اسلامی ویب
لوگو جمعرات, 2024-12-26, 1:09 AM
پڑھ! اپنے رب کے نام سے
خوش آمدید مہمان | آر ایس ایس
Site menu
Section categories
My files [115]
Our poll
Rate my site

Total of answers: 32
Chat Box
 
200
Statistics

ٹوٹل آن لائن 1
مہمان 1
صارف 0

سورۂ نور مدنیّہ
2010-11-11, 0:32 AM


اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا (ف۱)
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

(ف۱) - سورۂ نور مدنیّہ ہے اس میں نور کوع چونسٹھ آیتیں ہیں ۔

--------------------------------------------------------------------------------
1. یہ ایک سورت ہے کہ ہم نے اتاری اور ہم نے اس کے احکام فرض کئے (ف۲) اور ہم نے اس میں روشن آیتیں نازل فرمائیں کہ تم دھیان کرو
1. سُوْرَةٌ اَنْزَلْنٰهَا وَ فَرَضْنٰهَا وَ اَنْزَلْنَا فِیْهَاۤ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ لَّعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ۝۱

(ف۲) - اور ان پر عمل کرنا بندوں پر لازم کیا ۔

--------------------------------------------------------------------------------
2. جو عورت بدکار ہو اور جو مرد تو ان میں ہر ایک کو سو (۱۰۰) کوڑے لگاؤ (ف۳) اور تمہیں ان پر ترس نہ آئے اللہ کے دین میں (ف۴) اگر تم ایمان لاتے ہو اللہ اور پچھلے دن پر اور چاہیے کہ ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کا ایک گروہ حاضر ہو (ف۵)
2. اَلزَّانِیَةُ وَ الزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ ۪ وَّ لَا تَاْخُذْكُمْ بِهِمَا رَاْفَةٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ۚ وَ لْیَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَآىِٕفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۝۲

(ف۳) - یہ خِطاب حُکام کو ہے کہ جس مرد یا عورت سے زنا سرزد ہو اس کی حد یہ ہے کہ اس کے سو کوڑے لگاؤ ، یہ حد حُر غیر محصِن کی ہے کیونکہ حُر محصِن کا حکم یہ ہے کہ اس کو رَجم کیا جائے جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہے کہ ماعِز رضی اللہ تعالٰی عنہ کو بحکمِ نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رَجم کیا گیا اور محصِن وہ آزاد مسلمان ہے جو مکلَّف ہو اور نکاحِ صحیح کے ساتھ صحبت کر چکا ہو خواہ ایک ہی مرتبہ ایسے شخص سے زنا ثابت ہو تو رجم کیا جائے گا اور اگر ان میں سے ایک بات بھی نہ ہو مثلاً حُر نہ ہو یا مسلمان نہ ہو یا عاقل بالغ نہ ہو یا اس نے کبھی اپنی بی بی کے ساتھ صحبت نہ کی ہو یا جس کے ساتھ کی ہو اس کے ساتھ نکاحِ فاسد ہوا ہو تو یہ سب غیر محصِن میں داخل ہیں اور ان سب کا حکم کوڑے مارنا ہے ۔ مسائل : مرد کو کوڑے لگانے کے وقت کھڑا کیا جائے اور اس کے تمام کپڑے اتار دیئے جائیں سوا تہبند کے اور اس کے تمام بدن پر کوڑے لگائے جائیں سوائے سر چہرے اور شرم گاہ کے ، کوڑے اس طرح لگائے جائیں کہ اَلم گوشت تک نہ پہنچے اور کوڑا متوسط درجہ کا ہو اور عورت کو کوڑے لگانے کے وقت کھڑا نہ کیا جائے نہ اس کے کپڑے اتارے جائیں البتہ اگر پوستین یا روئی دار کپڑے پہنے ہوئے ہو تو اتار دیئے جائیں ، یہ حکم حُر اور حُرہ کا ہے یعنی آزاد مرد اور عورت کا اور باندی غلام کی حد اس سے نصف یعنی پچاس کوڑے ہیں جیسا کہ سورۂ نساء میں مذکور ہو چکا ۔ ثبوتِ زنا یا تو چار مردوں کی گواہیوں سے ہوتا ہے یا زنا کرنے والے کے چار مرتبہ اقرار کر لینے سے پھر بھی امام بار بار سوال کرے گا اور دریافت کرے گا کہ زنا سے کیا مراد ہے کہاں کیا ، کس سے کیا ، کب کیا ؟ اگر ان سب کو بیان کر دیا تو زنا ثابت ہو گا ورنہ نہیں اور گواہوں کو صراحتہً اپنا معائنہ بیان کرنا ہوگا بغیر اس کے ثبوت نہ ہوگا ۔ لواطت زنا میں داخل نہیں لہذا اس فعل سے حد واجب نہیں ہوتی لیکن تعزیر واجب ہوتی ہے اور اس تعزیر میں صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم کے چند قول مروی ہیں (۱) آ گ میں جلا دینا (۲) غرق کر دینا (۳) بلندی سے گرانا اور اوپر سے پتھر برسانا، فاعل و مفعول دونوں کا ایک ہی حکم ہے ۔ (تفسیرِ احمدی)

