[c]تاریخ اہل حدیث
مولاناسید بدیع الدین شاہ راشدی رحمة اللہ علیہ
جماعت اہل حدیث ایک قدیم جماعت ہے جس کے امام ‘مرشد اور قائد صرف رسو ل اللہ ﷺ ہیں ۔صحابہ کرام ؓ کے دور سے آج تک یہ جماعت موجود ہے ۔
مولانا محمد ادریس کاندھلوی اپنے رسالہ ”اجتہاد وتقلید “میں لکھتے ہیں کہ اہلحدیث تو تمام صحابہ کرام ؓ تھے ۔امام عامر بن شرجیل جو کبار تابعین میں سے ہیں ‘ان کی پانچ سو صحابہ کرام ؓ سے ملاقات ہوئی ۔(تہذیب )اور وہ 48صحابہ کرام ؓ کے شاگرد تھے اور ان سے احادیث روایت کرتے تھے ۔(تاریخ بغدادی ‘تہذیب )وہ تقریباً 31ھ میں پیدا ہوئے اور تقیباً 110ھ میں انتقال ہوا ۔وہ پہلی اور دوسری صدی کی ابتداءکی شخصیت تھے ‘وہ فرماتے ہیں :
لَوِاستَقبَلتُ مِن اَمرِی مَااستَدبَرتُ مَا حَدَّثتُ اِلَّا بِمَا اَجمَعُ عَلَیہِ اَھلُ الحَدِیثِ(تذکرة الحفاظ)
یعنی جو کچھ میرے ذہن میں ہے اور میں نے سمجھا ہے اگر پہلے خیال میں آتا تو صرف وہ احادیث پڑھاتا جن پر اہلحدیث کا اجماع اور اتفاق ہے ۔اس سے واضح ہوا کہ صحابہ کرام ؓ اور تابعین کے زمانے میں جماعت اہلحدیث موجود تھی ۔امام محمد بن مسلم بن شہاب الزہری المتوفی124ھ ایک دن باہر نکلے تو پکار کر کہا اے اہلحدیث تم کہاں ہو؟۔ پھر انہیں چار سو احادیث پڑھائیں ۔(تذکرہ )حنفی مذہب کے رکن عظیم امام محمد بن حسن شیبانی المتوفی اپنی مشہور کتا ب الموطا 363 باب الیمین مع الشاہد میں فرماتے ہیں :۔
فَکَانَ ابنُ الشِّھَابِ اَعلَمَ عِندَاَہلِ الحَدِیثِ بِالمَدِینَةِ مِن غَیرِہ فِیھَای
عنی امام ابن شہاب زہری مدینہ منورہ کے اہلحدیث کے نزدیک سب سے زیادہ عالم تھے ۔واضح ہو کہ اس وقت یعنی دوسری صدی میں مدینہ طیبہ میں جماعت اہلحدیث کامرکزی تھا ۔کیوں نہ ہو ان کے امام اعظم محمد ﷺ نے نبوت کے آخری دس سال وہاں گزارے اور اسلامی سلطنت قائم کی ۔حنفیت کے دوسرے رکن قاضی ابو یوسف المتوفی 182ھ ایک دن باہر نکلے اور انہوں نے اہلحدیث کو دیکھ کر فرمایا :۔
(ترجمہ )زمین پر تم سے بہتر کوئی نہیں کیوں کہ تم صرف رسول اللہ ﷺ کی احادیث سنتے اور سیکھتے ہو ۔امام حفص بن غیاث المتوفی 194ھ(تقریباً) فرماتے ہیں ”خیر اہل الدنیا“یعنی پوری دنیا میں بہترین جماعت اہلحدیث ہے ۔
اِمَامُ اللُّغَةِ وَالنَّحوِ خَلِیلُ بنُ اَحمَدَالفَرَاھِیدِیُّ المُتَوَفّٰی 164ھ(تقریباً ) فرماتے ہیں ۔اہلحدیث ولی اللہ ہیں ۔اگریہ ولی اللہ نہیں تو پھر اللہ کا کوئی ولی نہیں ہے ۔فقیہ الوقت امام سفیان ثوری ؒ المتوفی 162ھ( تقریباً ) فرماتے ہیں فرشتے آسما ن کے اور اہلحدیث زمین کے محافظ ہیں ۔یعنی یہی دین کے د عوت دینے والے اور تحریر و تقریر سے اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔نیز فرماتے ہیںان کے یہ نیک کافی ہے کہ وہ دیکھنے پڑھنے کے وقت درود شریف لکھتے اور پڑھتے رہتے ہیں ۔مشہور زاہد امام فضیل بن عیاض المتوفی 187ھ اہل حدیث کو دیکھ کر فرمانے لگے ۔ ”یَا وَرَثَةَ الاَنبِیَائِ“ یعنی اے انبیاءکے وارثو ! خلیفہ ہارون الرشید المتوفی 193ھ کہتے ہیں کہ چار صفات
