مسنون نماز کی چالیس حدیثیں
1
وضو کا طریقہ
وَعَنْ عُثْمَانَ اَنَّہُ تَوَضَّأَ بِالْمَقَاعِدِ فَقَالَ اَلَا اُرِےْکُمْ وُضُوْءَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَتَوَضَّأَ ثَلٰثًا ثَلٰثًا۔
صحیح مسلم ، فصل الوضو
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کیا تمہیں وضو کا مسنون طریقہ نہ بتاؤں ۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے وضو کیا اور تین تین دفعہ اعضاء کو دھویا۔
2
گردن پر مسح کرنا
عن ابن عمر ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال من توضا ومسح یدیہ علٰی عنقیہ وقی العل یوم القیامۃ
تلخیص الحبیر ،ج1، ص93
حجرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ جس نے وضو کے دوران ہاتھوں سے گردن کا مسح کیا وہ قیامت کے دن گردن میں بیڑیاں پہنائے جانے سے بچ گیا ۔
""شارح صحیح بخاری علامہ ابن حضر رحمہ اللہ نے "تلخیص الحبیر " میںاس حدیث کو صحیح کہا ھے ، علامہ شوکانی نے "نیل الاوطار" میں بھی ایسا ہی لکھا ھے ۔""
جرابوں پر مسح کرنا
وضو کے دوران جرابوں پر مسح کرنا جائز نہیں، چونکہ ایسا کرنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ، علامہ مبارک پوری رحمہ اللہ نے تحفۃ الاحوذی شرح ترمزی ج1،ص233 میں اور میاں نزیر حسین دہلوی رحمہ اللہ نے فتاوٰی نزیریہ ج1،ص327 اور مولانا اشرف الدین نے فتاوٰی ثنائیہ ج1،ص423 میں لکھا ھے کہ جرابوں پر مسح کرنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ھے ۔
3
اوقات نماز
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ صل الظھر اذا کان ظلک مثلک والعصر اذا کان ظلک مثلک و المغرب اذا غربت الشمس والعشاء ما بینک و بین ثلث اللیل وصل الصبح ۔۔۔۔۔ یعنی الفلس ۔
موطاء امام مالک،ج1 ص8
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ھے کہ تیرا سایہ برابر ھوجائے تو ظہر کی نماز ادا کرو اور جب یہ سایہ دوگنا ھوجائے تو عصر کی نماز ادا کرو اور آفتاب غروب ھونے پر مٍرب کی نماز پڑھ جب کہ عشاء کا وقت رات کے تہائی حصہ تک اور فجر کی نماز اندھیرے میں ادا کر ۔
4
ظہر کا مسنون وقت
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا اشتد الحر فابردو الصلوٰۃ فان شدۃ الحر من فیح جھنم ۔
صحیح مسلم ،استحباب الابراد
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ھے کہ جب گرمی زیادہ ھوتو
ظھر کی نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو چونکہ گرمی شدت جہنم کا اثر ھے ۔
5
عصر کا مسنون وقت
کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوخر العصر مادامت الشمس بیضاء نقیۃً
ابوداؤد ،وقت العصر
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول مبارک تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز کو دیر سے پڑھتے تا آنکہ سورج صاف اور سفید ھوتا۔
6
فجر کا مسنون وقت
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ هُوَ ابْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ أَسْفِرُوا بِالْفَجْرِ فَإِنَّهُ أَعْظَمُ لِلْأَجْرِ قَالَ وَقَدْ رَوَی شُعْبَةُ وَالثَّوْرِيُّ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ قَالَ وَرَوَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ أَيْضًا عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ وَجَابِرٍ وَبِلَالٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَأَی غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ الْإِسْفَارَ بِصَلَاةِ الْفَجْرِ وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ و قَالَ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ مَعْنَی الْإِسْفَارِ أَنْ يَضِحَ الْفَجْرُ فَلَا يُشَکَّ فِيهِ وَلَمْ يَرَوْا أَنَّ مَعْنَی الْإِسْفَارِ تَأْخِيرُ الصَّلَاةِ
ترمزی ،
ہناد، عبدہ، محمد بن اسحاق، عاصم بن عمر بن قتادہ، محمود بن لبید، رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ "" فجر کی نماز روشنی میں پڑھو کیونکہ اس میں زیادہ ثواب ہے "" اس باب میں ابوبرزہ جابر بلال سے بھی روایات مذکور ہیں اور روایت کیا ہے اس حدیث کو شعبہ اور ثوری نے محمد بن اسحاق اور محمد بن عجلان نے بھی اس حدیث کو عاصم بن عمر بن قتادہ سے روایت کیا ہے امام ابوعیسی ترمذی فرماتے ہیں رافع خدیج کی حدیث حسن صحیح ہے اکثر اہل علم صحابہ و تابعین میں سے کہتے ہیں کہ فجر کی نماز روشنی میں پڑھی جائے اور یہی قول ہے سفیان ثوری کا امام شافعی اور امام احمد فرماتے ہیں کہ اسفار کا معنی یہ ہے کہ فجر واضح ہو جائے اور اس میں شک نہ رہے اس میں اسفار کے معنی یہ نہیں ہے کہ دیر سے نماز پڑھی جائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ھے کہ فجر کی نماز اسفاء میں پڑھو (جب روشنی ھونے لگے) چونکہ اس کا ثواب بہت زیادہ ھے ۔
7
اقامت کے مسنون کلمات
ان بلالاً کان یثنی الاذان و یثنی الاقامۃ
اسناد صحیح مصنف عبدالرزاق
مؤذن رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان و اقامت دوہری دوہری کہا کرتے تھے ۔
مؤذن رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابومحزورہ رضی اللہ عنہ، حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ اور حضرت سلمہ رضی اللہ عنہ کا معمول بھی یہی تھا ۔ علامہ شوکانی رضمہ اللہ نے نیل الاوطار ،ج1،ص24 میں اسی کو ترجیح دی ھے ۔
8
سر ڈھانپنا
کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یکثر القناع
شمائل ترمزی
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر اوقات اپنے سر مبارک پر کپڑا رکھتے تھے۔
فتاوٰی ثنائیہ ،ج1،ص525 میں لکھا ھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ سر ڈھانپ کر نماز پڑھتے تھے ۔ نیز مولانا اشرف الدین ،ج1،ص523 پر لکھتے ہیں کہ قصداً ٹوپی اتار کر ننگے سر نماز پڑھنا اور اسکو اپنا مسلکی شعار بنانا خلاف سنت ھے ۔
9
کانوں تک ہاتھ اٹھانا
عن قتادۃ انہ رائ النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال حتٰی یحاذی بھما فروع اذنیہ۔
صحیح مسلم،استجاب رفع
حضرت قتادۃ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ھوئے دیکھا ، وہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر کہہ کر ہاتھوں کو کانوں کی لوتک اٹھایا ۔
10
ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا
عن علی رضی اللہ عنہ السنۃ وضع الکف علی الکف فی الصلوٰۃ تحت السرۃ
ابوداؤد
چوٹھے خلیفہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری سنت یہ ھے کہ نماز میں ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر رکھ کر ناف کے نیچے باندھا جائے ۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے بھی یہی منقول ھے۔
11
ثنا
یقول عمر رضی اللہ عنہ ، سبحانک اللھم وبحمدک و تبارک اسمک وتعالٰی جدک ولا الہ غیرک ۔
صحیح مسلم
دوسرے خلیفہ راشد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نماز میں یہ ثنا پڑھتے تھے ،
سبحانک اللھم وبحمدک و تبارک اسمک وتعالٰی جدک ولا الہ غیرک ۔
12
بسم اللہ آہستہ پڑھنا
عن انس رضی اللہ عنہ قال صلیت مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و ابی بکر و عمر و عثمان (رضوان اللہ علیہم اجمٰعین) فلم اسمع احدًا منھم یقراء بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔
صحیح مسلم
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ،خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ، خلیفہ سوم حضرت عثمان غنی رضٰ اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی لیکن کسی ایک کو بھی بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھتے ھوئے نہیں سنا۔
امام ترمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جمہور اصحاب کرام رضی اللہ عنہم بھی تسمیہ آہستہ پڑھتے تھے ۔
علامہ ابن قیّم زاد المعاد میں فرماتے ہیں کسی صحیح صریح حدیث سے اونچی آواز سے تسمیہ پڑھنا ثابت نہیں ھے ۔
13
مقتدی سنے اور خاموش رہے
وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُواْ لَهُ وَأَنصِتُواْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ
سورۃ اعراف آیت 204
ارشاد ربانی ھے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو غور سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ ، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں کہ یہ آیت نماز اور خطبہ کے بارے میں نازل ھوئی۔
تفسیر ابن کثیر ج1،ص281
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا صلیتم فاقیمو صفو فکم ثم لیسومکم احدکم فاذا کبر فکبر واذا قرء فانصیتوا واذا قرء غیر المغضوب علیہم ولا الضالین فقولوا آمین یحبکم اللہ۔
روایت جریر عن قتادۃ
صحیح مسلم ، التشہد فی الصلاۃ
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ھے کہ جب تم نماز پڑھنے لگو تو صفوں کو سیدھا کرلیا کرو ، پھر تم میں سے کوئی ایک امامت کرائے، جب امام تکبیر کئے تو تم بھی تکبیر کہو ، جب وہ قرآن پڑھنے لگے تو تم خاموش ہوجاؤ اور جب وہ غیر المغضوب علیہم ولا الضالین کہہ لے تو تم آمین کہو۔ اسطرح کرنے سے اللہ تم سے محبت رکھے گا۔
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی یہ الفاظ منقول ہیں ، امام مسلم نے اس روایت کوبھی صحیح کہا ھے
14
مقتدی سورۃ فاتحہ نہ پڑھے
عن عطاء ابن یسار سال زید بن ثابت عن القراء مع الامام فقال لا قراۃء مع الامام فی شئی ء
صحیح مسلم ، سجود والتلاوۃ
حضرت عطاء بن یسار نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے امام کے ساتھ پڑھنے کی بابت پوچھا تو آپ رضٰ اللہ عنہ نے فرمایا کہ کسی بھی نماز میں امام کے ساتھ ساتھ قرآن نہ پڑھے۔
15
امام کی قراءت مقتدی کے لئے کافی ھے
کان یقول عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ، من صلی وراء الامام کفاہ قراۃ الامام ۔
صحیح البیہقی، سنن بیہقی، من قال لایقراء
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے تھے کہ جوشخص امام کی اقتداء میں نماز پڑھے اس کے لئے امام کی قراءت کافی ھے ۔
(امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح کہا ھے)
16
تنہا نمازی فاتحہ پڑھے مقتدی نہیں