(ف۴) - یعنی حدود کے پورا کرنے میں کمی نہ کرو اور دین میں مضبوط اور متصلب رہو ۔

(ف۵) - تاکہ عبرت حاصل ہو ۔

--------------------------------------------------------------------------------
3. بدکار مرد نکاح نہ کرے مگر بدکار عورت یا شرک والی سے اور بدکار عورت سے نکاح نہ کرے مگر بدکار مرد یا مشرک (ف۶) اور یہ کام (ف۷) ایمان والوں پر حرام ہے (ف۸)
3. اَلزَّانِیْ لَا یَنْكِحُ اِلَّا زَانِیَةً اَوْ مُشْرِكَةً ؗ وَّ الزَّانِیَةُ لَا یَنْكِحُهَاۤ اِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْرِكٌ ۚ وَ حُرِّمَ ذٰلِكَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ۝۳

(ف۶) - کیونکہ خبیث کا میلان خبیث ہی کی طرف ہوتا ہے ، نیکوں کو خبیثوں کی طرف رغبت نہیں ہوتی ۔ شانِ نُزول : مہاجرین میں بعضے بالکل نادار تھے نہ ان کے پاس کچھ مال تھا نہ ان کا کوئی عزیز قریب تھا اور بدکار مشرکہ عورتیں دولت مند اور مالدار تھیں یہ دیکھ کر کسی مہاجر کو خیال آیا کہ اگر ان سے نکاح کر لیا جائے تو ان کی دولت کام میں آئے گی سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے انہوں نے اس کی اجازت چاہی ۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازِل ہوئی اور انہیں اس سے روک دیا گیا ۔

(ف۷) - یعنی بدکاروں سے نکاح کرنا ۔

(ف۸) - ابتدائے اسلام میں زانیہ سے نکاح کرنا حرام تھا بعد میں آیت '' وَانْکِحُواالّاَ یَامٰی مِنْکُمْ'' سے منسوخ ہو گیا ۔

--------------------------------------------------------------------------------
4. اور جو پارسا عورتوں کو عیب لگائیں پھر چار (۴) گواہ معائنہ کے نہ لائیں تو انہیں اسّی (۸۰) کوڑے لگاؤ اور ان کی گواہی کبھی نہ مانو (ف۹) اور وہی فاسق ہیں
4. وَ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْا بِاَرْبَعَةِ شُهَدَآءَ فَاجْلِدُوْهُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَةً وَّ لَا تَقْبَلُوْا لَهُمْ شَهَادَةً اَبَدًا ۚ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَۙ۝۴

