیز دور اور دور کی چیز نزدیک نظر آتی ہے.
فہرست کتب
جیسا کہ ابن ابی اصیبعہ نے کہا وہ واقعی کثیر التصنیف تھے، سائنس کے مختلف شعبوں میں ان کی 237 تصنیفات شمار کی گئی ہیں جن میں کچھ یہ ہیں:
کتاب المناظر کتاب الجامع فی اصول الحساب کتاب فی حساب المعاملات کتاب شرح اصول اقلیدس فی الہندسہ والعدد کتب فی تحلیل المسائل الہندسیہ کتاب فی الاشکال الہلالیہ
مقالہ فی التحلیل والترکیب مقالہ فی الضوء مقالہ فی الکرہ المحرقہ مسألہ فی الحساب کتاب صورہ الکسوف سمت القبلہ بالحساب
مقالہ فی برکار الدوائر والعظام مقالہ فی المرایا المحرقہ بالقطوع کقالہ فی کیفیہ الظلال مسألہ فی الکرہ اختلاف مناظر القمر ارتفاعات الکواکب
مقالہ فی خواص المثلث من جہہ العمود مقالہ فی المرایا المحرقہ بالدوائر مقالہ فی الحساب الہندی کتاب فی الہالہ وقوس قزح رؤیہ الکواکب ومنظر القمر کتاب فی ہیئہ العالم