مجھے چار جماعتوں میں ملیں ۔کفر بہیمہ میں ‘بحث اور جھگڑا ‘معتزلہ میں ‘جھوٹ ‘ رافضیوں میں اور حق ،اہلحدیث میں ۔امام محدث عبد اللہ بن مبارک ؒ المتوفی 180 ھ فرماتے ہیں کہ قیامت میں پل صراط پر سب سے زیادہ ثابت قدم اہل حدیث ہوں گے جب اپنے چھوٹے بچوں کے ہاتھوں میں احادیث لکھنے کی سیاہی دیکھتے تو فرماتے کہ یہ دین کے درخت کے پودے ہیں ۔آج اگر چھوٹے ہیں تو آخر بڑے ہوں گے ۔امام حماد بن زید المتوفی179 ھ فرماتے ہیں کہ اہلحدیث کا ذکر قرآن کریم میں ہے اور یہ آیت تلاوت کی فَلَو لَا نَفَرَ مِن کُلِّ فِرقَةِ مِّنھُم طَائِفَة لِّیَتَفَقَّھُوا فِی الدِّینِ وَ لِیُنذِرُ وا قَومَھُم اِذَا رَجَعُوا اِلَیھِم لَعَلَّھُم یَحذَرُوا یعنی ہر قوم سے ایک جماعت نکلے تاکہ دین کو سیکھیں ‘سمجھیں اور واپس آکر دوسروں کو سکھائیں او ڈرائیں تاکہ ان میں خوف پیدا ہو ۔مشہور زاہد ابراہیم بن ادھم المتوفی 168ھ فرماتے ہیں کہ اہلحدیث کے دوروں کے سبب اللہ تعالیٰ اس امت سے مصیبتوں کو ٹال دیتا ہے ۔
امام الجرح والتعدیل یحییٰ بن سعید القطان المتوفی ھ198تو ہمیشہ اہل حدیث کی صحبت سے مسرور اور لطف اندوز ہوتے تھے ۔
یہ اقوال شرف اصحاب الحدیث اہلحدیث سے لئے گئے ہیں ۔یہ تمام محدثین پہلی اور دوسری صدی کے ہیں ۔ان میں صحابہ کرام ؓ بھی ہیں تابعین ؒ اور کچھ تبع تابعین ؒ بھی ہیں ۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پہلی دونوں صدیوں یعنی خیر القرون کے زمانے میں جماعت اہلحدیث بڑی کثرت سے موجود اور معروف تھی ۔
تیسر ی صدی میں بھی یہ جماعت کثرت سے موجود تھی ۔امام شافعی ؒ المتوفی204 ھ فرماتے ہیں کسی اہلحدیث کو دیکھتا ہوں تو سمجھتا ہوں کہ نبی ﷺ کو زندہ دیکھ رہا ہوں ۔(شرف)
امام عبد الرزاق صاحب المصنف المتوفی 213ھ امام ابوداﺅد الطیاسی المتوفی 204ھ اور امام احمد بن حنبل المتوفی 241ھ فرقوں والی حدیث جس میں ہے کہ یہ امت فرقے ہو گی ۔ان میں ایک جنت میں جائے گا کے سلسلہ میں فرماتے ہیں کہ یہ جماعت اہلحدیث ہے ار فرماتے ہیں
لَیسَ قَوم عِندِی خَیر مِّن اَھلِ الحَدِیثِ لَیسَ یَعرِفُونَ اِلَّا الحَدِیثَ یعنی میرے نزدیک اہلحدیث سے زیادہ بہتر اور کوئی قوم نہیں کیوں کہ یہ حدیث کے سوا اور کوئی بات نہیں جانتے ۔جب ان سے کہا گیا کہ فلاں کہتے ہیں کہ اہلحدیث بری قوم ہے تو جواب میں کہا کہ یہ کہنے والے زندیق اور ملحد ہیں ۔