(ف۹) - اس آیت سے چند مسائل ثابت ہوئے ۔ مسئلہ ۱ : جو شخص کسی پارسا مرد یا عورت کو زنا کی تہمت لگائے اور اس پر چار معائنہ کے گواہ پیش نہ کر سکے تو اس پر حد واجب ہو جاتی ہے اسی۸۰ کوڑے ۔ آیت میں محصَنات کا لفظ خصوصِ واقعہ کے سبب سے وارد ہوا یا اس لئے کہ عورتوں کو تہمت لگانا کثیر الوقوع ہے ۔ مسئلہ ۲ : اور ایسے لوگ جو زنا کی تہمت میں سزا یاب ہوں اور ان پر حد جاری ہو چکی ہو مردود الشہادۃ ہو جاتے ہیں کبھی ان کی گواہی مقبول نہیں ہوتی ۔ پارسا سے مراد وہ ہیں جو مسلمان مکلَّف آزاد اور زنا سے پاک ہوں ۔ مسئلہ۳ : زنا کی شہادت کا نصاب چار گواہ ہیں ۔ مسئلہ۴ : حدِ قذف مطالبہ پر مشروط ہے جس پر تہمت لگائی گئی ہے اگر وہ مطالبہ نہ کرے تو قاضی پر حد قائم کرنا لازم نہیں ۔ مسئلہ ۵ : مطالبہ کا حق اسی کو ہے جس پر تہمت لگائی گئی ہے اگر وہ زندہ ہو اور اگر مر گیا ہو تو اس کے بیٹے پوتے کو بھی ہے ۔ مسئلہ ۶ : غلام اپنے مولٰی پر اور بیٹا باپ پر قذف یعنی اپنی ماں پر زنا کی تہمت لگانے کا دعوٰی نہیں کر سکتا ۔ مسئلہ ۷ : قذف کے الفاظ یہ ہیں کہ وہ صراحتہً کسی کو یا زانی کہے یا یہ کہے کہ تو اپنے باپ سے نہیں ہے یا اس کے باپ کا نام لے کر کہے کہ تو فلاں کا بیٹا نہیں ہے یا اس کو زانیہ کا بیٹا کہہ کر پکارے اور ہو اس کی ماں پارسا تو ایسا شخص قاذِف ہو جائے گا اور اس پر تہمت کی حد آئے گی ۔ مسئلہ ۸ : اگر غیر محصن کو زنا کی تہمت لگائی مثلاً کسی غلام کو یا کافِر کو یا ایسے شخص کو جس کا کبھی زنا کرنا ثابت ہو تو اس پر حدِ قذف قائم نہ ہوگی بلکہ اس پر تعزیر واجب ہو گی اور یہ تعزیر تین سے انتالیس تک حسبِ تجویزِ حاکمِ شرع کوڑے لگانا ہے اسی طرح اگر کسی شخص نے زنا کے سوا اور کسی فجور کی تہمت لگائی اور پارسا مسلمان کو اے فاسق ، اے کافِر ، اے خبیث ، اے چور ، اے بدکار ، اے مخنّث ، اے بددیانت ، اے لوطی ، اے زندیق ، اے دیّوث ، اے شرابی ، اے سود خوار ، اے بدکار عورت کے بچے ، اے حرام زادے ، اس قسم کے الفاظ کہے تو بھی اس پر تعزیر واجب ہو گی ۔ مسئلہ ۹ : امام یعنی حاکمِ شرع کو اور اس شخص کو جسے تہمت لگائی گئی ہو ثبوت سے قبل معاف کرنے کا حق ہے ۔ مسئلہ ۱۰ : اگر تہمت لگانے والا آزاد نہ ہو بلکہ غلام ہو تو اس کے چالیس کوڑے لگائے جائیں گے ۔ مسئلہ ۱۱ : تہمت لگانے کے جرم میں جس کو حد لگائی گئی ہو اس کی گواہی کسی معاملہ میں معتبر نہیں چاہے وہ توبہ کرے لیکن رمضان کا چاند دیکھنے کے باب میں توبہ کرنے اور عادل ہونے کی صورت میں اس کا قول قبول کر لیا جائے گا کیونکہ یہ درحقیقت شہادت نہیں ہے اسی لئے اس میں لفظِ شہادت اور نصابِ شہادت بھی شرط نہیں ۔

--------------------------------------------------------------------------------
5. مگر جو اس کے بعد توبہ کر لیں اور سنور جائیں (ف۱۰) تو بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے
5. اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ وَ اَصْلَحُوْا ۚ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۝۵

(ف۱۰) - اپنے احوال و افعال کو درست کر لیں ۔

--------------------------------------------------------------------------------
6. اور وہ جو اپنی عورتوں کو عیب لگائیں (ف۱۱) اور ان کے پاس اپنے بیان کے سوا گواہ نہ ہوں تو ایسے کسی کی گواہی یہ ہے کہ چار (۴) بار گواہی دے اللہ کے نام سے کہ وہ سچا ہے (ف۱۲)
6. وَ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ اَزْوَاجَهُمْ وَ لَمْ یَكُنْ لَّهُمْ شُهَدَآءُ اِلَّاۤ اَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ اَحَدِهِمْ اَرْبَعُ شَهٰدٰتٍۭ بِاللّٰهِ ۙ اِنَّهٗ لَمِنَ الصّٰدِقِیْنَ۝۶

(ف۱۱) - زنا کا ۔

(ف۱۲) - عورت پر زنا کا الزام لگانے میں ۔

--------------------------------------------------------------------------------
7. اور پانچویں یہ کہ اللہ کی لعنت ہو اس پر اگر جھوٹا ہو
7. وَ الْخَامِسَةُ اَنَّ لَعْنَتَ اللّٰهِ عَلَیْهِ اِنْ كَانَ مِنَ الْكٰذِبِیْنَ۝۷


