بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
Allah in the name of the most Affectionate the Merciful. اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا (ف۱)
(ف۱) - سورۂ یٰسٓ مکّیہ ہے ، اس میں پانچ رکوع ، تراسی آیتیں ، سات سو انتیس کلمے ، تین ہزار حروف ہیں ۔ ترمذی کی حدیث شریف میں ہے کہ ہر چیز کے لئے قلب ہے اور قرآن کا قلب یٰسٓ ہے اور جس نے یٰسٓ پڑھی اللہ تعالٰی اس کے لئے دس بار قرآن پڑھنے کا ثواب لکھتا ہے , یہ حدیث غریب ہے اور اس کی اسناد میں ایک راوی مجہول ہے ۔ ابوداؤد کی حدیث میں ہے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا اپنے اموات پر یٰسٓ پڑھو اسی لئے قریبِ موت حالتِ نزع میں مرنے والوں کے پاس یٰسٓ پڑھی جاتی ہے ۔
-------------------------------------------------------------------------------- 1. یٰسٓۚ۱
1. Yasin. 1. ۔
-------------------------------------------------------------------------------- 2. وَ الْقُرْاٰنِ الْحَكِیْمِۙ۲
2. By the wise Quran. 2. حکمت والے قرآن کی قسم
-------------------------------------------------------------------------------- 3. اِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَۙ۳
3. No doubt, you. 3. بیشک تم (ف۲)
(ف۲) - اے سیدِ انبیاء محمّدِ مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ۔
-------------------------------------------------------------------------------- 4. عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍؕ۴
4. Have been sent on straight path. 4. سیدھی راہ بھیجے گئے ہو (ف۳)
(ف۳) - جو منزلِ مقصود کو پہنچانے والی ہے یہ راہ توحید و ہدایت کی راہ ہے تمام انبیاء علیہم السلام اسی راہ پر رہے ہیں ، اس آیت میں کُفّار کا رد ہے جو حضور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے کہتے تھے ''لَسْتَ مُرْسَلاً '' تم رسول نہیں ہو ۔ اس کے بعد قرآنِ کریم کی نسبت ارشاد فرمایا ۔
-------------------------------------------------------------------------------- 5. تَنْزِیْلَ الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمِۙ۵
5. Sent down by the Dignified, the Merciful. 5. عزت والے مہربان کا اتارا ہوا
-------------------------------------------------------------------------------- 6. لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّاۤ اُنْذِرَ اٰبَآؤُهُمْ فَهُمْ غٰفِلُوْنَ۶
6. So that you may warn a people whose fathers were not warned so they are unaware. 6. تاکہ تم اس قوم کو ڈر سناؤ جس کے باپ دادا نہ ڈرائے گئے (ف۴) تو وہ بے خبر ہیں
(ف۴) - یعنی ان کے پاس کوئی نبی نہ پہنچے اور قومِ قریش کا یہی حال ہے کہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے پہلے ان میں کوئی رسول نہیں آیا ۔
-------------------------------------------------------------------------------- 7. لَقَدْ حَقَّ الْقَوْلُ عَلٰۤی اَكْثَرِهِمْ فَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ۷
7. Undoubtedly, the word has been proved against most of them, so they shall not believe. 7. بیشک ان میں اکثر پر بات ثابت ہو چکی ہے (ف۵) تو وہ ایمان نہ لائیں گے (ف۶)