اسحق بن موسی الخطمی المتوفی224 ھ فرمتے ہیں کہ آیت یعنی وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُم دِینَھُمُ الَّذِی ارتَضٰی لَھُم(النور) اللہ تعالیٰ انہیں اپنے پسند کئے ہوئے دین میں قوت عطاءفرمائے گا ۔اس کامصداق اہلحدیث ہیں کیوں کہ ان کی پیش کی ہوئی ایک ایک حدیث دنیا قبول کرتی ہے لیکن اہل الرائے کی حدیث مقبول نہیں ہوتی ۔
عبد اللہ بن داﺅد الخریبی المتوفی213 ھ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے اساتذہ سے سنا کہ اہلحدیث اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے دین کے امین ہیں یعنی علم وعمل میں رسول اللہ ﷺ کے دین کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔
ولید الکرابیسی المتوفی214 ھ نے انتقال کے وقت اپنی اولاد سے پوچھا کیا تم مجھے سچا سمجھتے ہو ؟۔انہوں نے کہا ہان ۔فرمایا جماعت
اہلحدیث کی صحبت میں رہنا کیوں کہ میں نے حق ان کے پاس دیکھا ہے ۔امام ابو رجاءقتیبہ بن سعید المتوفی
240ھ فرماتے ہیں جس شخص کو دیکھو کہ وہ اہلحدیث مثلاً یحییٰ بن سعید القطان ‘عبد الرحمن بن مہدی ‘احد بن حنبل ‘اسحق بن راہویہ رحمھم اللہ وغیرہ سے محبت کرتا ہے تو سمجھ لو کہ وہ اہل سنت ہے اور جسے ان کی مخالفت کرتے دیکھو تو ان کو بدعتی سمجھو ۔
امام یزید بن ہارون المتوفی 206ھ اس حدیث کو کہ ایک جماعت ہمیشہ حق پر قائم رہے گی کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ وہ جماعت اہلحدیث ہے ۔امام ابو عبد اللہ الحمیدی المتوفی 213ھ‘امام ابوعبید القاسم بن سلام البغدادی المتوفی224 ھ‘امام الجرح والتعدیل یحییٰ بن معین المتوفی233 ھ‘محمد بن سعد الواقدی المتوفی 230ھ‘امام ابوبکر بن ابی شیبہ المتوفی235 ھ‘امام مسلم المتوفی اپنی صحیح کے مقدمہ میں لکھتے ہیں کہ میں یہاں اہلحدیث کا مذہب بیان کرتا ہوں ۔امام نسائی المتوفی230 ھ‘امام ابوداﺅد المتوفی 275ھ‘امام محمد بن نصر المروزی المتوفی294 ھ‘امام ابو اسحاق ابراہیم الحربی المتوفی285 ھ‘امام عبد اللہ بن احمد بن حنبل المتوفی 290ھ‘امام بقی بن مخلد القرطبی الاندلسی المتوفی 276ھ‘جب مذہب اہلحدیث کی اشاعت کرنے لگے ‘تب اندلس کے بدعتیوں نے ان سے تعصب کرنا شروع کیا لیکن اندلس کے امیر عبد الرحمن نے ان کی حمایت کی اور علم کی اشاعت کرنے کے لئے کہا ۔وہ کہتے ہیں کہ میں نے یہاں مذہب اہلحدیث کا درخت لگا دیا ہے جسے دجال کے سوا کوئی نہیں نکال سکتا ۔(تذکرہ )
بحمد اللہ عیسائیوں کی حکومت کے باوفود اسپین میں آج تک اہلحدیث جماعت موجود ہے ۔
