سوموار
2024-05-20
0:40 AM
Welcome مہمان
RSS
 
Read! the name of lord پڑھ اپنے رب کے نام سے
Home Sign Up Log In
حضرت آدم علیہ السلام - آپ اس وقت فورم پر تشریف فرما ہیں »
[ Updated threads · New messages · Members · Forum rules · Search · RSS ]
  • Page 1 of 1
  • 1
آپ اس وقت فورم پر تشریف فرما ہیں » کیٹگری فورم » اسلام » حضرت آدم علیہ السلام (حضرت آدم علیہ السلام)
حضرت آدم علیہ السلام
lovelessDate: بدھ, 2011-09-14, 7:37 AM | Message # 1
Colonel
Group: ایڈ منسٹریٹر
Messages: 184
Status: آف لائن
آدم علیہ الصلاۃ والسلام اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ نبی تھے۔(ابن حبان)
جب اللہ تعالیٰ نے انہیں پیدا کرنا چاہا تو فرشتوں اور ابلیس سے کہا: میں کھنکھناتے ہوئے سیاہ اور سڑے ہوئے گارے سے ایک انسان بنانے والا ہوں۔ جب میں اسے ٹھیک طرح سے بنا کر مناسب شکل دے دوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدے میں گر پڑنا۔ (الحجر: ۲۹۔۲۸۔و اعراف: ۱۲۔۱۱)
الغرض اللہ نے پوری زمین سے ایک مٹھی مٹی لی یہی وجہ ہے کہ آدم علیہ السلام کی اولاد میں کوئی گورا ہے، کوئی کالا ہے، کوئی سانوالا ہے، کوئی نرم ہے ، کوئی سخت ہے،، کوئی ناپاک ہے اور کوئی پاک ہے۔ (ترمذی، ابو داؤد)
پھر اللہ تعالیٰ نے اس مٹی کے خلاصے سے گارا تیار کیا۔ (مؤمنون:۱۲)
جب گارا سیاہ اور بدبودار ہوگیا اور اس سے کھن کھن کی آواز آنے لگی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے آدم علیہ السلام کا پتلا بنایا۔ (ص:۷۵۔حجر: ۲۸)

پھر اللہ نے پتلے کو کچھ عرسہ کے لئے ویسے ہی چھوڑ دیا جب ابلیس نے اسے دیکھا تو اس کے گرد چکر لگانے لگا اور اس کو بغور دیکھتا رہا۔ اس نے دیکھا کہ پتلا اندر سے خالی ہے تو وہ سمجھ گیا کہ آدم اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکیں گے۔ (مسلم)

پھر اللہ تعالیٰ نے جمعہ کے دن عصر کے بعد اس پتلے کو زندہ انسان بن جانے کا حکم دیا۔ حکم سنتے ہی وہ پتلا زندہ انسان بن گیا۔ (آل عمران: ۵۹۔ اور صحیح مسلم)
جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور ان کے جسم میں روح پھونکی تو انہیں چھینک آئی انہوں نے اللہ کے حکم سے الحمدللہ کہا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یرحمک اللہ۔اللہ تم پر رحم کرے۔ (ابن حبان)
پھر اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا جاؤان فرشتوں کو سلام کرو اور سنو وہ کیا کہتے ہیں جو کچھ وہ کہیں وہی تمہارا اور تمہاری ذریت کا سلام ہوگا۔ آدم علیہ السلام ان کے پاس گئے اور ان سے کہا: "السلام علیکم "فرشتوں نے جواب دیا "وعلیک السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ" (بخاری)

جب اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا تو تمام فرشتے اللہ کے حکم کے مطابق آدم کے سامنے سجدہ میں گر پڑے لیکن ابلیس نے تکبر کیا اور سجدہ کرنے سے صاف انکار کر دیا اور کہنے لگا میں اس سے بہتر ہوں مجھے تو نے آگ سے پیدا کیا اور آدم کو مٹی سے پیدا کیا۔ (اعراف:۱۱۔۱۲)