(ف۵) - یعنی حکمِ الٰہی و قضائے ازلی ان کے عذاب پر جاری ہو چکی ہے اور اللہ تعالٰی کا ارشاد'' لَاَ مْلَئَنَّ جَھَنَّمَ مِنَ الْجِنَّۃِ وَ النَّاسِ اَجْمَعِیْنَ '' ان کے حق میں ثابت ہو چکا ہے اور عذاب کا ان کے لئے مقرر ہو جانا اس سبب سے ہے کہ وہ کُفر و انکار پر اپنے اختیار سے مُصِر رہنے والے ہیں ۔
(ف۶) - اس کے بعد ان کے کُفر میں پختہ ہونے کی ایک تمثیل ارشاد فرمائی ۔
-------------------------------------------------------------------------------- 8. اِنَّا جَعَلْنَا فِیْۤ اَعْنَاقِهِمْ اَغْلٰلًا فَهِیَ اِلَی الْاَذْقَانِ فَهُمْ مُّقْمَحُوْنَ۸
8. We have put on their necks chains reaching to their chins, so they remained raising up their faces. 8. ہم نے ان کی گردنوں میں طوق کر دئیے ہیں کہ وہ ٹھوڑیوں تک ہیں تو یہ اب اوپر کو منھ اٹھائے رہ گئے (ف۷)
(ف۷) - یہ تمثیل ہے ان کے کُفر میں ایسے راسخ ہونےکی آیات و نُذر پند و ہدایت کسی سے وہ منتفع نہیں ہو سکتے جیسے کہ وہ شخص جن کی گردنوں میں غُل کی قِسم کا طوق پڑا ہو جو ٹھوڑی تک پہنچتا ہے اور اس کی وجہ سے وہ سر نہیں جھکا سکتے ، یہی حال ان کا ہے کہ کسی طرح ان کو حق کی طرف التفات نہیں ہوتا اور اس کے حضور سر نہیں جھکاتے اور بعض مفسِّرین نے فرمایا ہے کہ یہ ان کی حقیقتِ حال ہے ، جہنّم میں انہیں اسی طرح کا عذاب کیا جائے گا جیسا کہ دوسری آیت میں اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا'' اِذِ الْاَغْلَالُ فِیْ اَعْنَا قِہِمْ ''۔ شانِ نُزول : یہ آیت ابوجہل اور اس کے دو مخزومی دوستوں کے حق میں نازل ہوئی ابوجہل نے قَسم کھائی تھی کہ اگر وہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھے گا تو پتّھر سے سرکچل ڈالے گا جب اس نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھا تو وہ اسی ارادۂ فاسدہ سے ایک بھاری پتّھر لے کر آیا جب اس نے پتّھر کو اٹھایا تو اس کے ہاتھ گردن میں چِپکے رہ گئے اور پتّھر ہاتھ کو لپٹ گیا یہ حال دیکھ کر اپنے دوستوں کی طر ف واپس ہوا اور ان سے واقعہ بیان کیا تو اس کے دوست ولید بن مغیرہ نے کہا کہ یہ کام میں کروں گا اور ان کا سرکچل کر ہی آؤں گا چنانچہ وہ پتّھر لے آیا حضور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ابھی نماز ہی پڑھ رہے تھے ، جب یہ قریب پہنچا تو اللہ تعالٰی نے اس کی بینائی سلب کر لی حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی آواز سنتا تھا آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتا تھا ، یہ بھی پریشان ہو کر اپنے یاروں کی طرف لوٹا وہ بھی نظر نہ آئے انہوں نے ہی اسے پکار ا اور اس سے کہا کہ تو نے کیا کیا ؟ کہنے لگا میں نے ان کی آواز تو سنی مگر وہ نظر ہی نہیں آئے ، اب ابوجہل کے تیسرے دوست نے دعوٰی کیا کہ وہ اس کام کو انجام دے گا اور بڑے دعوے کے ساتھ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف چلا تھا کہ الٹے پاؤں ایسا بدحواس ہو کر بھاگا کہ اوندھے منھ گر گیا اس کے دوستوں نے حال پوچھا تو کہنے لگا کہ میرا حال بہت سخت ہے میں نے ایک بہت بڑا سانڈ دیکھا جو میرے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے درمیان حائل ہو گیا ، لات و عزّٰی کی قَسم اگر میں ذرا بھی آ گے بڑھتا تو وہ مجھے کھا ہی جاتا ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ (خازن و جمل)