امام ابن قتیبہ المتوفی276 ھ جنہوں نے مشہور کتاب (تاویل مختلف الحدیث فی الرد علی اعداءاہل الحدیث)تصنیف کی ہے جس میں اہلحدیث کی شان زور وشور سے بیان کی گئی ہے اور اہل الرائے کی زبردست تردید کی گئی ہے ۔
امام ابوبکر بن ابی عاصم المتوفی280 ھ‘امام علی بن المدینی المتوفی234 ھ اس حدیث کہامت میں ایک جماعت ہمیشہ حق پر قائم رہے گی کے سلسلے میں فرماتے ہیں کہ وہ جماعت اہل حدیث ہے ۔
مکی تصنیفات کی فہرست میں ایک کتاب مزہب المحدثین بھی ہے (علوم الحدیث )
عبد اللہ بن عثمان لقب عبدان المتوفی 222ھ جنہیں امام الحدیث کہا جاتا ہے (تہذیب)
حدیث ”طوبی للغرباء“کے بارے میں فرماتے ہیں اس سے متقدمین اہلحدیث مراد ہیں ۔احمد بن سنان القطان المتوفی258 ھ فرماتے ہیں کہ دنیا میں جو بدعتی ہے وہ اہلحدیث سے بغض رکھتا ہے ۔امام عثمان بن سعید الدارمی المتوفی 280ھ وغیر ہم مختلف علاقوں کے ہیں اور اپنے اپنے علاقے کے متعلق یہ خبر دیتے ہیں کہاس صدی میں ملک کے ہر حصے میں جماعت اہل حدیث بکثرت موجود تھی ۔
چوتھی صدی میں بھی جماعت اہلحدیث کا دور دورہ تھا ۔امام ابو احمد الحاکم المتوفی 278ھ جنہوں نے کتاب شعار اصحاب الحدیث تصنیف کر کے جماعت اہلحدیث کا تعارف کروایا اور ان کے عقائد اور مسائل ذکر کیے۔
امام ابو القاسم الطبرانی ‘امام ابن حبان البتی المتوی ھ ‘امام ابو الحسن الدار قطنی المتوفی385 ھ جن سے امام ابو الحسن اشعری المتوفی 320ھ نے مذہب اہلحدیث کی تعلیم حاصل کی ۔ان کی کتاب الابانة مشہور ہے ۔دوسری کتاب مقالات الاسلامیین بھی ہے ۔جس میں اہلحدیث کاتعارف ‘ان کے مسائل اور عقائد دلائل کے ساتھ ثابت کیے ہیں ۔
امام ابو الولید بن محمد المتوفی 340ھ سارے خراسان میں مذہب اہلحدیث کے امام سمجھے جاتے تھے(مختصر نیشا پور ) امام حافظ ابن عدی الجرجانی المتوفی375 ھ‘امام ابوبکر الاسماعیلی جو اہلحدیث کے عقائد بیان کرتے ہیں (تذکرہ )
امام ابو جعفر عقیلی المتوفی332 ھ‘ امام ابن مندہ المتوفی301 ھ‘ابو مزاحم الخاقانی المتوفی 325ھ‘نے اہلحدیث کی شان میں ایک قصیدہ کہا ہے ۔ایک شعر یہ ہے :۔
اَہلُ الحَدِیثِ ھُمُ النَّاجُنَ اِن عَمِلُوا
بِہ اِذَا مَا اَتیٰ عَن کُلِّ مُؤتَمِن
یعنی اہلحدیث ہی نجا ت یافتہ جماعت ہے ۔اگر وہ حدیث پر عامل رہے کیوں کہ یہ حدیث بذریعہ امانت داروں کے ہمارے پاس پہنچی ہے ۔ان کے علاوہ اور بھی بہت لوگ ہیں ۔ظاہر ہے کہ یہ صدی بھی جماعت کی رونق ‘تبلیغ ‘دعوت اور تحریک سے معروف ومعمور رہی۔۔۔۔۔
پانچویں صدی میں بے شمار اہلحدیث گزرے ہیں ۔امام ابو عثمان الصابونی المتوفی 449ھ جن کی کتاب عقیدہ السلف اصحاب الحدیث مشہور ہے ۔جس میں اہلحدیث کا تعارف اور اس جماعت کی تحریک کا زور و شور بیان کیا ہے ۔