کان ابن عمر رضی اللہ عنہ اذا سئل ھل یقرء خلف الامام ? قال اذا صلی احد کم خلف الامام فحسبہ قراءۃ الامام واذا صلی وحدہ فلیقرء وکان عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ لا یقرء خلف الامام ۔
مؤطا امام مالک، ترک القراءۃ
جب حجرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا جاتا کہ امام کے پیچھے مقتدی بھی پڑھے ? تو آپ رضی اللہ عنہ جواب دیتے کہ مقتدی کے لئے امام کی قراءت کافی ھے ۔ البتہ جب وہ اکیلا نماز پڑھے تو قراءت کرے۔ خود حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بھی امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھتے تھے ۔
(آثار السنن میں ھے کہ یہ حدیث صحیح ھے )
17
عن جابر رضی اللہ عنہ یقول من صلی رکعتہ لم یقرء فیھا بام القران فلم یصل الا ان یکون وراء الامام ۔
حسن صحیح
ترمزی شریف، ترک القراءۃ
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس نے ایک رکعت میں بھی سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز نہیں ھوئی ، علاوہ اسکے کہ وہ امام کے پیچھے ھو تو سورۃ فاتحہ نہ پڑھے ۔
یہ حدیث حسن صحیح ھے
اسی حدیث کی بناء پر امام ترمزی رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ کے دادا استاد امام احمد رحمہ اللہ سے نقل کیا ھے کہ " لاصلاۃ لمن لم یقرء بفاتحۃ الکتاب " والی حدیث تنہا نمازی کے بارے میں ھے جو مقتدی کو شامل نہیں۔
ترمزی شریف
مندرجہ بالا احادیث میں بڑی صراحت کے ساتھ باجماعت نماز میں مقتدی کو سورۃ فاتحہ پڑھنے سے روکا گیا ھے ، لیکن کوئی صحیح مرفوع حدیث ایسی نہیں جس میں صراحتاً باجماعت نماز میں مقتدی کو سورۃ فاتحہ پڑھنے کا حکم دیا گیا ھو۔
18
آمین آہستہ کہے
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا تبادروا الامام اذا کبر فکبروا واذا قال ولاالضالین فقولوا آمین واذا رکع فارکعوا واذا قال سمع اللہ لمن حمدہ فقولوا اللھم ربنا لک الحمد ۔
صحیح مسلم ،
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ھے کہ امام سے جلدی نہ کرو ، جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو اور جب وہ ولاالضالین کہے تو تم آمین کہو اور جب وہ رکوع کرے تو تم رکوع کرو اور جب سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم اللھم ربنا لک الحمد کہو ۔
مسئلہ آمین میں یہ حدیث بڑی واضح ھے کہ جس طرح امام اللہ اکبر اور سمع اللہ لمن حمدہ اونچی کہتا ھے لیکن سب مقتدی اللہ اکبر اور اللھم ربنا لک الحمد آہستہ کہتے ہیں ۔ اسی طرح جب امام ولاالضالین بلند آواز سے پڑھے تو مقتدی کو آہستہ آمین کہنی چاھئے۔
19
نماز میں رفع یدین
عن جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ قال خرج علینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال مالی ازاکم رافعی ایسیکم کانھا اذناب خیل شمس، اسکنوا فی الصلاۃ ۔
صحیح مسلم ، الامر بالسکون
حضرت جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ کیا ھوا کہ میں تمہیں رفع یدین کرتے ھوئے دیکھ رہا ھوں ۔ گویا وہ شریر گھوڑوں کی دمیں ہیں ، نماز میں سکون اختیار کرو ۔
اس حدیث سے یہ بات واضح ھوگئی کہ جن احادیث میں رفع یدین کرنے کا زکر ھے وہ اس ممانعت سے پہلے کی ہیں ، لہٰزا اس ممانعت کے بعد اب ان سابقہ روایات کو دلیل نہیں بنایا جاسکتا ۔ اسی لئے کسی صحیح حدیث میں یہ صراحت نہیں کہ آخر تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل رفع یدین کرنے کا تھا ۔
20
نبوی نماز
قال عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ الا اصلی بکم صلوٰۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فصلٰی فلم یرفع یدیہ الا فی اول مرۃ
حسن صححہ ابن حزم ترمزی شریف ، ماجاء فی رفع
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا طریقہ نہ بتاؤں ? پھر آپ رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھ کر دکھائی اور صرف شروع میں رفع یدین کیا ۔
(یہ حدیث حسن ھے ، ابن حزم نے صحیح کہا ھے ، احمد شاکر رحمہ اللہ نے بھی صحیح کہا ھے )
1
وضو کا طریقہ
وَعَنْ عُثْمَانَ اَنَّہُ تَوَضَّأَ بِالْمَقَاعِدِ فَقَالَ اَلَا اُرِےْکُمْ وُضُوْءَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَتَوَضَّأَ ثَلٰثًا ثَلٰثًا۔
صحیح مسلم ، فصل الوضو
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کیا تمہیں وضو کا مسنون طریقہ نہ بتاؤں ۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے وضو کیا اور تین تین دفعہ اعضاء کو دھویا۔
2
گردن پر مسح کرنا
عن ابن عمر ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال من توضا ومسح یدیہ علٰی عنقیہ وقی العل یوم القیامۃ
تلخیص الحبیر ،ج1، ص93
حجرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ جس نے وضو کے دوران ہاتھوں سے گردن کا مسح کیا وہ قیامت کے دن گردن میں بیڑیاں پہنائے جانے سے بچ گیا ۔
""شارح صحیح بخاری علامہ ابن حضر رحمہ اللہ نے "تلخیص الحبیر " میںاس حدیث کو صحیح کہا ھے ، علامہ شوکانی نے "نیل الاوطار" میں بھی ایسا ہی لکھا ھے ۔""
جرابوں پر مسح کرنا
وضو کے دوران جرابوں پر مسح کرنا جائز نہیں، چونکہ ایسا کرنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ، علامہ مبارک پوری رحمہ اللہ نے تحفۃ الاحوذی شرح ترمزی ج1،ص233 میں اور میاں نزیر حسین دہلوی رحمہ اللہ نے فتاوٰی نزیریہ ج1،ص327 اور مولانا اشرف الدین نے فتاوٰی ثنائیہ ج1،ص423 میں لکھا ھے کہ جرابوں پر مسح کرنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ھے ۔
3
اوقات نماز
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ صل الظھر اذا کان ظلک مثلک والعصر اذا کان ظلک مثلک و المغرب اذا غربت الشمس والعشاء ما بینک و بین ثلث اللیل وصل الصبح ۔۔۔۔۔ یعنی الفلس ۔
موطاء امام مالک،ج1 ص8
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ھے کہ تیرا سایہ برابر ھوجائے تو ظہر کی نماز ادا کرو اور جب یہ سایہ دوگنا ھوجائے تو عصر کی نماز ادا کرو اور آفتاب غروب ھونے پر مٍرب کی نماز پڑھ جب کہ عشاء کا وقت رات کے تہائی حصہ تک اور فجر کی نماز اندھیرے میں ادا کر ۔
4
ظہر کا مسنون وقت
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا اشتد الحر فابردو الصلوٰۃ فان شدۃ الحر من فیح جھنم ۔
صحیح مسلم ،استحباب الابراد
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ھے کہ جب گرمی زیادہ ھوتو
ظھر کی نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو چونکہ گرمی شدت جہنم کا اثر ھے ۔
5
عصر کا مسنون وقت
کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوخر العصر مادامت الشمس بیضاء نقیۃً
ابوداؤد ،وقت العصر
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول مبارک تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز کو دیر سے پڑھتے تا آنکہ سورج صاف اور سفید ھوتا۔
6
فجر کا مسنون وقت
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ هُوَ ابْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ أَسْفِرُوا بِالْفَجْرِ فَإِنَّهُ أَعْظَمُ لِلْأَجْرِ قَالَ وَقَدْ رَوَی شُعْبَةُ وَالثَّوْرِيُّ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ قَالَ وَرَوَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ أَيْضًا عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ وَجَابِرٍ وَبِلَالٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَأَی غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ الْإِسْفَارَ بِصَلَاةِ الْفَجْرِ وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ و قَالَ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ مَعْنَی الْإِسْفَارِ أَنْ يَضِحَ الْفَجْرُ فَلَا يُشَکَّ فِيهِ وَلَمْ يَرَوْا أَنَّ مَعْنَی الْإِسْفَارِ تَأْخِيرُ الصَّلَاةِ
ترمزی ،
ہناد، عبدہ، محمد بن اسحاق، عاصم بن عمر بن قتادہ، محمود بن لبید، رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ "" فجر کی نماز روشنی میں پڑھو کیونکہ اس میں زیادہ ثواب ہے "" اس باب میں ابوبرزہ جابر بلال سے بھی روایات مذکور ہیں اور روایت کیا ہے اس حدیث کو شعبہ اور ثوری نے محمد بن اسحاق اور محمد بن عجلان نے بھی اس حدیث کو عاصم بن عمر بن قتادہ سے روایت کیا ہے امام ابوعیسی ترمذی فرماتے ہیں رافع خدیج کی حدیث حسن صحیح ہے اکثر اہل علم صحابہ و تابعین میں سے کہتے ہیں کہ فجر کی نماز روشنی میں پڑھی جائے اور یہی قول ہے سفیان ثوری کا امام شافعی اور امام احمد فرماتے ہیں کہ اسفار کا معنی یہ ہے کہ فجر واضح ہو جائے اور اس میں شک نہ رہے اس میں اسفار کے معنی یہ نہیں ہے کہ دیر سے نماز پڑھی جائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ھے کہ فجر کی نماز اسفاء میں پڑھو (جب روشنی ھونے لگے) چونکہ اس کا ثواب بہت زیادہ ھے ۔
7
اقامت کے مسنون کلمات
ان بلالاً کان یثنی الاذان و یثنی الاقامۃ
اسناد صحیح مصنف عبدالرزاق
مؤذن رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان و اقامت دوہری دوہری کہا کرتے تھے ۔
مؤذن رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابومحزورہ رضی اللہ عنہ، حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ اور حضرت سلمہ رضی اللہ عنہ کا معمول بھی یہی تھا ۔ علامہ شوکانی رضمہ اللہ نے نیل الاوطار ،ج1،ص24 میں اسی کو ترجیح دی ھے ۔
8
سر ڈھانپنا
کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یکثر القناع
شمائل ترمزی
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر اوقات اپنے سر مبارک پر کپڑا رکھتے تھے۔
فتاوٰی ثنائیہ ،ج1،ص525 میں لکھا ھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ سر ڈھانپ کر نماز پڑھتے تھے ۔ نیز مولانا اشرف الدین ،ج1،ص523 پر لکھتے ہیں کہ قصداً ٹوپی اتار کر ننگے سر نماز پڑھنا اور اسکو اپنا مسلکی شعار بنانا خلاف سنت ھے ۔
9
کانوں تک ہاتھ اٹھانا
عن قتادۃ انہ رائ النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال حتٰی یحاذی بھما فروع اذنیہ۔
صحیح مسلم،استجاب رفع
