بعض وہ لوگ جو ہر چیز کو مادی مفاد کی نظر سے ہی دیکھتے ہیں انہوں نے اس شادی کو بھی مادی پہلو سے ہی دیکھا ہے اور یہ ظاہر کیا ہے:
چونکہ حضرت خدیجہ کو تجارتی امور کے لیے کسی مشہور و معروف اور معتبر شخص کی ضرورت تھی اس لیے انہوں نے پیغمبر اکرم سے شادی کا پیغام بھیجا۔ دوسری طرف پیغمبر اکرم یتیم و نادار تھے اور حضرت خدیجہ کی شرافتمانہ زندگی سے وافق تھے اسی لیے ان کی دولت حاصل کرنے کی غرض سے یہ رشتہ منظور کرلیا گیا، اگرچہ سن کے اعتبار سے دونوں کی عمروں میں کافی فرق تھا۔
اس کے برعکس اگر تاریخ کے اوراق کا مطالعہ کیا جائے تو اس شادی کے محرکات میں بہت سے معنوی پہلو شامل تھے۔ اس سلسلے میں ہم یہاں پہلے پیغمبر خدا کی اور بعد میں حضرت خدیجہ کی نمائندگی کرتے ہوئے ذیل میں چند نکات بیان کرتے ہیں:
اول تو پیغمبر کی پوری زندگی ہمیں زہد و تقویٰ و معنوی اقدار سے پر نظر آتی ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ آنحضرت کی نظر میں دنیوی مال و دولت اور جاہ و حشم کی کوئی قدر و قیمت نہ تھی اور آپ نے حضرت خدیجہ کی دولت کو کبھی بھی اپنے ذاتی آرام و آسائش کی خاطر استعمال نہیں کیا۔
دوسرے اس شادی کی پیشکش حضرت خدیجہ نے کی تھی نہ کہ رسول اکرم نے۔
اب ہم یہاں حضرت خدیجہ کی جانب سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں:
حضرت خدیجہ عفیف و پاکدامن خاتون تھیں اور انہیں متقی و پرہیزگار شوہر کی تلاش تھی۔
دوسرے یہ کہ ملک شام سے واپس آنے کے بعد جب ”میسرہ“ غلام نے سفر کے واقعات حضرت خدیجہ کو بتائے تو ان کے دل میں ”امین قریش“ کے لیے جذبہ محبت و الفت بڑھ گیا چنانچہ اس محبت کا سرچشمہ پیغمبر اکرم کے کمالات نفسانی اور اخلاقی فضائل تھے اور حضرت خدیجہ کو ان ہی کمالات سے تعلق اور واسطہ تھا۔
تیسرے یہ کہ پیغمبر اکرم سے شادی کرنے کے بعد حضرت خدیجہ نے آپ کو سفر تجارت پر جانے کی ترغیب نہیں دلائی۔ اگر انہوں نے یہ شادی اپنے مال و دولت میں اضافہ کرنے کی غرض سے کی ہوتی تو وہ رسول ااکرم کو ضرور سفر پر روانہ کرتیں تاکہ مال و دولت میں اضافہ ہوسکے۔ اس کے برعکس حضرت خدیجہ نے اپنی دولت آنحضرت کے حوالے کر دی تھی تاکہ اسے آپ ضرورت مند لوگوں پر خرچ کریں۔
حضرت خدیجہ نے رسولِ خدا سے گفتگو کرتے ہوئے شادی کی درخواست کے اصل محرک کو اس طرح بیان کیا ہے۔
اے میرے چچا کے بیٹے!
چونکہ میں نے تمہیں ایک شریف، دیانتدار، خوش خلق اور راست گو انسان پایا تو میں تمہاری جانب مائل ہوئی اور شادی کے لیے پیغام بھیجا۔