--------------------------------------------------------------------------------
8. اور عورت سے یوں سزا ٹل جائے گی کہ وہ اللہ کا نام لے کر چار (۴) بار گواہی دے کہ مرد جھوٹا ہے (ف۱۳)
8. وَ یَدْرَؤُا عَنْهَا الْعَذَابَ اَنْ تَشْهَدَ اَرْبَعَ شَهٰدٰتٍۭ بِاللّٰهِ ۙ اِنَّهٗ لَمِنَ الْكٰذِبِیْنَۙ۝۸

(ف۱۳) - اس پر زنا کی تہمت لگانے میں ۔

--------------------------------------------------------------------------------
9. اور پانچویں یوں کہ عورت پر غضب اللہ کا اگر مرد سچا ہو (ف۱۴)
9. وَ الْخَامِسَةَ اَنَّ غَضَبَ اللّٰهِ عَلَیْهَاۤ اِنْ كَانَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ۝۹

(ف۱۴) - اس کو لِعان کہتے ہیں ۔ مسئلہ : جب مرد اپنی بی بی پر زنا کی تہمت لگائے تو اگر مرد و عورت دونوں شہادت کے اہل ہوں اور عورت اس پر مطالبہ کرے تو مرد پر لعان واجب ہو جاتا ہے اگر وہ لِعان سے انکار کرے تو اس کو اس وقت تک قید رکھا جائے گا جب تک وہ لعان کرے یا اپنے جھوٹ کا مُقِر ہو اگر جھوٹ کا اقرار کرے تو اس کو حدِ قذف لگائی جائے گی جس کا بیان اوپر گزر چکا ہے اور اگر لِعان کرنا چاہے تو اس کو چار مرتبہ اللہ کی قسم کے ساتھ کہنا ہو گا کہ وہ اس عورت پر زنا کا الزام لگانے میں سچا ہے اور پانچویں مرتبہ کہنا ہوگا کہ اللہ کی لعنت مجھ پر اگر میں یہ الزام لگانے میں جھوٹا ہوں اتنا کرنے کے بعد مرد پر سے حدِ قذف ساقط ہو جائے گی اور عورت پر لِعان واجب ہو گا انکار کرے گی تو قید کی جائے گی یہاں تک کہ لِعان منظور کرے یا شوہر کے الزام لگانے کی تصدیق کرے اگر تصدیق کی تو عورت پر زنا کی حد لگائی جائے گی اور اگر لِعان کرنا چاہے تو اس کو چار مرتبہ اللہ کی قسم کے ساتھ کہنا ہو گا کہ مرد اس پر زنا کی تہمت لگانے میں جھوٹا ہے اور پانچویں مرتبہ یہ کہنا ہو گا کہ اگر مرد اس الزام لگانے میں سچا ہو تو مجھ پر خدا کا غضب ہو اتنا کہنے کے بعد عورت سے زنا کی حد ساقط ہو جائے گی اور لعان کے بعد قاضی کے تفریق کرنے سے فرقت واقع ہو گی بغیر اس کے نہیں اور یہ تفریق طلاقِ بائنہ ہو گی اور اگر مرد اہلِ شہادت میں سے نہ ہو مثلاً غلام ہو یا کافِر ہو یا اس پر قذف کی حد لگ چکی ہو تو لِعان نہ ہوگا اور تہمت لگانے سے مرد پر حدِ قذف لگائی جائے گی اور اگر مرد اہلِ شہادت میں سے ہو اور عورت میں یہ اہلیت نہ ہو اس طرح کہ وہ باندی ہو یا کافِرہ ہو یا اس پر قذف کی حد لگ چکی ہو یا بچی ہو یا مجنونہ ہو یا زانیہ ہو اس صورت میں نہ مرد پر حد ہوگی اور نہ لِعان ۔ شانِ نُزول : یہ آیت ایک صحابی کے حق میں نازِل ہوئی جنہوں نے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا تھا کہ اگر آدمی اپنی عورت کو زنا میں مبتلا دیکھے تو کیا کرے نہ اس وقت گواہوں کے تلاش کرنے کی فرصت ہے اور نہ بغیر گواہی کے وہ یہ بات کہہ سکتا ہے کیونکہ اسے حدِ قذف کا اندیشہ ہے ۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازِل ہوئی اور لِعان کا حکم دیا گیا ۔

--------------------------------------------------------------------------------
10. اور اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی اور یہ کہ اللہ توبہ قبول فرماتا حکمت والا ہے
10. وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ رَحْمَتُهٗ وَ اَنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ حَكِیْمٌ۠۝۱۰


--------------------------------------------------------------------------------

Category: My files | Added by: loveless
Views: 18726 | Downloads: 0 | Rating: 10.0/1


Log In
Search
Site friends
عصمت اللہ عصمت ڈینہ