حضرت قتادۃ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ھوئے دیکھا ، وہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر کہہ کر ہاتھوں کو کانوں کی لوتک اٹھایا ۔
10
ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا
عن علی رضی اللہ عنہ السنۃ وضع الکف علی الکف فی الصلوٰۃ تحت السرۃ
ابوداؤد
چوٹھے خلیفہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری سنت یہ ھے کہ نماز میں ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر رکھ کر ناف کے نیچے باندھا جائے ۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے بھی یہی منقول ھے۔
11
ثنا
یقول عمر رضی اللہ عنہ ، سبحانک اللھم وبحمدک و تبارک اسمک وتعالٰی جدک ولا الہ غیرک ۔
صحیح مسلم
دوسرے خلیفہ راشد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نماز میں یہ ثنا پڑھتے تھے ،
سبحانک اللھم وبحمدک و تبارک اسمک وتعالٰی جدک ولا الہ غیرک ۔
12
بسم اللہ آہستہ پڑھنا
عن انس رضی اللہ عنہ قال صلیت مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و ابی بکر و عمر و عثمان (رضوان اللہ علیہم اجمٰعین) فلم اسمع احدًا منھم یقراء بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔
صحیح مسلم
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ،خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ، خلیفہ سوم حضرت عثمان غنی رضٰ اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی لیکن کسی ایک کو بھی بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھتے ھوئے نہیں سنا۔
امام ترمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جمہور اصحاب کرام رضی اللہ عنہم بھی تسمیہ آہستہ پڑھتے تھے ۔
علامہ ابن قیّم زاد المعاد میں فرماتے ہیں کسی صحیح صریح حدیث سے اونچی آواز سے تسمیہ پڑھنا ثابت نہیں ھے ۔
13
مقتدی سنے اور خاموش رہے
وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُواْ لَهُ وَأَنصِتُواْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ
سورۃ اعراف آیت 204
ارشاد ربانی ھے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو غور سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ ، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں کہ یہ آیت نماز اور خطبہ کے بارے میں نازل ھوئی۔
تفسیر ابن کثیر ج1،ص281
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا صلیتم فاقیمو صفو فکم ثم لیسومکم احدکم فاذا کبر فکبر واذا قرء فانصیتوا واذا قرء غیر المغضوب علیہم ولا الضالین فقولوا آمین یحبکم اللہ۔
روایت جریر عن قتادۃ
صحیح مسلم ، التشہد فی الصلاۃ
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ھے کہ جب تم نماز پڑھنے لگو تو صفوں کو سیدھا کرلیا کرو ، پھر تم میں سے کوئی ایک امامت کرائے، جب امام تکبیر کئے تو تم بھی تکبیر کہو ، جب وہ قرآن پڑھنے لگے تو تم خاموش ہوجاؤ اور جب وہ غیر المغضوب علیہم ولا الضالین کہہ لے تو تم آمین کہو۔ اسطرح کرنے سے اللہ تم سے محبت رکھے گا۔
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی یہ الفاظ منقول ہیں ، امام مسلم نے اس روایت کوبھی صحیح کہا ھے
14
مقتدی سورۃ فاتحہ نہ پڑھے
عن عطاء ابن یسار سال زید بن ثابت عن القراء مع الامام فقال لا قراۃء مع الامام فی شئی ء
صحیح مسلم ، سجود والتلاوۃ
حضرت عطاء بن یسار نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے امام کے ساتھ پڑھنے کی بابت پوچھا تو آپ رضٰ اللہ عنہ نے فرمایا کہ کسی بھی نماز میں امام کے ساتھ ساتھ قرآن نہ پڑھے۔
15
امام کی قراءت مقتدی کے لئے کافی ھے
کان یقول عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ، من صلی وراء الامام کفاہ قراۃ الامام ۔
صحیح البیہقی، سنن بیہقی، من قال لایقراء
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے تھے کہ جوشخص امام کی اقتداء میں نماز پڑھے اس کے لئے امام کی قراءت کافی ھے ۔
(امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح کہا ھے)
16
تنہا نمازی فاتحہ پڑھے مقتدی نہیں
کان ابن عمر رضی اللہ عنہ اذا سئل ھل یقرء خلف الامام ? قال اذا صلی احد کم خلف الامام فحسبہ قراءۃ الامام واذا صلی وحدہ فلیقرء وکان عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ لا یقرء خلف الامام ۔
مؤطا امام مالک، ترک القراءۃ
جب حجرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا جاتا کہ امام کے پیچھے مقتدی بھی پڑھے ? تو آپ رضی اللہ عنہ جواب دیتے کہ مقتدی کے لئے امام کی قراءت کافی ھے ۔ البتہ جب وہ اکیلا نماز پڑھے تو قراءت کرے۔ خود حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بھی امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھتے تھے ۔
(آثار السنن میں ھے کہ یہ حدیث صحیح ھے )
17
عن جابر رضی اللہ عنہ یقول من صلی رکعتہ لم یقرء فیھا بام القران فلم یصل الا ان یکون وراء الامام ۔
حسن صحیح
ترمزی شریف، ترک القراءۃ
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس نے ایک رکعت میں بھی سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز نہیں ھوئی ، علاوہ اسکے کہ وہ امام کے پیچھے ھو تو سورۃ فاتحہ نہ پڑھے ۔
یہ حدیث حسن صحیح ھے
اسی حدیث کی بناء پر امام ترمزی رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ کے دادا استاد امام احمد رحمہ اللہ سے نقل کیا ھے کہ " لاصلاۃ لمن لم یقرء بفاتحۃ الکتاب " والی حدیث تنہا نمازی کے بارے میں ھے جو مقتدی کو شامل نہیں۔
ترمزی شریف
مندرجہ بالا احادیث میں بڑی صراحت کے ساتھ باجماعت نماز میں مقتدی کو سورۃ فاتحہ پڑھنے سے روکا گیا ھے ، لیکن کوئی صحیح مرفوع حدیث ایسی نہیں جس میں صراحتاً باجماعت نماز میں مقتدی کو سورۃ فاتحہ پڑھنے کا حکم دیا گیا ھو۔
18
آمین آہستہ کہے
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا تبادروا الامام اذا کبر فکبروا واذا قال ولاالضالین فقولوا آمین واذا رکع فارکعوا واذا قال سمع اللہ لمن حمدہ فقولوا اللھم ربنا لک الحمد ۔
صحیح مسلم ،
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ھے کہ امام سے جلدی نہ کرو ، جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو اور جب وہ ولاالضالین کہے تو تم آمین کہو اور جب وہ رکوع کرے تو تم رکوع کرو اور جب سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم اللھم ربنا لک الحمد کہو ۔
مسئلہ آمین میں یہ حدیث بڑی واضح ھے کہ جس طرح امام اللہ اکبر اور سمع اللہ لمن حمدہ اونچی کہتا ھے لیکن سب مقتدی اللہ اکبر اور اللھم ربنا لک الحمد آہستہ کہتے ہیں ۔ اسی طرح جب امام ولاالضالین بلند آواز سے پڑھے تو مقتدی کو آہستہ آمین کہنی چاھئے۔
19
نماز میں رفع یدین
عن جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ قال خرج علینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال مالی ازاکم رافعی ایسیکم کانھا اذناب خیل شمس، اسکنوا فی الصلاۃ ۔
صحیح مسلم ، الامر بالسکون
حضرت جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ کیا ھوا کہ میں تمہیں رفع یدین کرتے ھوئے دیکھ رہا ھوں ۔ گویا وہ شریر گھوڑوں کی دمیں ہیں ، نماز میں سکون اختیار کرو ۔
اس حدیث سے یہ بات واضح ھوگئی کہ جن احادیث میں رفع یدین کرنے کا زکر ھے وہ اس ممانعت سے پہلے کی ہیں ، لہٰزا اس ممانعت کے بعد اب ان سابقہ روایات کو دلیل نہیں بنایا جاسکتا ۔ اسی لئے کسی صحیح حدیث میں یہ صراحت نہیں کہ آخر تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل رفع یدین کرنے کا تھا ۔
20
نبوی نماز
قال عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ الا اصلی بکم صلوٰۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فصلٰی فلم یرفع یدیہ الا فی اول مرۃ
حسن صححہ ابن حزم ترمزی شریف ، ماجاء فی رفع
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا طریقہ نہ بتاؤں ? پھر آپ رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھ کر دکھائی اور صرف شروع میں رفع یدین کیا ۔
(یہ حدیث حسن ھے ، ابن حزم نے صحیح کہا ھے ، احمد شاکر رحمہ اللہ نے بھی صحیح کہا ھے )
21
عمل صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمٰعین
ان علیًا رضی اللہ عنہ کان یرفع یدیہ فی اول تکبیرۃ من الصلوٰۃ ثم لا یعود۔
سنن بیہقی ، من لم یزکر الرفع،،قال الزیلعی صحیح ، قال ابن حجر رواتہ ثقات قال العینی اسنادہ علی شرط المسلم ۔
چوتھے خلیفہ راشد حضرت علی رضی اللہ عنہ نماز کی پہلی تکبیر میں رفع یدین کرتے تھے بعد میں نہیں ۔
علامہ زیلعی رحمہ اللہ، شارح بخاری علامہ ابن حجر رحمہ اللہ اور شارح بخاری علامہ عینی رحمہ اللہ نے اس روایت اور اسکی سند کو صحیح کہا ھے۔
واضح رہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ و دیگر خلفاء راشدین اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور دیگر بہت سے صحابہ کا بھی یہی عمل تھا ۔ امام ترمزی رحمہ اللہ بھی فرماتے ہیں کہ بہت سے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمٰعین کا اس پر عمل ھے ۔
22
جلسئہ استراحت
عن ابن سہل الساعدی و فیہ ثم کبر فسجد ثم کبر فقام ولم یتورک ۔
ابوداؤد شریف ، من ذکر
حضرت سہل رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے کی روایت میں ھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر کہہ کر سجدہ کیا پھر تکبیر کہہ کر بیٹھے بغیر سیدھے کھڑے ھوگئے ۔
امام بیہقی رحمہ اللہ نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور علامہ زیلعی نے "نصب الرائیہ" ج1،ص289 میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، حجرت علی رضی اللہ عنہ ، حجرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ، حجرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے اور علامہ ترکمانی رحمہ اللہ نے جوہر النقی ،ج2، ص 125 میں بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم کا یہی معمول نقل کیا ھے کہ وہ تیسری اور پہلی رکعت میں سجدہ سے اٹھتے ھوئے بیٹھے بغیر سیدھے کھڑے ھوجاتے تھے ۔
23
التحیات