ابلیس کی حقیقت
ابلیس جنات میں سے ہے اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے(الا ابلیس کان من الجن)مگر ابلیس جنات میں سے تھا۔ ( کھف: ۵۰)
دوسری بات یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ابلیس آگ سے پیدا ہوا اور فرشتے نور سے پیدا ہوئے۔ (مسلم)
تیسری بات یہ ہے کہ ابلیس کی اولاد ہے(افتتخذونہ وذریتہ اولیاء من دونی) (کھف: ۵۰)
جبکہ فرشتوں میں تناسل کا سلسلہ نہیں ہے۔

اسی طرح ابلیس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی۔ تکبر کیا، جب کہ ملائکہ اللہ تعالیٰ کے ایسے مکرم بندہ ہیں کہ اللہ کے احکام کی نافرمانی نہیں کرتے ۔
اگر یہ کہا جائے کہ شیطان جب فرشتوں میں نہیں تو اسے سجدہ کرنے کا حکم کیوں دیا گیا؟ جواب یہ ہے:
کہ اسے اپنے علم، اجتھاد اور عبادت کی وجہ سے آسمان میں ایک بلند مقام حاصل تھا۔
پھر اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی پیٹھ پر مسح کیا مسح کرتے ہی ہر روح جو ان کی اولاد میں قیامت تک پیدا ہونے والی تھی نکل پڑی۔ پھر ان روحوں کو آدم کے سامنے پیش کیا آدم علیہ السلام نے کہا : اے میرے رب! یہ کون لوگ ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ تمہاری اولاد ہے ۔ آدم علیہ السلام نے ان میں سے ایک شخص کو دیکھا ان کو اس کی آنکھوں کے درمیان جو نور تھا وہ بہت پسند آیا کہنے لگے اے میرے رب! یہ کون ہے؟
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یہ تمہاری اولاد کی آخری جماعتوں میں ایک شخص ہے۔ جس کا نام داؤد ہے۔ آدم نے پوچھا: اے میرے رب! تو نے اس کی عمر کتنی رکھی ہے؟ اللہ نے فرمایا:۶۰ سال آدم نے عرض کیا اے میرے رب میری عمر سے اس کی عمر میں ۴۰سال بڑھا دے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ایسا کر دیا اور اس پر گواہ بھی ٹھہرا دیا۔

پھر جب آدم کی عمر مکمل ہو گئی تو اللہ نے ان کی طرف ملک الموت کو بھیجا تو آدم نے کہا کیا میرے عمر سے ابھی چالیس سال باقی نہیں ہیں؟ملک الموت نے کہا: کیا آپ نے یہ چالیس سال اپنے بیٹے داؤد علیہ السلام کو ہبہ نہیں کیے تھے۔ آدم علیہ السلام نے انکار کر دیا لہٰذا ٓپ کی اولاد بھی انکاری ہے اور آدم بھول گئے لہٰذا آپ کی اولاد بھی نسیان کا شکار ہوگئی۔ (ترمذی، نسائی، ابن حبان، حاکم)

اسی طرح اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی پشت سے نکلنے والی اولاد سے میدان عرفات میں عہد لیا۔
اللہ تعالیٰ نے جتنی مخلوق پیدا کرنی تھی ان کو آدم کے آگے چیونٹیوں کی طرح پھیلا دیا پھر ان سے بالمشافہ گفتگو فرمائی(الست برکم قالوابلی۔۔۔۔۔) (اعراف: ۱۷۲۔۱۷۳)
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آدم کی پسلی سے ان کی بیوی کو پیدا کیا تاکہ آدم ان سے سکون حاصل کریں۔ (اعراف: ۱۸۹:بخاری)
پھر اللہ نے انہیں جنت میں رہنے کا حکم دیا۔ (اعراف: ۱۹)
آدم جمعہ کے دن جنت میں داخل ہوئے۔ (بخاری)
اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام سے فرمایا تم اپنی بیوی کے ساتھ اس جنت میں رہو اور جہاں سے چاہو خوب کھاؤ پیو لیکن اس درخت کے قریب بھی نہ جانا ورنہ تم نقصان اٹھاؤگے۔ اور یہ ابلیس تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے۔ اس سے ہوشیار رہنا کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ تمہیں جنت سے نکلوا دے۔الغرض یہاں تم بڑے عیش و آرام سے رہو گے۔ (بقرہ: ۳۵۔طہ:۱۷۔۱۸۔۱۹)