-------------------------------------------------------------------------------- 9. وَ جَعَلْنَا مِنْۢ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ سَدًّا وَّ مِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا فَاَغْشَیْنٰهُمْ فَهُمْ لَا یُبْصِرُوْنَ۹
9. And We have set a barrier before them and a barrier behind them and covered them from above, therefore they see nothing. 9. اور ہم نے ان کے آگے دیوار بنا دی اور ان کے پیچھے ایک دیوار اور انہیں اوپر سے ڈھانک دیا تو انہیں کچھ نہیں سوجھتا (ف۸)
(ف۸) - یہ بھی تمثیل ہے کہ جیسے کسی شخص کے لئے دونوں طرف دیواریں ہوں اور ہر طرف سے راستہ بند کر دیا گیا ہو وہ کسی طرح منزلِ مقصود تک نہیں پہنچ سکتا یہی حال ان کُفّار کا ہے کہ ان پر ہر طرف سے ایمان کی راہ بند ہے سامنے ان کے غرورِ دنیا کی دیوار ہے اور ان کے پیچھے تکذیبِ آخرت کی اور وہ جہالت کے قید خانہ میں محبوس ہیں آیات و دلائل میں نظر کرنا انہیں میسّر نہیں ۔
-------------------------------------------------------------------------------- 10. وَ سَوَآءٌ عَلَیْهِمْ ءَاَنْذَرْتَهُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ۱۰
10. And it is equal for them whether you warn them or warn them not, they are not to believe. 10. اور انہیں ایک سا ہے تم انہیں ڈراؤ یا نہ ڈراؤ وہ ایمان لانے کے نہیں
-------------------------------------------------------------------------------- 11. اِنَّمَا تُنْذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّكْرَ وَ خَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ ۚ فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَّ اَجْرٍ كَرِیْمٍ۱۱
11. You warn only him who follows admonition and fears the Most Affectionate without seeing, so give him glad tiding of forgiveness and a respectable reward. 11. تم تو اسی کو ڈر سناتے ہو (ف۹) جو نصیحت پر چلے اور رحمٰن سے بے دیکھے ڈرے تو اسے بخشش اور عزت کے ثواب کی بشارت دو (ف۱۰)
(ف۹) - یعنی آپ کے ڈر سنانے اور خوف دلانے سے وہی نفع اٹھاتا ہے ۔
(ف۱۰) - یعنی جنّت کی ۔
-------------------------------------------------------------------------------- 12. اِنَّا نَحْنُ نُحْیِ الْمَوْتٰی وَ نَكْتُبُ مَا قَدَّمُوْا وَ اٰثَارَهُمْ ؔؕ وَ كُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ فِیْۤ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ۠۱۲
12. Undoubtedly, We shall give life to the dead and We are noting down what they have sent forward and what signs they have left behind and We have already kept counted every thing in a clean Book. 12. بیشک ہم مُردوں کو جِلائیں گے اور ہم لکھ رہے ہیں جو انہوں نے آگے بھیجا (ف۱۱) اور جو نشانیاں پیچھے چھوڑ گئے (ف۱۲) اور ہر چیز ہم نے گن رکھی ہے ایک بتانے والی کتاب میں (ف۱۳)
