چوہوں پر کی جانے والی تازہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ نیند پوری نہ ہونے کے باعث یادداشت کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔
نیشنل اکیڈمی آف سائنس فائنڈنگز کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات سے حافظہ کے بارے میں مزید معلومات اکٹھی کی جا سکتی ہیں جس سے الزائمرز (نسیان) اور نیند میں دم گھٹنے سے آنکھ کھلنے جیسی بیماریوں کا علاج نکالا جا سکتا ہے۔
امریکی یونیورسٹی سٹین فورڈ کی تحقیق کے مطابق ایسے چوہوں کو جن کی نیند پوری نہیں ہوئی تھی انہیں جانی پہچانی ایشیاء کو بھی پہچاننے میں دشواری ہوئی۔
نیند ایک برطانوی کے ماہر کا کہنا ہے کہ دماغ گہری نیند کے دوران دن بھر کے واقعات کا جائزہ لیتا ہے اور یہ طے کرتا ہے کہ ان سب واقعات میں سے حافظہ میں کیا محفوظ کرنا ہے۔
چوہوں پر کی جانے والی آپٹو جینٹکس نامی تکنیک میں صرف نیند پوری نہ ہونے کا جائزہ لیا گیا تھا۔
اس ترکیب سے نیند میں ہی چوہوں کے دماغ میں روشنی کا کرنٹ دے کر ان پر تحقیق کی گئی۔ چوہوں کی نیند متاثر کرنے کے بعد انھیں ڈبوں میں بند کیا گیا جن میں دو چیزیں موجود تھیں۔ ایک جن سے چوہے واقف تھے اور دوسری جن سے وہ ناواقف تھے۔
جن چوہوں کی نیند متاثر کی گئی تھی انھوں نے دوسرے چوہوں کی نسبت دونوں چیزوں کے جائزے میں دیر لگائی جبکہ جن چوہوں کی نیند متاثر نہیں کی گئی تھی ان چوہوں نے صرف ان ہی اشیاء کا جائزہ لیا جن سے وہ ناواقف تھے۔
ڈاکٹر لوئی ڈی لیکا کے بقول ’بھرپور نیند کی کمی کئی پیچیدگیوں کی وجہ بن سکتی ہے جن میں یادداشت سے منسلک بیماریاں جیسے الزائمرز وغیرہ شامل ہیں۔‘
محققین کا کہنا تھا ’اس تحقیق سے ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر اس بات کو مدنظر نہ بھی رکھا جائے کہ نیند کا معیار کیسا اور دورانیہ کتنا ہونا چاہیے پھر بھی ہمارے مطابق بھرپور نیند کا لازمی دورانیہ حافظہ کو مستحکم رکھنے کے لیے ضروری ہے۔