Statistics |
|
|
ٹوٹل آن لائن 3 مہمان 3 صارف 0 | |
|
1:07 AM احادیثِ رسول محمد صلی اللہ علیہ ولہ وسلم |
سیدنا ابو ہریرہ (ر) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (ص) کے گرد بیٹھے تھے اور ہمارے ساتھ اور آدمیوں میں سیدنا ابوبکر (ر) اور سیدنا عمر (ر) بھی تھے۔ اتنے میں رسول اللہ (ص) اٹھے (اور باہر تشریف لے گئے) پھر آپ نے ہمارے پاس آنے میں دیر لگائی تو ہم کو ڈر ہوا کہ کہیں دشمن آپ کو اکیلا پا کر مار نہ ڈالیں۔ ہم گھبرا گئے اور اٹھ کھڑے ہوئے۔ سب سے پہلے میں گھبرایا تو میں آپ کو ڈھونڈھنے کیلئے نکلا اور بنی نجار کے باغ کے پاس پہنچا۔ (بنی نجار انصار کے قبیلوں میں سے ایک قبیلہ تھا) اس کے چاروں طرف دروازہ کو دیکھتا ہوا پھرا کہ دروازہ پاؤں تو اندر جاؤں (کیونکہ گمان ہوا کہ شاید رسول اللہ (ص) اس کے اندر تشریف لے گئے ہوں) دروازہ ملا ہی نہیں۔ (شاید اس باغ میں دروازہ ہی نہ ہوگا یا اگر ہو گا تو سیدنا ابو ہریرہ (ر) کو گھبراہٹ میں نظر نہ آیا ہو گا) دیکھا کہ باہر کنوئیں میں سے ایک نالی باغ کے اندر جاتی ہے، میں لومڑی کی طرح سمٹ کر اس نالی کے اندر گھسا اور رسول اللہ (ص) کے پاس پہنچا۔ آپ (ص) نے فرمایا کہ کیا ابوہریرہ ہے؟ میں نے عرض کیا جی یارسول اللہ]! آپ (ص) نے فرمایا کہ کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا کہ یارسو ل اللہ (ص)! آپ ہم لوگوں میں تشریف رکھتے تھے۔ پھر آپ (ص) باہر چلے آئے اور واپس آنے میں دیر لگائی تو ہمیں ڈر ہوا کہ کہیں دشمن آپ کو ہم سے جدا دیکھ کر نہ ستائیں، ہم گھبرا گئے اور سب سے پہلے میں گھبرا کر اٹھا اور اس باغ کے پاس آیا (دروازہ نہ ملا) تو اس طرح سمٹ کر گھس آیا جیسے لومڑی اپنے بدن کو سمیٹ کر گھس جاتی ہے اور سب لوگ میرے پیچھے آئے ہیں۔ آپ (ص) نے فرمایا کہ اے ابو ہریرہ! اور مجھے اپنے جوتے (نشانی کیلئے )دئیے (تاکہ لوگ میری بات کو سچ سمجھیں) اور فرمایا کہ میری یہ دونوں جوتیاں لے جا اور جو کوئی تجھے اس باغ کے پیچھے ملے اور وہ اس بات کی گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور اس بات پر دل سے یقین رکھتا ہو تو اس کو یہ سنا کر خوش کر دے کہ اس کیلئے جنت ہے۔ (سیدنا ابو ہریرہ (ر) کہتے ہیں کہ میں جوتیاں لے کر چلا) تو سب سے پہلے میں سیدنا عمر (ر) سے ملا۔ انہوں نے پوچھا کہ اے ابو ھریرہ یہ جوتیاں کیسی ہیں؟ میں نے کہا کہ رسول اللہ (ص) کی جوتیاں ہیں۔ آپ (ص) نے یہ دے کر مجھے بھیجا ہے کہ میں جس سے ملوں اور وہ لا الٰہ الا اللہ کی گواہی دیتا ہو، دل سے یقین کر کے، تو اس کو جنت کی خوشخبری دوں۔ یہ سن کر سیدنا عمر (ر) نے ایک ہاتھ میری چھاتی کے بیچ میں مارا تو میں سرین کے بل گرا۔ پھر کہا کہ اے ابوہریرہ! لوٹ جا۔ میں رسول اللہ (ص) کے پاس لوٹ کر چلا گیا اور رونے والا ہی تھا کہ میرے ساتھ پیچھے سے سیدنا عمر (ر) بھی آ پہنچے۔ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ اے ابوہریرہ! تجھے کیا ہوا؟ میں نے کہا کہ میں عمر (ر) سے ملا اور جو پیغام آپ (ص) نے مجھے دیکر بھیجا تھا پہنچایا تو انہوں نے میری چھاتی کے بیچ میں ایسا مارا کہ میں سرین کے بل گر پڑا اور کہا کہ لوٹ جا۔ رسول اللہ (ص) نے سیدنا عمر (ر) سے کہا کہ تو نے ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے عرض کیا کہ یارسو ل اللہ]! آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔ ابو ہریرہ کو آپ نے اپنی جوتیاں دیکربھیجا تھا کہ جو شخص ملے اور وہ گواہی دیتا ہو لا الٰہ الا اللہ کی دل سے یقین رکھ کر تو اسے جنت کی خوشخبری دو؟ رسول اللہ (ص) نے فرمایا ہاں۔ سیدنا عمر (ر) نے کہا کہ (آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں) ایسا نہ کیجئے کیونکہ میں ڈرتا ہوں کہ لوگ اس پر تکیہ کر بیٹھیں گے، ان کو عمل کرنے دیجئے۔ رسول اللہ (ص) نے فرمایا اچھا ان کو عمل کرنے دو۔
|
Views: 538 |
Added by: loveless
| Rating: 0.0/0 |
|
|
Calendar |
|
| « جنوری 2012 » | Su | Mo | Tu | We | Th | Fr | Sa | 1 | 2 | 3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 | 9 | 10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 | 16 | 17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 | 23 | 24 | 25 | 26 | 27 | 28 | 29 | 30 | 31 |
| |
|