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا قعد احدکم فی الصلوٰۃ فلیقل : التحیات للہ والصلوات والطیبات السلام علیک ایھا النبی و رحمتہ اللہ وبرکاتہ، السلام علینا وعلٰی عباداللہ الصالحین۔ اشہد ان لا الہ الااللہ واشہد ان محمدًا عبدہ ورسولہ ۔ ثم یتخیر من المسالۃ ماشاء ۔
صحیح مسلم ، صحیح بخاری ، التشہد
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ھے کہ جب کوئی تم میں سے نماز میں بیٹھے تو یہ پڑھا کرے : التحیات للہ والصلوات والطیبات السلام علیک ایھا النبی و رحمتہ اللہ وبرکاتہ، السلام علینا وعلٰی عباداللہ الصالحین۔ اشہد ان لا الہ الااللہ واشہد ان محمدًا عبدہ ورسولہ ۔ پھر جو دعا مانگنا چاھے مانگے ۔
24۔۔۔
انگلی کا اشارہ
کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا قعدید عو وضع یدیہ الیمنی علٰی فخیذہ الیمنی و یدہ الیسرٰی علٰی فخذہ الیسرٰی واشار باصبعہ السبابۃ و وضع ابھامہ علٰی اصبعہ الوسطٰی ۔
((( صحیح مسلم:صفتہ الجلوس )))
جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دعاء کے لئے بیٹھتے تو دائیں ہاتھ کو دائیں ران پر اور بائیں ہاتھ کو بائیں ران پر رکھتے اور اپنی شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے اور انگوٹھے کو درمیانی انگلی سے ملالیتے ۔
25۔۔۔
درود شریف
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قولو : اللھم صل علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما صلیت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید اللھم بارک علٰی محمد و علٰی آل محمد کما بارکت علٰی ابراھیم و علٰی آل ابراھیم انک حمید مجید ۔
((( صحیح مسلم : الصلاۃ )))
جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ہم آپ پر کون سا درود شریف پڑھا کریں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ درود ابراھیمی تلقین فرمایا : اللھم صل علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما صلیت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید اللھم بارک علٰی محمد و علٰی آل محمد کما بارکت علٰی ابراھیم و علٰی آل ابراھیم انک حمید مجید ۔
26۔۔۔
ہاتھ اٹھا کر دعاء مانگنا
ان عبد اللہ بن الزبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ رائ رجلاً رافعاً یدیہ قبل ان یفرغ من صلاتہ فلما فرض منھا قال ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لم یکن یرفع یدیہ حتی یفرغ من صلاتہ ۔
((( مجمع الزوائد ج 10 ص 169 ،،، رجالہ ثقات )))
حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ نماز ختم ھونے سے پہلے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگ رہا ھے تو نماز کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے اس کو فرمایا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعاء مانگتے تھے ( اس کے راوی ثقہ ہیں )
فتاوٰی اہل حدیث ج 1 ص 190،،، فتاوٰی نزیریہ ج 1 ص 566 میں بھی ھے کہ یہ دعا شرعاً درست اور مستحب ھے ۔
27۔۔۔
ظہر کی سنتیں
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من حافظ علٰی اربع رکعات قبل الظہر و اربع بعد ھا حرمہ اللہ علی النار ۔
((( ترمزی شریف )))
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ھے کہ جس نے ظہر سے پہلے چار رکعت اور ظہر کے بعد چار رکعتیں مستقلاً پڑہیں ، اللہ تعالٰی اس کو آگ پر حرام کردیں گے ۔
28
عصر کی سنتیں
قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم رحم اللہ امرا صلی قبل العصر الربعہً۔
ترمزی شریف ، ماجاء فی الربع، ابوداؤد
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ھے کہ اللہ تعالٰی اس شخص پر رحم فرمائے جس نے عصر کی نماز پہلے چار رکعت پڑھیں ۔
29
مغرب کی سنتیں
عن عائشہ رضی اللہ عنہا (مرفوعاً) وکان یصلی بالناس المغرب ثم یدخل فیصلی رکعتین ۔
صحیح مسلم
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو مغرب کی نماز پڑھاتے تھے ، پھر گھر میں تشریف لاکر دورکعتیں پڑھتے تھے ۔
30
مغرب سے پہلے کے دورکعت نفل
عن عبداللہ بن بریدۃ رضی اللہ عنہ عن ابیہ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان عند کل اذانین رکعتین ما خلا المغرب ۔
دارقطنی، ج1، ص 264
حضرت عبداللہ بن بریاۃ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک ہر دو آزانوں کے وقت دورکعت ہوتی ہیں ، ماسوا مغرب کے
اور مصنف عبدالرزاق ج2،ص435 پر ھے
عن ابراھیم قال لم یصلی ابوبکر رضی اللہ عنہ ولاعمر رضی اللہ عنہ ولا عثمان رضی اللہ عنہ ، الرکعتین قبل المغرب ۔
یعنی ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ مغرب سے پہلے دورکعت نفل ،حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ، عمر فاروق رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے نہیں پڑھیں ۔
مزید دیکھئے
صحیح مسلم کی روایت ھے
سالت انس بن مالک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وکنا نصلی علٰی عھد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکعتین بعد غروب الشمس قبل صلوٰۃ المغرب فقلت لہ ، اکان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلاھما ? قال کان یرانا نصلیھما فلم یامرنا وینھا ۔
انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں غروب آفتاب ھونے کے بعد مغرب کی نماز ھونے سے پہلے دورکعت پڑھتے تھے ۔ (راوی کہتا ھے) میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کو پڑھتے تھے ? تو انہوں نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہم لوگوں کو دیکھتے تھے کہ ہم پڑھتے ہیں ،پس نہ تو آپ آلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو ان کے پڑھنے کا حکم دیا اور نہ ہی اس سے منع کیا ۔
صحیح مسلم ،ج1، ص278
ان روایتوں پر نظر ڈالنے سے یہ معلوم ھوتا ھے کہ چونکہ مغرب کی نماز کا وقت مختصر ھوتا ھے اسلئے تاخیر مناسب نہیں ۔
البتہ پڑھنے والے پر نکیر نہ کیا جائے ، کیونکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور احناف کے نزدیک صرف غیر اولٰی ھے ۔ (نماز مسنون،ص556)
31
وتر
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں اپنے بھتیجے کے پوچھنے پر ، ماکان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یزید فی رمضان ولا فی غیرہ رلٰی احدیٰ عشرۃ رکعتہً یصلی اربعاً فلا تسال عن حسنہن وطو لھن ثم یصلی اربعاً فلا تسال حسنہن وطولہن ثم یصلی ثلاثاً
صحیح مسلم ، صلاۃ اللیل
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں زیادہ کرتے تھے رمضان میں اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت پر ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعت پڑھتے تھے ، نپ پوچھو ان کے حسن اور درازی سے ، پھر چار رکعت پڑھتے تھے ، نہ پوچھو ان کے حسن اور درازی سے ، یعنی بہت لمبی لمبی رکعت اور بہت اچھی طرح پڑھتے تھے ۔ پھر تین رکعت وتر پڑھتے تھے ۔
32
عن عبداللہ بن بریدۃ عن ابیہ قال سمیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول الوتر حق فمن لم یوتر فلیس منا الوتر حق فمن لم یوتر فلیس منا الوتر حق فمن لم یوتر فلیس منا ۔
ابوداؤد ، مستدرک حاکم
حضرت بریدۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وتر حق ھے ، جس نے وتر نہ پڑھے تو وہ ہم میں سے نہیں۔ یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دفعہ ارشاد فرمائی ۔
33
عن ابی ایوب عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال الوتر حق واجب
دار قطنی (منفرد)
حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " وتر حق واجب ھے "۔
34
عن خارجۃ رضی اللہ عنہ بن خذافۃ العدوی رضی اللہ عنہ قال خرج علینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال ان اللہ قد امدکم بصلوٰۃ ھی خیر لکم من حمر النعم وھی الوتر ۔
ابوداؤد ، مستدرک حاکم ، وقال اسناد صحیح ترمزی
حضرت خارجۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا بے شک اللہ تعالٰی نے تمہیں امداد پہنچائی ھے یا تمہارے لئے ایک نماز زائد کی ھے جو تمہارے لئے سرخ اونٹوں سے زیادہ بہتر ہے اور وہ نماز وتر ھے ۔
35
فجر کی سنتیں
عن عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال رکعتا الفجر خیر من الدنیا ومافیہا ۔
صحیح مسلم
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، صبح کی دورکعات (سنتیں) دنیا اور مافیہا سے بہتر ہیں
36
فجر کی سنتوں کی قضا
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من لم یصل رکعتی الفجر فلیصلیھما بعد ماتطلع الشمس ۔
ترمزی شریف ، ماجاء اعادتھما
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے فجر کی دورکعتیں پڑھنی ھوں وہ سورج نکلنے کے بعد پڑھ لے۔
(مؤطا امام مالک میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عمل یونہی نقل کیا گیا ھے )
37
وفی روایتہ عنہا لھا احب الی من الدنیا جمیعاً
اک اور روایت میں ھے کہ یہ دورکعت مجھے دنیا سے زیادہ محبوب ہیں ۔
صحیح مسلم
38
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا تدعو ھما وان طرد تکم الخیل ۔
ابوداؤد ، ج1، ص 179
حضرت ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ھے کہ ان کو نہ چھوڑو اگرچہ تم کو گھوڑے کیوں نہ روند ڈالیں
39
ظہر کی سنتیں
فرض سے پہلے چار سنتیں
عن عائشہ رضی اللہ عنہا ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان لایدع اربعاً قبل الظھر و رکعتین قبل الغداۃ۔
صحیح بخاری
ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز سے پہلے چار رکعت اور صبح کی نماز سے قبل دو رکعت کبھی ترک نہیں کرتے تھے ۔
40
فرض کے بعد دو سنتیں
عن عبداللہ بن الشقیق رضی اللہ عنہ قال سالت ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا عن صلوٰۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن تطوعہ فقالت کان یصلی فی بیتی قبل الظھر اربعاً ثم یخرج فیصلی بالناس ثم یدخل فیصلی رکعتین ۔
صحیح مسلم
حضرت عبداللہ بن شقیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نفل نماز کے بارے میں دریافت کیا تو ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں ظہر سے قبل چار رکعات پڑھتے تھے ، پھر گھر سے تشریف لے جاتے اور لوگوں کو نماز پڑھاتے ، پھر گھر تشریف لاتے اور دورکعت نماز پڑھتے ۔