امام ابو عبد اللہ محمد بن علی الصوری المتوفی 441ھ جن کا اہلحدیث کی شان میں اور ان کی طرف سے مدافعت میں مشہور قصیدہ ہے ۔امام حافظ ابو نعیم الاصفہانی المتوفی 430 ھ‘ امام ابو القاسم اللالکائی المتوفی 418ھ جن کی کتاب ”کتاب السنة “اہلحدیث کے عقائد کے سلسلے میں مشہور ہے ۔امام الحرمین ابو المعالی الجوینی المتوفی 486ھ جن کی تصنیف کی ہوئی کتاب الانتظار لاہل الحدیث ہے جس میں اہلحدیث پر اہل الرائے کے اعتراضات کی تردید ہے ۔آپ فرماتے ہیں کہ اہلحدیث ایک دوسرے سے عقائد اور دین سیکھتے ہیں اور یہ سلسلہ رسول اللہ ﷺ تک پہنچتا ہے ۔یہی طریقہ دین کے سمجھنے کا ہے اور اہلحدیث نے یہی طریقہ اختیار کیا ہے ۔(تاریخ اہلحدیث )
چھٹی صدی میں ہر طر ف جماعت کے وجود کا ثبوت ملتا ہے۔امام امیر ابن ماکولا المتوفی516 ھ ‘قاضی ابوبکر ابن العزلی المتوفی 453ھ‘امام الحفاظ ابوطاہر سلفی المتوفی576 ھ امام محدث قاضی عیاض الیحصبی المتوفی 544ھ ‘امام حافظ بن عساکر الدمشقی المتوفی 571ھ‘سید شیخ عبد القادر جیلانی المتوفی 561ھ جنہوں نے اپنی کتاب غنیة الطالبین میں تصریح کی ہے ۔فرقوں میں نجات یافتہ فرقہ صرف اہلحدیث ہے ۔
یہی حال ساتویں صدی کا ہے مثلاً مجدد الدین ابن تیمیہ المتوفی622 ھ‘شیخ الاسلام کے دادا حافظ عبد العظیم المنذری المتوفی656 ھ‘شیخ جمال الدین ابن الصابونی المتوفی661 ھ‘حافظ ابوبکر ابن نقطہ المتوفی629 ھ‘حافظ ابو عبد اللہ ابن الدیبشی المتوفی 639ھ‘مورخ شہاب الدین یا قوت الرومی الحمری المتوفی662 ھ‘امام ابو السعادت مبارک ابن الاثیر الجزری المتوفی606 ھ‘وغیرہم
آٹھویں صدی میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ المتوفی728 ھ‘حافظ ابو الحجاج ضری المتوفی 742ھ‘حافظ ابن دقیق العید المتوفی702 ھ‘ حافظ ابن صلاح الدین صنعدی المتوفی764 ھ‘علامہ تاج الدین سبکی المتوفی771 ھ‘علامہ فخرالدین الزراوی الہندی المتوفی778 ھ کا صاف کہنا ہے کہ آیت فاسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون (النحل )میں مطلق سوال کا ذکر ہے اسلئے کسی خاص شخص کا مذہب اختیار کرنا بدعت ہے اسی طرح تقلید حدیث کے آگے رکاوٹ بنتی ہے ۔(نزھة الخواطر )وغیرہم ۔
نویں صدی میں امام الفضل عدامتی المتوفی806 ھ‘حافظ نور الدین الھیثمی المتوفی807 ھ‘علامہ مجدد الدین الفیروز آبادی المتوفی827 ‘حافظ ابن حجر العسقلانی المتوفی852 ھ‘حافظ تقی الدین الفاسی المتوفی 832ھ‘حافظ بدر الدین العینی الحنفی المتوفی855 ھ‘وغیرہم ۔
