کعبہ شریف میں چارمصلوں کی بدعت
مولانا محمد یوسف جے پوری ـرحمہ اللہ ـ
ہرمذہب کا یہ دعوٰی ہے کہ وہ فرقہ ناجیہ خالص اسلام کا اہل سنت و والجماعت کا گروہ ہے اور بیشک یہ گروہ اس قول میں حق بجانب ہے لیکن افسوس صد افسوس کہ اس تقلید ناسدید نے ان میں سے بھی اکثر کو ایک سیدھی شاہراہ محمدی سے چار مختف طریقوں میں متفرق کرکے باہمی مغائرت و منافرت پیدا کردی تھی ایسی کہ خانہ کعبہ میں قدیم سے صرف ایک مصلی ابراہیمی تھا جو وحدت اسلام اور واحد پرستی کا نشان تھا ـ
مذاہب اربعہ کی تقلید کے بعد رفتہ رفتہ ان کے مقلدین بھی بڑھ گئے اور سلاطین کا میلان بھی تقلید کی طرف ہو گیا ـ ہر ایک بادشادہ اپنے ہم مذہب کوقاضی مقرر کرتا ، ہر ایک فرقہ اپنے مذہب کو فروغ اور دوسرے مذہب کو زیر کرنے کی تدبریں اور کوشش کرتا ـ اور ایک دوسرے پر حمہ آور ہوتا ، کبھی کوئی غالب ہو جاتا تو کوئی مغلوب ـ یوں ہی قضیئے ، جھگڑے ہوتے رہے ـ بالآخر الظاہیرالدین بیبرس کے زمانے میں 665 ھ میں چار مذہبوں کے قاضی مقرر ہوئے ـ چنانچہ '' خبئته الاکوان فی الافتراق الامم علی المذاهب والادیان '' مطبوعه مصر ص 234 میں ہے کہ :-جب حکومت سلطان ظاہر بیبرس بند قداری کا دور ہوا تو مصر و قاہرہ میں چار قاضی چاروں مذہبوں کے مقررہوئے ـ شافعی ، مالکی ، حنفی، حنبلی رحمہ اللہ ـ پھر یہی طریقہ 665 سے جاری ہو گیا ـ یہاں کہ تمام اسلامی ممالک میں ان کے علاوہ کوئی مذہب نہیں پہچانا جاتا ـ''
اب سے گویا سرکاری طور پر چاروں مذہب تسلیم کرلئے گئے ـ آخر سلطان فرح بن برقوق نے جواشرملوک چراکسہ کہا جاتا تھا ـ اول نویں صدی میں کعبہ شریف کے اندر علاوہ مصلے ابراہیمی کے چار مصلے اور قائم کردئیے ـ ایک دین جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے چلا آرہا تھا اس کے چار ٹکڑے ہوئے گئے ـ انا للہ وانا الیہ راجعون ، کسی عارفِ صادق نے اس موقع پر کیا ہی موزوں کہا ہے
دین حق را چار مذہب ساختند
رخنہ در دین نبی اندا ختند
وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّـهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ''اللہ تعالیٰ کی رسی کو سب مل کر مضبوط تھام لو اور پھوٹ نہ ڈالو،'' کا خوب حق اداکیا ـ کعبہ کا منظر کچھ اس طرح تھا کہ ایک مصلے پر نماز ہوتی تو تینوں مصلے والے بیٹھے ہوئے دیکھا کرتے تھے اور اسی طرح یکے بعد دیگرے چاروں مصلوں پر نماز ہوتی تھی اور حکم پر توجہ نہیں ہوتی تھی ـ بلکہ اب ان چار مصلوں کو داخل دین سمجھا جاتا تھا نہ مصلے ابراہیمی کو ـ الی اللہ المشتکی
چاروں مصلے کا بدعت ہونا – ارشاد السائل الی دلیل المسائل صفحه101 میں امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :-
'' کعبہ میں چار مصلے بدعت ہیں تمام مسلمانوں کے اجماع سے اوائل صدی میں بدترین بادشاہ چراکسہ نے اس بدعت کو جاری کیاـ جس کا نام فرح بن برقوق تھا ـ اس زمانے کے اہل علم نے اس پر انکار کیاـ''
تفسیر عزیزی میں ہے از شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ـ (تحت آیت (البقرہ 73)
وَمَا اللَّـهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ ﴿٧٤﴾'' اللہ تعالٰی بے خبر نہیں ہے کہ جو کچھ کہ یہ زمانہ آئندہ میں عمل کریں گئے ـ اطراف کعبہ میں بدعت کی وجہ سے ایک ایک طرف کو تقسیم کر لیں گئے اور جس طرف کو اختیار کریں گئے اس کی تفصیل و ترجیح کے لئے دلیلیں لائیں گئے ـ مثلا حنفیہ جہت جنوب کو اختیار کریں گئے اور ان کا امام کعبہ سے جانب شمال کھڑا ہو گا ـ اور فخر کے طور پر کہیں گئے کہ ہمارا قبلہ قبلہ ابراہیمی ہے ـ اس واسطے کہ جناب ابراہیم میزاب کی طرف منہ کیا کرتے تھے اور شافعیہ غربی سمت کو اختیار کریں گئے اور ان کا امام کعبہ سے شرق کی طرف کو کھڑا ہو گا ـ اور ٖفخر کے طور پر کہیں گئے کہ ہم باب کا استقبال کرتے ہیں ، ہمارا قبلہ قبلہء منصوصہ ہے ـ وَاتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى ۖ اور اسی قیاس پر مختلف شہروں کے لوگ اپنی اپنی اختیار کی ہوئی جہات کی ترجیح میں اسی قسم کے نکتے پیدا کر لیں گئے ـ لیکن یہ تمام شاعرانہ نکتے ہیں ـ اوردین کے نزدیک قابل التفات نہیں ـ اللہ پاک کا حکم تو صرف اتنا ہی ہے کہ کعبہ کی طرف لازمی طور پر منہ کرو ـ اور اس کو سفر اور حضر اور ایک شہر سے دوسرے شہر کو جاتے ہوئے ہو ئے نہ چھوڑو ـ''
مولانا رشید احمد گنگوہی تحریر فرماتے ہیں :-
'' البتہ چار مصلے جو کہ مکہ معظمہ میں مقررکیے ہیں لاریب یہ امر زبون ہے کہ تکرار جماعات و افتراق اس سے لازم آ گیا ـ کہ ایک جماعت کے ہونے میں دوسرے مذہب کی جماعت بیٹھی رہتی ہے ـ اور ایک شریک جماعت نہیں ہوتی ـ اور مرتکب حرمت ہوتے ہیں ـ مگر یہ تفرقہ آئمہ دین حضرات مجتہدین سے نہ علماء متقدمین سے ـ بلکہ کسی وقت میں سلطنت میں کسی وجہ سے یہ امر حادث ہوا ہے کہ اس کو کوئی اہل علم اہل حق پسند نہیں کرتا پس یہ طعن نہ علماء اہل حق مذہب اربعہ پر ہے بلکہ سلاطین پر ہے کہ مرتکب اس بدعت ہوئے ـ
ارشاد السائل الی دلیل المسائل صفحه102