1
وضو کا طریقہ
وَعَنْ عُثْمَانَ اَنَّہُ تَوَضَّأَ بِالْمَقَاعِدِ فَقَالَ اَلَا اُرِےْکُمْ وُضُوْءَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَتَوَضَّأَ ثَلٰثًا ثَلٰثًا۔
صحیح مسلم ، فصل الوضو
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کیا تمہیں وضو کا مسنون طریقہ نہ بتاؤں ۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے وضو کیا اور تین تین دفعہ اعضاء کو دھویا۔
2
گردن پر مسح کرنا
عن ابن عمر ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال من توضا ومسح یدیہ علٰی عنقیہ وقی العل یوم القیامۃ
تلخیص الحبیر ،ج1، ص93
حجرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ جس نے وضو کے دوران ہاتھوں سے گردن کا مسح کیا وہ قیامت کے دن گردن میں بیڑیاں پہنائے جانے سے بچ گیا ۔
""شارح صحیح بخاری علامہ ابن حضر رحمہ اللہ نے "تلخیص الحبیر " میںاس حدیث کو صحیح کہا ھے ، علامہ شوکانی نے "نیل الاوطار" میں بھی ایسا ہی لکھا ھے ۔""
جرابوں پر مسح کرنا
وضو کے دوران جرابوں پر مسح کرنا جائز نہیں، چونکہ ایسا کرنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ، علامہ مبارک پوری رحمہ اللہ نے تحفۃ الاحوذی شرح ترمزی ج1،ص233 میں اور میاں نزیر حسین دہلوی رحمہ اللہ نے فتاوٰی نزیریہ ج1،ص327 اور مولانا اشرف الدین نے فتاوٰی ثنائیہ ج1،ص423 میں لکھا ھے کہ جرابوں پر مسح کرنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ھے ۔
3
اوقات نماز
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ صل الظھر اذا کان ظلک مثلک والعصر اذا کان ظلک مثلک و المغرب اذا غربت الشمس والعشاء ما بینک و بین ثلث اللیل وصل الصبح ۔۔۔۔۔ یعنی الفلس ۔
موطاء امام مالک،ج1 ص8
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ھے کہ تیرا سایہ برابر ھوجائے تو ظہر کی نماز ادا کرو اور جب یہ سایہ دوگنا ھوجائے تو عصر کی نماز ادا کرو اور آفتاب غروب ھونے پر مٍرب کی نماز پڑھ جب کہ عشاء کا وقت رات کے تہائی حصہ تک اور فجر کی نماز اندھیرے میں ادا کر ۔
4
ظہر کا مسنون وقت
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا اشتد الحر فابردو الصلوٰۃ فان شدۃ الحر من فیح جھنم ۔
صحیح مسلم ،استحباب الابراد
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ھے کہ جب گرمی زیادہ ھوتو
ظھر کی نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو چونکہ گرمی شدت جہنم کا اثر ھے ۔
5
عصر کا مسنون وقت
کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوخر العصر مادامت الشمس بیضاء نقیۃً
ابوداؤد ،وقت العصر
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول مبارک تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز کو دیر سے پڑھتے تا آنکہ سورج صاف اور سفید ھوتا۔
6
فجر کا مسنون وقت
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ هُوَ ابْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ أَسْفِرُوا بِالْفَجْرِ فَإِنَّهُ أَعْظَمُ لِلْأَجْرِ قَالَ وَقَدْ رَوَی شُعْبَةُ وَالثَّوْرِيُّ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ قَالَ وَرَوَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ أَيْضًا عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ وَجَابِرٍ وَبِلَالٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَأَی غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ الْإِسْفَارَ بِصَلَاةِ الْفَجْرِ وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ و قَالَ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ مَعْنَی الْإِسْفَارِ أَنْ يَضِحَ الْفَجْرُ فَلَا يُشَکَّ فِيهِ وَلَمْ يَرَوْا أَنَّ مَعْنَی الْإِسْفَارِ تَأْخِيرُ الصَّلَاةِ
ترمزی ،
ہناد، عبدہ، محمد بن اسحاق، عاصم بن عمر بن قتادہ، محمود بن لبید، رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ "" فجر کی نماز روشنی میں پڑھو کیونکہ اس میں زیادہ ثواب ہے "" اس باب میں ابوبرزہ جابر بلال سے بھی روایات مذکور ہیں اور روایت کیا ہے اس حدیث کو شعبہ اور ثوری نے محمد بن اسحاق اور محمد بن عجلان نے بھی اس حدیث کو عاصم بن عمر بن قتادہ سے روایت کیا ہے امام ابوعیسی ترمذی فرماتے ہیں رافع خدیج کی حدیث حسن صحیح ہے اکثر اہل علم صحابہ و تابعین میں سے کہتے ہیں کہ فجر کی نماز روشنی میں پڑھی جائے اور یہی قول ہے سفیان ثوری کا امام شافعی اور امام احمد فرماتے ہیں کہ اسفار کا معنی یہ ہے کہ فجر واضح ہو جائے اور اس میں شک نہ رہے اس میں اسفار کے معنی یہ نہیں ہے کہ دیر سے نماز پڑھی جائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ھے کہ فجر کی نماز اسفاء میں پڑھو (جب روشنی ھونے لگے) چونکہ اس کا ثواب بہت زیادہ ھے ۔
7
اقامت کے مسنون کلمات
ان بلالاً کان یثنی الاذان و یثنی الاقامۃ
اسناد صحیح مصنف عبدالرزاق
مؤذن رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان و اقامت دوہری دوہری کہا کرتے تھے ۔
مؤذن رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابومحزورہ رضی اللہ عنہ، حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ اور حضرت سلمہ رضی اللہ عنہ کا معمول بھی یہی تھا ۔ علامہ شوکانی رضمہ اللہ نے نیل الاوطار ،ج1،ص24 میں اسی کو ترجیح دی ھے ۔
8
سر ڈھانپنا
کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یکثر القناع
شمائل ترمزی
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر اوقات اپنے سر مبارک پر کپڑا رکھتے تھے۔
فتاوٰی ثنائیہ ،ج1،ص525 میں لکھا ھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ سر ڈھانپ کر نماز پڑھتے تھے ۔ نیز مولانا اشرف الدین ،ج1،ص523 پر لکھتے ہیں کہ قصداً ٹوپی اتار کر ننگے سر نماز پڑھنا اور اسکو اپنا مسلکی شعار بنانا خلاف سنت ھے ۔
9
کانوں تک ہاتھ اٹھانا
عن قتادۃ انہ رائ النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال حتٰی یحاذی بھما فروع اذنیہ۔
صحیح مسلم،استجاب رفع
حضرت قتادۃ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ھوئے دیکھا ، وہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر کہہ کر ہاتھوں کو کانوں کی لوتک اٹھایا ۔
10
ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا
عن علی رضی اللہ عنہ السنۃ وضع الکف علی الکف فی الصلوٰۃ تحت السرۃ
ابوداؤد
چوٹھے خلیفہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری سنت یہ ھے کہ نماز میں ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر رکھ کر ناف کے نیچے باندھا جائے ۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے بھی یہی منقول ھے۔
11
ثنا
یقول عمر رضی اللہ عنہ ، سبحانک اللھم وبحمدک و تبارک اسمک وتعالٰی جدک ولا الہ غیرک ۔
صحیح مسلم
دوسرے خلیفہ راشد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نماز میں یہ ثنا پڑھتے تھے ،
سبحانک اللھم وبحمدک و تبارک اسمک وتعالٰی جدک ولا الہ غیرک ۔
12
بسم اللہ آہستہ پڑھنا
عن انس رضی اللہ عنہ قال صلیت مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و ابی بکر و عمر و عثمان (رضوان اللہ علیہم اجمٰعین) فلم اسمع احدًا منھم یقراء بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔
صحیح مسلم
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ،خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ، خلیفہ سوم حضرت عثمان غنی رضٰ اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی لیکن کسی ایک کو بھی بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھتے ھوئے نہیں سنا۔
امام ترمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جمہور اصحاب کرام رضی اللہ عنہم بھی تسمیہ آہستہ پڑھتے تھے ۔
علامہ ابن قیّم زاد المعاد میں فرماتے ہیں کسی صحیح صریح حدیث سے اونچی آواز سے تسمیہ پڑھنا ثابت نہیں ھے ۔
13
مقتدی سنے اور خاموش رہے
وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُواْ لَهُ وَأَنصِتُواْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ
سورۃ اعراف آیت 204
ارشاد ربانی ھے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو غور سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ ، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں کہ یہ آیت نماز اور خطبہ کے بارے میں نازل ھوئی۔
تفسیر ابن کثیر ج1،ص281
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا صلیتم فاقیمو صفو فکم ثم لیسومکم احدکم فاذا کبر فکبر واذا قرء فانصیتوا واذا قرء غیر المغضوب علیہم ولا الضالین فقولوا آمین یحبکم اللہ۔
روایت جریر عن قتادۃ
صحیح مسلم ، التشہد فی الصلاۃ
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ھے کہ جب تم نماز پڑھنے لگو تو صفوں کو سیدھا کرلیا کرو ، پھر تم میں سے کوئی ایک امامت کرائے، جب امام تکبیر کئے تو تم بھی تکبیر کہو ، جب وہ قرآن پڑھنے لگے تو تم خاموش ہوجاؤ اور جب وہ غیر المغضوب علیہم ولا الضالین کہہ لے تو تم آمین کہو۔ اسطرح کرنے سے اللہ تم سے محبت رکھے گا۔
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی یہ الفاظ منقول ہیں ، امام مسلم نے اس روایت کوبھی صحیح کہا ھے
14
مقتدی سورۃ فاتحہ نہ پڑھے
عن عطاء ابن یسار سال زید بن ثابت عن القراء مع الامام فقال لا قراۃء مع الامام فی شئی ء
صحیح مسلم ، سجود والتلاوۃ
حضرت عطاء بن یسار نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے امام کے ساتھ پڑھنے کی بابت پوچھا تو آپ رضٰ اللہ عنہ نے فرمایا کہ کسی بھی نماز میں امام کے ساتھ ساتھ قرآن نہ پڑھے۔
15
امام کی قراءت مقتدی کے لئے کافی ھے
کان یقول عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ، من صلی وراء الامام کفاہ قراۃ الامام ۔
صحیح البیہقی، سنن بیہقی، من قال لایقراء
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے تھے کہ جوشخص امام کی اقتداء میں نماز پڑھے اس کے لئے امام کی قراءت کافی ھے ۔
(امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح کہا ھے)
16
تنہا نمازی فاتحہ پڑھے مقتدی نہیں