دسویں صدی میں سلطان محمود بن محمد الگجراتی المتوفی945 ھ جن کے پاس اہل حدیث کا عام آنا جانا تھا ۔اس لئے اس علاقے میں حدیث کا رواج عام ہا حتی کہ اس علاقے کو یمن کے علاقے سے مشابہت دی جاتی تھی ۔(نزہة الخواطر )
گیارہویں صدی میں نجم الدین ابن غزی المتوفی 1061ھ‘تاج الدین ابن اسماعیل الگجراتی المتوفی 1007ھ جومکمل صحاح ستہ کے حافظ تھے (نزہة الخواطر )
قاضی نصیر الدین البرہانوی المتوفی 1031ھ جو قیاس قول اور رائے پر حدیث کو ترجیح دیتے تھے ۔(نزہة الخواطر )
بارہویں صدی میں شیخ محمد فاخر الہ آبادی المتوفی 1164ھ جنہوں نے رفع الیدین کی شان میں منظوم رسالہ لکھا اور شان اہلحدیث پر بھی ایک منظوم رسالہ لکھا (نزہة الخواطر )
دوم محمد معین ٹھٹوی المتوفی 1174ھ‘محدث امیر یمانی صنعانی المتوفی1182 ھ‘امام الہند شاہ ولی اللہ المتوفی1176 ھ‘علامہ ابو الحسن سندھی المتوفی 1136ھ جن کے صحاح سہ اور مسند احمد پر حاشے مشہور ہیں ۔علامہ محمد حیات سندھی المتوفی1136 ھ جن کا رسالہ تحفہ الانام فی العمل النبی ﷺ ہے ۔جس میں تقلید کا رد کیا گیا ہے اور مسلک اہلحدیث ثابت کیا ہے ۔(وغیر ہم )
تیرھویں صدی میں امام محدیث محمد بن علی الشوکانی الصنعانی المتوفی1250 ھ‘شاہ عبد العزیز محدث دہلوی المتوفی 1229ھ‘امام مجاہد شاہ اسمٰعیل شہید المتوفی 1246ھ‘علامہ خرم علی بلہوری المتوفی1271 ھ‘علامہ محمد حامدسندھی المتوفی1257 ھ‘امام الدعوة شیخ محمد بن عبد الوہاب نجدی المتوفی 1206ھ جن کے نام سے آج تک انگرز ڈرتے رہے ہیں ۔ان کے پوتے علامہ عبد الرحمن بن حسن المتوفی 1285ھ‘علامہ احمد طحطاوی حنفی المتوفی1231 ھ‘قاضی ثناءاللہ پاتی المتوفی1225 ھ‘علامہ حیدر علی طوکی المتوفی 1273ھ جنہوں نے رفع الیدین کے ثبوت میں ایک مستقل رسالہ لکھا ۔(نزہة الخواطر )
علامہ عبد العزیز پڑھیاروی ملتانی جن کی کتاب کوثر النبی ﷺ مشہور ہے ۔اس میں لکھتے ہیں وہ علماءجو انبیائے کرام کے وارث ہیں ۔وہ صرف اہلحدیث ہیں اور امام احمد سے ثابت کرتے ہیں کہ جس جماعت کے ہمیشہ حق پر ہونے کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے جو پیشین گوئی فرمائی ‘وہ اہلحدیث ہیں وغیرہم ۔
چودھویں صدی میں لاتعداد اللہ کے بندے گزرے ہیں ۔شیخ الکل میاں سید نذیر حسین دہلوی المتوفی1320 ھ جنہوں نے پچاس برس سے زیادہ ایک جگہ پر بیٹھ کر حدیث کا درس دیا ۔دنیا میں علم حدیث والے زیادہ تر ان کے شاگرد یا ان کے شاگردوں کے شاگرد ہیں ۔آپ کی کتاب معیار الحق مسلک کو ظاہر کرنے کیلئے کافی ہے ۔نواب صدیق حسن خان المتوفی 1307امجد ابو تراب رشد اللہ شاہ راشدی المتوفی 1340ھ جن کے رسالے اہلحدیث مذہب کے تعارف کے لئے مشہور ہیں ۔