میں باغی ہوں
اس دور کے رسم و رواجوں سے ان تختوں سے ، ان تاجوں سے جو ظلم کی کوکھ سے جنتے ہیں انسانی خون سے پلتے ہیں جو نفرت کی بنیادیں ہیں ...اور خونی کھیت کی کھاتے ہیں میں باغی ہوں ۔ ۔ میں باغی ہوں جو چاہے مجھ ...پر ظلم کرو جن کے ہونٹ کی جنبش سے وہ جن کی آنکھ کی لرزش سے قانون بدلتے رہتے ہیں اور مجرم پلتے رہتے ہیں۔ ۔ ۔ اُن چوروں کے سرداروں سے انصاف کے پہرے داروں سے میں باغی ہوں ۔ ۔ میں باغی ہوں جو قوم کے غم میں روتے ہیں اور قوم کی دولت دھوتے ہیں وہ محلوں میں جو رہتے ہیں اور بات غریب کی کہتے ہیں اُن دھوکے باز لٹیروں سے سرداروں اور وڈیروں سے میں باغی ہوں ۔ ۔ میں باغی ہوں جو عورت کو نچواتے ہیں بازار کی جنس بناتے ہیں پھر اس کی عصمت کےغم میں تحریکیں بھی چلواتے ہیں اُن ظالم اور بدکاروں سے بازار کے اُن معماروں سے میں باغی ہوں ۔ ۔ میں باغی ہوں جو مسلک کے بیوپاری ہے وہ سب سے بڑی بیماری ہے وہ جن کے سوا سب کافر ہے جو دین کا حرف آخر ہے اُن جھوٹے اور مکاروں سے مزہب کے ٹھیکیداروں سے میں باغی ہوں ۔ ۔ میں باغی ہوں جہاں سانسوں پر تعذیریں ہیں جہاں بگڑی ہوئی تقدیریں ہیں ذاتوں کے گورکھ دھندے ہیں جہاں نفرت کے یہ پھندے ہیں سوچوں کی ایسی پستی سے اس ظلم کی گندی بستی سے میں باغی ہوں ۔ ۔ میں باغی ہوں جو چاہے مجھ پر ظلم کرو ۔ ۔ ۔ ۔ میرے ہاتھ میں حق کا جھنڈا ہے میرے سر پر ظلم کا پھندا ہے میں مرنے سے کب ڈرتا ہوں میں موت کی خاطر زندہ ہوں میرے خون کا سورج چمکے گا تو بچہ بچہ بولے گا میں باغی ہوں ۔ ۔ میں باغی ہوں میں باغی ہوں ۔ ۔ میں باغی ہوں