کان ابن عمر رضی اللہ عنہ اذا سئل ھل یقرء خلف الامام ? قال اذا صلی احد کم خلف الامام فحسبہ قراءۃ الامام واذا صلی وحدہ فلیقرء وکان عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ لا یقرء خلف الامام ۔
مؤطا امام مالک، ترک القراءۃ
جب حجرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا جاتا کہ امام کے پیچھے مقتدی بھی پڑھے ? تو آپ رضی اللہ عنہ جواب دیتے کہ مقتدی کے لئے امام کی قراءت کافی ھے ۔ البتہ جب وہ اکیلا نماز پڑھے تو قراءت کرے۔ خود حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بھی امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھتے تھے ۔
(آثار السنن میں ھے کہ یہ حدیث صحیح ھے )
17
عن جابر رضی اللہ عنہ یقول من صلی رکعتہ لم یقرء فیھا بام القران فلم یصل الا ان یکون وراء الامام ۔
حسن صحیح
ترمزی شریف، ترک القراءۃ
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس نے ایک رکعت میں بھی سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز نہیں ھوئی ، علاوہ اسکے کہ وہ امام کے پیچھے ھو تو سورۃ فاتحہ نہ پڑھے ۔
یہ حدیث حسن صحیح ھے
اسی حدیث کی بناء پر امام ترمزی رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ کے دادا استاد امام احمد رحمہ اللہ سے نقل کیا ھے کہ " لاصلاۃ لمن لم یقرء بفاتحۃ الکتاب " والی حدیث تنہا نمازی کے بارے میں ھے جو مقتدی کو شامل نہیں۔
ترمزی شریف
مندرجہ بالا احادیث میں بڑی صراحت کے ساتھ باجماعت نماز میں مقتدی کو سورۃ فاتحہ پڑھنے سے روکا گیا ھے ، لیکن کوئی صحیح مرفوع حدیث ایسی نہیں جس میں صراحتاً باجماعت نماز میں مقتدی کو سورۃ فاتحہ پڑھنے کا حکم دیا گیا ھو۔
18
آمین آہستہ کہے
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا تبادروا الامام اذا کبر فکبروا واذا قال ولاالضالین فقولوا آمین واذا رکع فارکعوا واذا قال سمع اللہ لمن حمدہ فقولوا اللھم ربنا لک الحمد ۔
صحیح مسلم ،
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ھے کہ امام سے جلدی نہ کرو ، جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو اور جب وہ ولاالضالین کہے تو تم آمین کہو اور جب وہ رکوع کرے تو تم رکوع کرو اور جب سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم اللھم ربنا لک الحمد کہو ۔
مسئلہ آمین میں یہ حدیث بڑی واضح ھے کہ جس طرح امام اللہ اکبر اور سمع اللہ لمن حمدہ اونچی کہتا ھے لیکن سب مقتدی اللہ اکبر اور اللھم ربنا لک الحمد آہستہ کہتے ہیں ۔ اسی طرح جب امام ولاالضالین بلند آواز سے پڑھے تو مقتدی کو آہستہ آمین کہنی چاھئے۔
19
نماز میں رفع یدین
عن جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ قال خرج علینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال مالی ازاکم رافعی ایسیکم کانھا اذناب خیل شمس، اسکنوا فی الصلاۃ ۔
صحیح مسلم ، الامر بالسکون
حضرت جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ کیا ھوا کہ میں تمہیں رفع یدین کرتے ھوئے دیکھ رہا ھوں ۔ گویا وہ شریر گھوڑوں کی دمیں ہیں ، نماز میں سکون اختیار کرو ۔
اس حدیث سے یہ بات واضح ھوگئی کہ جن احادیث میں رفع یدین کرنے کا زکر ھے وہ اس ممانعت سے پہلے کی ہیں ، لہٰزا اس ممانعت کے بعد اب ان سابقہ روایات کو دلیل نہیں بنایا جاسکتا ۔ اسی لئے کسی صحیح حدیث میں یہ صراحت نہیں کہ آخر تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل رفع یدین کرنے کا تھا ۔
20
نبوی نماز
قال عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ الا اصلی بکم صلوٰۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فصلٰی فلم یرفع یدیہ الا فی اول مرۃ
حسن صححہ ابن حزم ترمزی شریف ، ماجاء فی رفع
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا طریقہ نہ بتاؤں ? پھر آپ رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھ کر دکھائی اور صرف شروع میں رفع یدین کیا ۔
(یہ حدیث حسن ھے ، ابن حزم نے صحیح کہا ھے ، احمد شاکر رحمہ اللہ نے بھی صحیح کہا ھے )
1
وضو کا طریقہ
وَعَنْ عُثْمَانَ اَنَّہُ تَوَضَّأَ بِالْمَقَاعِدِ فَقَالَ اَلَا اُرِےْکُمْ وُضُوْءَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَتَوَضَّأَ ثَلٰثًا ثَلٰثًا۔
صحیح مسلم ، فصل الوضو
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کیا تمہیں وضو کا مسنون طریقہ نہ بتاؤں ۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے وضو کیا اور تین تین دفعہ اعضاء کو دھویا۔
2
گردن پر مسح کرنا
عن ابن عمر ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال من توضا ومسح یدیہ علٰی عنقیہ وقی العل یوم القیامۃ
تلخیص الحبیر ،ج1، ص93
حجرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ جس نے وضو کے دوران ہاتھوں سے گردن کا مسح کیا وہ قیامت کے دن گردن میں بیڑیاں پہنائے جانے سے بچ گیا ۔
""شارح صحیح بخاری علامہ ابن حضر رحمہ اللہ نے "تلخیص الحبیر " میںاس حدیث کو صحیح کہا ھے ، علامہ شوکانی نے "نیل الاوطار" میں بھی ایسا ہی لکھا ھے ۔""
جرابوں پر مسح کرنا
وضو کے دوران جرابوں پر مسح کرنا جائز نہیں، چونکہ ایسا کرنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ، علامہ مبارک پوری رحمہ اللہ نے تحفۃ الاحوذی شرح ترمزی ج1،ص233 میں اور میاں نزیر حسین دہلوی رحمہ اللہ نے فتاوٰی نزیریہ ج1،ص327 اور مولانا اشرف الدین نے فتاوٰی ثنائیہ ج1،ص423 میں لکھا ھے کہ جرابوں پر مسح کرنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ھے ۔
3
اوقات نماز
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ صل الظھر اذا کان ظلک مثلک والعصر اذا کان ظلک مثلک و المغرب اذا غربت الشمس والعشاء ما بینک و بین ثلث اللیل وصل الصبح ۔۔۔۔۔ یعنی الفلس ۔
موطاء امام مالک،ج1 ص8
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ھے کہ تیرا سایہ برابر ھوجائے تو ظہر کی نماز ادا کرو اور جب یہ سایہ دوگنا ھوجائے تو عصر کی نماز ادا کرو اور آفتاب غروب ھونے پر مٍرب کی نماز پڑھ جب کہ عشاء کا وقت رات کے تہائی حصہ تک اور فجر کی نماز اندھیرے میں ادا کر ۔
4
ظہر کا مسنون وقت
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا اشتد الحر فابردو الصلوٰۃ فان شدۃ الحر من فیح جھنم ۔
صحیح مسلم ،استحباب الابراد
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ھے کہ جب گرمی زیادہ ھوتو
ظھر کی نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو چونکہ گرمی شدت جہنم کا اثر ھے ۔
5
عصر کا مسنون وقت
کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوخر العصر مادامت الشمس بیضاء نقیۃً
ابوداؤد ،وقت العصر
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول مبارک تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز کو دیر سے پڑھتے تا آنکہ سورج صاف اور سفید ھوتا۔
6
فجر کا مسنون وقت
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ هُوَ ابْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ أَسْفِرُوا بِالْفَجْرِ فَإِنَّهُ أَعْظَمُ لِلْأَجْرِ قَالَ وَقَدْ رَوَی شُعْبَةُ وَالثَّوْرِيُّ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ قَالَ وَرَوَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ أَيْضًا عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ وَجَابِرٍ وَبِلَالٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَأَی غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ الْإِسْفَارَ بِصَلَاةِ الْفَجْرِ وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ و قَالَ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ مَعْنَی الْإِسْفَارِ أَنْ يَضِحَ الْفَجْرُ فَلَا يُشَکَّ فِيهِ وَلَمْ يَرَوْا أَنَّ مَعْنَی الْإِسْفَارِ تَأْخِيرُ الصَّلَاةِ
ترمزی ،
ہناد، عبدہ، محمد بن اسحاق، عاصم بن عمر بن قتادہ، محمود بن لبید، رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ "" فجر کی نماز روشنی میں پڑھو کیونکہ اس میں زیادہ ثواب ہے "" اس باب میں ابوبرزہ جابر بلال سے بھی روایات مذکور ہیں اور روایت کیا ہے اس حدیث کو شعبہ اور ثوری نے محمد بن اسحاق اور محمد بن عجلان نے بھی اس حدیث کو عاصم بن عمر بن قتادہ سے روایت کیا ہے امام ابوعیسی ترمذی فرماتے ہیں رافع خدیج کی حدیث حسن صحیح ہے اکثر اہل علم صحابہ و تابعین میں سے کہتے ہیں کہ فجر کی نماز روشنی میں پڑھی جائے اور یہی قول ہے سفیان ثوری کا امام شافعی اور امام احمد فرماتے ہیں کہ اسفار کا معنی یہ ہے کہ فجر واضح ہو جائے اور اس میں شک نہ رہے اس میں اسفار کے معنی یہ نہیں ہے کہ دیر سے نماز پڑھی جائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ھے کہ فجر کی نماز اسفاء میں پڑھو (جب روشنی ھونے لگے) چونکہ اس کا ثواب بہت زیادہ ھے ۔
7
اقامت کے مسنون کلمات
ان بلالاً کان یثنی الاذان و یثنی الاقامۃ
اسناد صحیح مصنف عبدالرزاق
مؤذن رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان و اقامت دوہری دوہری کہا کرتے تھے ۔
مؤذن رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابومحزورہ رضی اللہ عنہ، حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ اور حضرت سلمہ رضی اللہ عنہ کا معمول بھی یہی تھا ۔ علامہ شوکانی رضمہ اللہ نے نیل الاوطار ،ج1،ص24 میں اسی کو ترجیح دی ھے ۔
8
سر ڈھانپنا
کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یکثر القناع
شمائل ترمزی
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر اوقات اپنے سر مبارک پر کپڑا رکھتے تھے۔
فتاوٰی ثنائیہ ،ج1،ص525 میں لکھا ھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ سر ڈھانپ کر نماز پڑھتے تھے ۔ نیز مولانا اشرف الدین ،ج1،ص523 پر لکھتے ہیں کہ قصداً ٹوپی اتار کر ننگے سر نماز پڑھنا اور اسکو اپنا مسلکی شعار بنانا خلاف سنت ھے ۔
9
کانوں تک ہاتھ اٹھانا
عن قتادۃ انہ رائ النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال حتٰی یحاذی بھما فروع اذنیہ۔
صحیح مسلم،استجاب رفع