امام المفسرین الاستاذ ابو الوفا ثناءاللہ امرتسری المتوفی1377 ھ جن کی خدمات کو دنیا کے اہلحدیث ہمیشہ یاد کرتے رہتے ہیں ۔آپ کا ہفت روزہ اخبار اہلحدیث برسہا برس دنیا میں اپنے نام کے ساتھ چمکتا رہا ۔نواب وحید الزمان المتوفی1328 ھ محدث وقت علامہ حافظ عبد اللہ روپڑی المتوفی1384 ھ جن کا اخبار تنظیم اہلحدیث دعوت دین دیتا رہا ۔علامہ السیف القاطع محمد جونا گڑھی المتوفی1360 ھ جن کے محمدی نام سے بے شمار رسالے مشہور ہیں اور کئی برس تک آپ کا اخبار محمدی کام کرتا رہا ۔شیخ المشائخ محدث علامہ محمد بشیر سہسوانی المتوفی1306 ھ علامہ الزمان مولانا ابو القاسم سیف بنارسی المتوفی1361 ھ فخر المحدثین علامہ ابو العلی عبد الرحمن مبارکپوری المتوفی1353 ھ مناظر لاجواب شیخ عبد الرحیم رحیم آبادی المتوفی1320 ھ ‘علامہ اہل اللہ شیخ سراج الدین مدھو پوری المتوفی1380 ھ شیخ علامہ خلیل ہراس المتوفی 1392ھ علامہ سید رشید رضا مصری المتوفی 1353ھ مناظر اسلام احمد دین گکھڑوی ‘علامہ ابو المعالی محمود شکری آلوسی علامہ ابو سعید شرف الدین الدھلوی المتوفی 1381ھ علامہ شیخ عبد الستار دہلوی المتوفی1386 ھ امام الہند ابو الکلام آزاد المتوفی1377 ھ علامہ بدیع الزمان لکھنﺅی المتوفی1304 ھ مولانا انور شاہ کشمیری المتوفی1352 ھ علامہ عبد الحی بن فخر الدین اور دوسرے بھی بہت سے عالم اسی صدی میں گزرے ۔مثلاً علامہ عبدالتواب ملتانی ‘علامہ عبد الحق ملتانی ‘علامہ عبد الحق بہاولپوری ‘علامہ محمد اسمٰعیل سلفی ‘علامہ محمد داﺅد غزنوی ‘علامہ خان مہدی زماں ‘علامہ رشید احمد گنگوہی ‘محدث علامہ محمد حسین بٹالوی ‘قاضی محمد سلیمان منصوری ‘علامہ محمد ابراہیم میر سیالکوٹی وغیر ہم جن احصاءاور شمار ممکن نہیں ۔
اسی طرح موجودہ پندرھویں صدی ہمارے سامنے ہے جن میں بعض تو وفات پاچکے ہیں ۔مثلاً حافظ فتح محمد جہلمی مہاجر مکی ‘حافظ محمد محدث گوندلوی ‘مولانا محمد عمر ڈیپلائی شارح مشکوٰ ة سندھی‘ شیخ عبد اللہ بن حمید نجدی ‘مولانا محمد صادق سیالکوٹی ‘علامہ احسان الہٰی ظہیر شہیدؒ‘مولانا عبالخالق قدوسی شہید ؒ‘مولانا حبیب الرحمن یزدانی شہید ؒوغیرہم ۔ان کے علاوہ جو زندہ ہیں اور کام کر رہے ہیں ۔وہ لاتعداد ہیں ۔دنیا کے ہر ملک میں جماعت اہلحدیث موجود ہیں۔الحمد للہ۔۔۔
اس طرح رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئی درست ثابت ہوئی کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت تک امیری امت میں ایک جماعت حق پر قائم رہے گی ۔کسی کی بھی مخالفت یا دشمنی اس کو نقصان نہیں پہنچا سکتی ۔بحمد للہ !یہ جماعت تا ابد الاباد زندہ اور متحرک رہے گی (ان شاءاللہ تعالیٰ)
[/c]