(ف۱۱) - یعنی دنیا کی زندگانی میں جو نیکی یا بدی کی تاکہ اس پر جزا دی جائے ۔
(ف۱۲) - یعنی اور ہم ان کی وہ نشانیاں ، وہ طریقے بھی لکھتے ہیں جو وہ اپنے بعد چھوڑ گئے خواہ وہ طریقے نیک ہوں یا بد ، جو نیک طریقے اُمّتی نکالتے ہیں ان کو بدعتِ حسنہ کہتے ہیں اور اس طریقے کو نکالنے والوں اور عمل کرنے والوں دونوں کو ثواب ملتا ہے اور جو بُرے طریقے نکالتے ہیں ان کو بدعتِ سیّئہ کہتے ہیں اس طریقے کے نکالنے والے اور عمل کرنے والوں دونوں گناہ گار ہوتے ہیں ۔ مسلم شریف کی حدیث میں ہے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا جس شخص نے اسلام میں نیک طریقہ نکالا اس کو طریقہ نکالنے کا بھی ثواب ملے گا اور اس پر عمل کرنے والوں کو بھی ثواب بغیر اس کے کہ عمل کرنے والوں کے ثواب میں کچھ کمی کی جائے اور جس نے اسلام میں بُرا طریقہ نکالا تو اس پر وہ طریقہ نکالنے کا بھی گناہ اور اس طریقہ پر عمل کرنے والوں کے بھی گناہ بغیر اس کے کہ ان عمل کرنے والوں کے گناہوں میں کچھ کمی کی جائے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ صدہا امورِ خیر مثلِ فاتحہ گیارہویں و تیجہ و چالیسواں و عرس و توشہ و ختم و محافلِ ذکرِ میلاد و شہادت جن کو بدمذہب لوگ بدعت کہہ کر منع کرتے ہیں اور لوگوں کو ان نیکیوں سے روکتے ہیں یہ سب درست اور باعثِ اجر و ثواب ہیں اور ان کو بدعتِ سیّئہ بتانا غلط و باطل ہے ۔ یہ طاعات اور اعمالِ صالحہ جو ذکر و تلاوت اور صدقہ و خیرات پر مشتمل ہیں بدعتِ سیّئہ نہیں ۔ بدعتِ سیّئہ وہ بُرے طریقے ہیں جن سے دین کو نقصان پہنچتا ہے اور جو سنّت کے مخالف ہیں جیسا کہ حدیث شریف میں آیا کہ جو قوم بدعت نکالتی ہے اس سے ایک سنّت اٹھ جاتی ہے تو بدعت سیّئہ وہی ہے جس سے سنّت اٹھتی ہو جیسے کہ رفض ، خروج ، وہابیّت یہ سب انتہا درجہ کی خراب سیّئہ بدعتیں ہیں ، رفض و خروج جو اصحاب و اہلِ بیتِ رسولُ اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی عداوت پر مبنی ہیں ، ان سے اصحاب و اہلِ بیت کے ساتھ مَحبت و نیاز مندی رکھنے کی سنّت اٹھ جاتی ہے جس کے شریعت میں تاکیدی حکم ہیں ، وہابیّت کی اصل مقبولانِ حق حضراتِ انبیاء و اولیاء کی جناب میں بے ادبی و گستاخی اور تمام مسلمانوں کو مشرک قرار دینا ہے ، اس سے بزرگانِ دین کی حرمت و عزّت اور ادب و تکریم اور مسلمانوں کے ساتھ اخوّت و مَحبت کی سنّتیں اٹھ جاتی ہیں جن کی بہت شدید تاکید یں ہیں اور جو دین میں بہت ضروری چیز یں ہیں اور اس آیت کی تفسیر میں یہ بھی کہا گیا کہ آثار سے مراد وہ قَدم ہیں جو نمازی مسجد کی طرف چلنے میں رکھتا ہے اور اس معنٰی پر آیت کی شانِ نزول یہ بیان کی گئی ہے کہ بنی سلمہ مدینہ طیّبہ کے کنارے پر رہتے تھے انہوں نے چاہا کہ مسجد شریف کے قریب آ بسیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور سیدِ عاَلم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے قَدم لکھے جاتے ہیں تم مکان تبدیل نہ کرویعنی جتنی دور سے آؤ گے اتنے ہی قدم زیادہ پڑیں گے اور اجر و ثواب زیادہ ہو گا ۔
(ف۱۳) - یعنی لوحِ محفوظ میں ۔
--------------------------------------------------------------------------------
|