حضرت قتادۃ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ھوئے دیکھا ، وہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر کہہ کر ہاتھوں کو کانوں کی لوتک اٹھایا ۔
10
ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا
عن علی رضی اللہ عنہ السنۃ وضع الکف علی الکف فی الصلوٰۃ تحت السرۃ
ابوداؤد
چوٹھے خلیفہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری سنت یہ ھے کہ نماز میں ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر رکھ کر ناف کے نیچے باندھا جائے ۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے بھی یہی منقول ھے۔
11
ثنا
یقول عمر رضی اللہ عنہ ، سبحانک اللھم وبحمدک و تبارک اسمک وتعالٰی جدک ولا الہ غیرک ۔
صحیح مسلم
دوسرے خلیفہ راشد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نماز میں یہ ثنا پڑھتے تھے ،
سبحانک اللھم وبحمدک و تبارک اسمک وتعالٰی جدک ولا الہ غیرک ۔
12
بسم اللہ آہستہ پڑھنا
عن انس رضی اللہ عنہ قال صلیت مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و ابی بکر و عمر و عثمان (رضوان اللہ علیہم اجمٰعین) فلم اسمع احدًا منھم یقراء بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔
صحیح مسلم
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ،خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ، خلیفہ سوم حضرت عثمان غنی رضٰ اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی لیکن کسی ایک کو بھی بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھتے ھوئے نہیں سنا۔
امام ترمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جمہور اصحاب کرام رضی اللہ عنہم بھی تسمیہ آہستہ پڑھتے تھے ۔
علامہ ابن قیّم زاد المعاد میں فرماتے ہیں کسی صحیح صریح حدیث سے اونچی آواز سے تسمیہ پڑھنا ثابت نہیں ھے ۔
13
مقتدی سنے اور خاموش رہے
وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُواْ لَهُ وَأَنصِتُواْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ
سورۃ اعراف آیت 204
ارشاد ربانی ھے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو غور سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ ، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں کہ یہ آیت نماز اور خطبہ کے بارے میں نازل ھوئی۔
تفسیر ابن کثیر ج1،ص281
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا صلیتم فاقیمو صفو فکم ثم لیسومکم احدکم فاذا کبر فکبر واذا قرء فانصیتوا واذا قرء غیر المغضوب علیہم ولا الضالین فقولوا آمین یحبکم اللہ۔
روایت جریر عن قتادۃ
صحیح مسلم ، التشہد فی الصلاۃ
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ھے کہ جب تم نماز پڑھنے لگو تو صفوں کو سیدھا کرلیا کرو ، پھر تم میں سے کوئی ایک امامت کرائے، جب امام تکبیر کئے تو تم بھی تکبیر کہو ، جب وہ قرآن پڑھنے لگے تو تم خاموش ہوجاؤ اور جب وہ غیر المغضوب علیہم ولا الضالین کہہ لے تو تم آمین کہو۔ اسطرح کرنے سے اللہ تم سے محبت رکھے گا۔
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی یہ الفاظ منقول ہیں ، امام مسلم نے اس روایت کوبھی صحیح کہا ھے
14
مقتدی سورۃ فاتحہ نہ پڑھے
عن عطاء ابن یسار سال زید بن ثابت عن القراء مع الامام فقال لا قراۃء مع الامام فی شئی ء
صحیح مسلم ، سجود والتلاوۃ
حضرت عطاء بن یسار نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے امام کے ساتھ پڑھنے کی بابت پوچھا تو آپ رضٰ اللہ عنہ نے فرمایا کہ کسی بھی نماز میں امام کے ساتھ ساتھ قرآن نہ پڑھے۔
15
امام کی قراءت مقتدی کے لئے کافی ھے
کان یقول عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ، من صلی وراء الامام کفاہ قراۃ الامام ۔
صحیح البیہقی، سنن بیہقی، من قال لایقراء
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے تھے کہ جوشخص امام کی اقتداء میں نماز پڑھے اس کے لئے امام کی قراءت کافی ھے ۔
(امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح کہا ھے)
16
تنہا نمازی فاتحہ پڑھے مقتدی نہیں
کان ابن عمر رضی اللہ عنہ اذا سئل ھل یقرء خلف الامام ? قال اذا صلی احد کم خلف الامام فحسبہ قراءۃ الامام واذا صلی وحدہ فلیقرء وکان عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ لا یقرء خلف الامام ۔
مؤطا امام مالک، ترک القراءۃ
جب حجرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا جاتا کہ امام کے پیچھے مقتدی بھی پڑھے ? تو آپ رضی اللہ عنہ جواب دیتے کہ مقتدی کے لئے امام کی قراءت کافی ھے ۔ البتہ جب وہ اکیلا نماز پڑھے تو قراءت کرے۔ خود حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بھی امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھتے تھے ۔
(آثار السنن میں ھے کہ یہ حدیث صحیح ھے )
17
عن جابر رضی اللہ عنہ یقول من صلی رکعتہ لم یقرء فیھا بام القران فلم یصل الا ان یکون وراء الامام ۔
حسن صحیح
ترمزی شریف، ترک القراءۃ
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس نے ایک رکعت میں بھی سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز نہیں ھوئی ، علاوہ اسکے کہ وہ امام کے پیچھے ھو تو سورۃ فاتحہ نہ پڑھے ۔
یہ حدیث حسن صحیح ھے
اسی حدیث کی بناء پر امام ترمزی رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ کے دادا استاد امام احمد رحمہ اللہ سے نقل کیا ھے کہ " لاصلاۃ لمن لم یقرء بفاتحۃ الکتاب " والی حدیث تنہا نمازی کے بارے میں ھے جو مقتدی کو شامل نہیں۔
ترمزی شریف
مندرجہ بالا احادیث میں بڑی صراحت کے ساتھ باجماعت نماز میں مقتدی کو سورۃ فاتحہ پڑھنے سے روکا گیا ھے ، لیکن کوئی صحیح مرفوع حدیث ایسی نہیں جس میں صراحتاً باجماعت نماز میں مقتدی کو سورۃ فاتحہ پڑھنے کا حکم دیا گیا ھو۔
18
آمین آہستہ کہے
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا تبادروا الامام اذا کبر فکبروا واذا قال ولاالضالین فقولوا آمین واذا رکع فارکعوا واذا قال سمع اللہ لمن حمدہ فقولوا اللھم ربنا لک الحمد ۔
صحیح مسلم ،
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ھے کہ امام سے جلدی نہ کرو ، جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو اور جب وہ ولاالضالین کہے تو تم آمین کہو اور جب وہ رکوع کرے تو تم رکوع کرو اور جب سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم اللھم ربنا لک الحمد کہو ۔
مسئلہ آمین میں یہ حدیث بڑی واضح ھے کہ جس طرح امام اللہ اکبر اور سمع اللہ لمن حمدہ اونچی کہتا ھے لیکن سب مقتدی اللہ اکبر اور اللھم ربنا لک الحمد آہستہ کہتے ہیں ۔ اسی طرح جب امام ولاالضالین بلند آواز سے پڑھے تو مقتدی کو آہستہ آمین کہنی چاھئے۔
19
نماز میں رفع یدین
عن جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ قال خرج علینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال مالی ازاکم رافعی ایسیکم کانھا اذناب خیل شمس، اسکنوا فی الصلاۃ ۔
صحیح مسلم ، الامر بالسکون
حضرت جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ کیا ھوا کہ میں تمہیں رفع یدین کرتے ھوئے دیکھ رہا ھوں ۔ گویا وہ شریر گھوڑوں کی دمیں ہیں ، نماز میں سکون اختیار کرو ۔
اس حدیث سے یہ بات واضح ھوگئی کہ جن احادیث میں رفع یدین کرنے کا زکر ھے وہ اس ممانعت سے پہلے کی ہیں ، لہٰزا اس ممانعت کے بعد اب ان سابقہ روایات کو دلیل نہیں بنایا جاسکتا ۔ اسی لئے کسی صحیح حدیث میں یہ صراحت نہیں کہ آخر تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل رفع یدین کرنے کا تھا ۔
20
نبوی نماز
قال عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ الا اصلی بکم صلوٰۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فصلٰی فلم یرفع یدیہ الا فی اول مرۃ
حسن صححہ ابن حزم ترمزی شریف ، ماجاء فی رفع
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا طریقہ نہ بتاؤں ? پھر آپ رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھ کر دکھائی اور صرف شروع میں رفع یدین کیا ۔
(یہ حدیث حسن ھے ، ابن حزم نے صحیح کہا ھے ، احمد شاکر رحمہ اللہ نے بھی صحیح کہا ھے )
21
عمل صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمٰعین
ان علیًا رضی اللہ عنہ کان یرفع یدیہ فی اول تکبیرۃ من الصلوٰۃ ثم لا یعود۔
سنن بیہقی ، من لم یزکر الرفع،،قال الزیلعی صحیح ، قال ابن حجر رواتہ ثقات قال العینی اسنادہ علی شرط المسلم ۔
چوتھے خلیفہ راشد حضرت علی رضی اللہ عنہ نماز کی پہلی تکبیر میں رفع یدین کرتے تھے بعد میں نہیں ۔
علامہ زیلعی رحمہ اللہ، شارح بخاری علامہ ابن حجر رحمہ اللہ اور شارح بخاری علامہ عینی رحمہ اللہ نے اس روایت اور اسکی سند کو صحیح کہا ھے۔
واضح رہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ و دیگر خلفاء راشدین اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور دیگر بہت سے صحابہ کا بھی یہی عمل تھا ۔ امام ترمزی رحمہ اللہ بھی فرماتے ہیں کہ بہت سے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمٰعین کا اس پر عمل ھے ۔
22
جلسئہ استراحت
عن ابن سہل الساعدی و فیہ ثم کبر فسجد ثم کبر فقام ولم یتورک ۔
ابوداؤد شریف ، من ذکر
حضرت سہل رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے کی روایت میں ھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر کہہ کر سجدہ کیا پھر تکبیر کہہ کر بیٹھے بغیر سیدھے کھڑے ھوگئے ۔
امام بیہقی رحمہ اللہ نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور علامہ زیلعی نے "نصب الرائیہ" ج1،ص289 میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، حجرت علی رضی اللہ عنہ ، حجرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ، حجرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے اور علامہ ترکمانی رحمہ اللہ نے جوہر النقی ،ج2، ص 125 میں بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم کا یہی معمول نقل کیا ھے کہ وہ تیسری اور پہلی رکعت میں سجدہ سے اٹھتے ھوئے بیٹھے بغیر سیدھے کھڑے ھوجاتے تھے ۔
23
التحیات
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا قعد احدکم فی الصلوٰۃ فلیقل : التحیات للہ والصلوات والطیبات السلام علیک ایھا النبی و رحمتہ اللہ وبرکاتہ، السلام علینا وعلٰی عباداللہ الصالحین۔ اشہد ان لا الہ الااللہ واشہد ان محمدًا عبدہ ورسولہ ۔ ثم یتخیر من المسالۃ ماشاء ۔
صحیح مسلم ، صحیح بخاری ، التشہد
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ھے کہ جب کوئی تم میں سے نماز میں بیٹھے تو یہ پڑھا کرے : التحیات للہ والصلوات والطیبات السلام علیک ایھا النبی و رحمتہ اللہ وبرکاتہ، السلام علینا وعلٰی عباداللہ الصالحین۔ اشہد ان لا الہ الااللہ واشہد ان محمدًا عبدہ ورسولہ ۔ پھر جو دعا مانگنا چاھے مانگے ۔
24۔۔۔
انگلی کا اشارہ
کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا قعدید عو وضع یدیہ الیمنی علٰی فخیذہ الیمنی و یدہ الیسرٰی علٰی فخذہ الیسرٰی واشار باصبعہ السبابۃ و وضع ابھامہ علٰی اصبعہ الوسطٰی ۔
((( صحیح مسلم:صفتہ الجلوس )))
جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دعاء کے لئے بیٹھتے تو دائیں ہاتھ کو دائیں ران پر اور بائیں ہاتھ کو بائیں ران پر رکھتے اور اپنی شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے اور انگوٹھے کو درمیانی انگلی سے ملالیتے ۔
25۔۔۔
درود شریف
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قولو : اللھم صل علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما صلیت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید اللھم بارک علٰی محمد و علٰی آل محمد کما بارکت علٰی ابراھیم و علٰی آل ابراھیم انک حمید مجید ۔
((( صحیح مسلم : الصلاۃ )))
جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ہم آپ پر کون سا درود شریف پڑھا کریں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ درود ابراھیمی تلقین فرمایا : اللھم صل علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما صلیت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید اللھم بارک علٰی محمد و علٰی آل محمد کما بارکت علٰی ابراھیم و علٰی آل ابراھیم انک حمید مجید ۔
26۔۔۔
ہاتھ اٹھا کر دعاء مانگنا
ان عبد اللہ بن الزبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ رائ رجلاً رافعاً یدیہ قبل ان یفرغ من صلاتہ فلما فرض منھا قال ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لم یکن یرفع یدیہ حتی یفرغ من صلاتہ ۔
((( مجمع الزوائد ج 10 ص 169 ،،، رجالہ ثقات )))
حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ نماز ختم ھونے سے پہلے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگ رہا ھے تو نماز کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے اس کو فرمایا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعاء مانگتے تھے ( اس کے راوی ثقہ ہیں )
فتاوٰی اہل حدیث ج 1 ص 190،،، فتاوٰی نزیریہ ج 1 ص 566 میں بھی ھے کہ یہ دعا شرعاً درست اور مستحب ھے ۔
27۔۔۔
ظہر کی سنتیں
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من حافظ علٰی اربع رکعات قبل الظہر و اربع بعد ھا حرمہ اللہ علی النار ۔
((( ترمزی شریف )))
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ھے کہ جس نے ظہر سے پہلے چار رکعت اور ظہر کے بعد چار رکعتیں مستقلاً پڑہیں ، اللہ تعالٰی اس کو آگ پر حرام کردیں گے ۔
28
عصر کی سنتیں
قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم رحم اللہ امرا صلی قبل العصر الربعہً۔
ترمزی شریف ، ماجاء فی الربع، ابوداؤد
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ھے کہ اللہ تعالٰی اس شخص پر رحم فرمائے جس نے عصر کی نماز پہلے چار رکعت پڑھیں ۔
29
مغرب کی سنتیں
عن عائشہ رضی اللہ عنہا (مرفوعاً) وکان یصلی بالناس المغرب ثم یدخل فیصلی رکعتین ۔
صحیح مسلم
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو مغرب کی نماز پڑھاتے تھے ، پھر گھر میں تشریف لاکر دورکعتیں پڑھتے تھے ۔
30
مغرب سے پہلے کے دورکعت نفل
عن عبداللہ بن بریدۃ رضی اللہ عنہ عن ابیہ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان عند کل اذانین رکعتین ما خلا المغرب ۔
دارقطنی، ج1، ص 264
حضرت عبداللہ بن بریاۃ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک ہر دو آزانوں کے وقت دورکعت ہوتی ہیں ، ماسوا مغرب کے
اور مصنف عبدالرزاق ج2،ص435 پر ھے
عن ابراھیم قال لم یصلی ابوبکر رضی اللہ عنہ ولاعمر رضی اللہ عنہ ولا عثمان رضی اللہ عنہ ، الرکعتین قبل المغرب ۔
یعنی ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ مغرب سے پہلے دورکعت نفل ،حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ، عمر فاروق رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے نہیں پڑھیں ۔
مزید دیکھئے
صحیح مسلم کی روایت ھے
سالت انس بن مالک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وکنا نصلی علٰی عھد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکعتین بعد غروب الشمس قبل صلوٰۃ المغرب فقلت لہ ، اکان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلاھما ? قال کان یرانا نصلیھما فلم یامرنا وینھا ۔
انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں غروب آفتاب ھونے کے بعد مغرب کی نماز ھونے سے پہلے دورکعت پڑھتے تھے ۔ (راوی کہتا ھے) میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کو پڑھتے تھے ? تو انہوں نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہم لوگوں کو دیکھتے تھے کہ ہم پڑھتے ہیں ،پس نہ تو آپ آلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو ان کے پڑھنے کا حکم دیا اور نہ ہی اس سے منع کیا ۔
صحیح مسلم ،ج1، ص278
ان روایتوں پر نظر ڈالنے سے یہ معلوم ھوتا ھے کہ چونکہ مغرب کی نماز کا وقت مختصر ھوتا ھے اسلئے تاخیر مناسب نہیں ۔
البتہ پڑھنے والے پر نکیر نہ کیا جائے ، کیونکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور احناف کے نزدیک صرف غیر اولٰی ھے ۔ (نماز مسنون،ص556)
31
وتر
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں اپنے بھتیجے کے پوچھنے پر ، ماکان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یزید فی رمضان ولا فی غیرہ رلٰی احدیٰ عشرۃ رکعتہً یصلی اربعاً فلا تسال عن حسنہن وطو لھن ثم یصلی اربعاً فلا تسال حسنہن وطولہن ثم یصلی ثلاثاً
صحیح مسلم ، صلاۃ اللیل
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں زیادہ کرتے تھے رمضان میں اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت پر ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعت پڑھتے تھے ، نپ پوچھو ان کے حسن اور درازی سے ، پھر چار رکعت پڑھتے تھے ، نہ پوچھو ان کے حسن اور درازی سے ، یعنی بہت لمبی لمبی رکعت اور بہت اچھی طرح پڑھتے تھے ۔ پھر تین رکعت وتر پڑھتے تھے ۔
32
عن عبداللہ بن بریدۃ عن ابیہ قال سمیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول الوتر حق فمن لم یوتر فلیس منا الوتر حق فمن لم یوتر فلیس منا الوتر حق فمن لم یوتر فلیس منا ۔
ابوداؤد ، مستدرک حاکم
حضرت بریدۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وتر حق ھے ، جس نے وتر نہ پڑھے تو وہ ہم میں سے نہیں۔ یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دفعہ ارشاد فرمائی ۔
33
عن ابی ایوب عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال الوتر حق واجب
دار قطنی (منفرد)
حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " وتر حق واجب ھے "۔
34
عن خارجۃ رضی اللہ عنہ بن خذافۃ العدوی رضی اللہ عنہ قال خرج علینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال ان اللہ قد امدکم بصلوٰۃ ھی خیر لکم من حمر النعم وھی الوتر ۔
ابوداؤد ، مستدرک حاکم ، وقال اسناد صحیح ترمزی
حضرت خارجۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا بے شک اللہ تعالٰی نے تمہیں امداد پہنچائی ھے یا تمہارے لئے ایک نماز زائد کی ھے جو تمہارے لئے سرخ اونٹوں سے زیادہ بہتر ہے اور وہ نماز وتر ھے ۔
35
فجر کی سنتیں
عن عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال رکعتا الفجر خیر من الدنیا ومافیہا ۔
صحیح مسلم
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، صبح کی دورکعات (سنتیں) دنیا اور مافیہا سے بہتر ہیں
36
فجر کی سنتوں کی قضا
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من لم یصل رکعتی الفجر فلیصلیھما بعد ماتطلع الشمس ۔
ترمزی شریف ، ماجاء اعادتھما
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے فجر کی دورکعتیں پڑھنی ھوں وہ سورج نکلنے کے بعد پڑھ لے۔
(مؤطا امام مالک میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عمل یونہی نقل کیا گیا ھے )
37
وفی روایتہ عنہا لھا احب الی من الدنیا جمیعاً
اک اور روایت میں ھے کہ یہ دورکعت مجھے دنیا سے زیادہ محبوب ہیں ۔
صحیح مسلم
38
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا تدعو ھما وان طرد تکم الخیل ۔
ابوداؤد ، ج1، ص 179
حضرت ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ھے کہ ان کو نہ چھوڑو اگرچہ تم کو گھوڑے کیوں نہ روند ڈالیں
39
ظہر کی سنتیں
فرض سے پہلے چار سنتیں
عن عائشہ رضی اللہ عنہا ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان لایدع اربعاً قبل الظھر و رکعتین قبل الغداۃ۔
صحیح بخاری
ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز سے پہلے چار رکعت اور صبح کی نماز سے قبل دو رکعت کبھی ترک نہیں کرتے تھے ۔
40
فرض کے بعد دو سنتیں
عن عبداللہ بن الشقیق رضی اللہ عنہ قال سالت ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا عن صلوٰۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن تطوعہ فقالت کان یصلی فی بیتی قبل الظھر اربعاً ثم یخرج فیصلی بالناس ثم یدخل فیصلی رکعتین ۔
صحیح مسلم
حضرت عبداللہ بن شقیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نفل نماز کے بارے میں دریافت کیا تو ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں ظہر سے قبل چار رکعات پڑھتے تھے ، پھر گھر سے تشریف لے جاتے اور لوگوں کو نماز پڑھاتے ، پھر گھر تشریف لاتے اور دورکعت نماز پڑھتے ۔