آدم اور ان کی زوجہ جنت میں بڑے آرام سے رہ رہے تھے لیکن ابلیس ان کے پیچھے لگا ہوا تھا اس نے آدم سے کہا اے آدم ! میں تمہیں ایسا درخت نہ بتاؤں کہ جس کو کھا کر تم کو ایسی سلطنت مل جائے جس میں کبھی ضعف نہ آنے پائے۔ (طہ:۱۲۰)
اور ایک دن ان سے کہنے لگا تمہارے رب نے جو تمہیں اس درخت سے منع کیا ہے صرف اس لئے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ اور ہمیشہ زندہ رہو اور پھر قسم کھا کر کہا میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں۔ (اعراف: ۲۰۔۲۱)
الغرض اللہ تعالیٰ نے جو عہد آدم علیہ السلام سے لیا تھا آدم اسے بھول گئے اور ابلیس نے بالآخر ان کو ورغلا ہی دیا۔ (طہ:۱۱۵۔اعراف:۲۲)
آدم علیہ السلام کی زوجہ مطہرۃ سیدہ حواہ نے پہلے درخت سے کھایا اور آدم علیہ السلام کو ترغیب دی۔بالآخر دونوں نے درخت سے کھا لیا۔

اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر حواہ نہ ہوتی تو کوئی عورت اپنے خاوند کے ساتھ خیانت نہ کرتی۔ (بخاری، مسلم)
درخت سے کھانا ہی تھا کہ ان کی شرم گاہیں ایک دوسرے کے سامنے ظاہر ہوگئیں۔ یہ دیکھ کر انہوں نے جنت کے پتے اپنے اوپر چپکانے شروع کر دیئے۔
اللہ تعالیٰ نے انہیں پکار کر فرمایا کیا میں نے تم دونوں کو اس درخت کے کھانے سے منع نہیں کیا تھا۔ اور میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ شیطان تم دونوں کا کھلا دشمن ہے اس سے ہوشیار رہنا۔ (اعراف: ۲۲)
اللہ تعالیٰ نے آدم کو طویل القامت پیدا کیا تھا سر میں بال گھنے تھے۔ جب انہوں نے اس درخت سے کھا لیا تو ان کا لباس علیحدہ ہوگیا۔ ان کا ستر نظر آنے لگا وہ بھاگے تو ایک درخت نے ان کے بال پکڑ لئے وہ اس سے جھگڑنے لگے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم ! مجھ سے بھاگتے ہو۔ آدم نے عرض کیا: تجھ سے شرم آتی ہے۔ اس نافرمانی کی وجہ سے۔ (حاکم ،ابن سعد)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم یہاں سے اتر کر نیچے چلے جاؤ اب تمہیں کچھ عرصے کے لئے زمین پر رہنا ہے اور وہیں فائدہ اٹھانا ہے۔ (بقرۃ: ۳۶)
پھر اللہ تعالیٰ نے جمعہ ہی کے دن انہیں زمین پر اترنے کا حکم دیا اور اسی دن وہ زمین پر اتار دئے گئے۔ (نسائی، ابو داؤد، ابن حبان)

مسائل
(۱) اللہ تعالیٰ نے اس درخت کا تعین نہیں کیا جس سے آدم کو منع کیا گیا تھا، اور تعین میں ہمارے لئے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اگر ہوتا تو اللہ تعالیٰ ہمارے لئے ضرور بیان فرما دیتا۔
اور قرآن کی تفسیر کرنے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ قرآن کے مبھم مقامات کا تعین اس وقت تک نہ کرے جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح صریح حدیث نہ مل جائے۔
(۲) آدم علیہ السلام کتنی مدت جنت میں رہے اور ان کی اولاد جنت میں ہوئی یا نہیں ان کے متعلق صحیح معلومات ثابت نہیں ہیں۔
(۳) آدم علیہ السلام کی اولادمیں شادی طریقہ۔
تاریخ میں نقل ہے کہ حواء کے ہاں ہر حمل سے ایک لڑکا اور ایک لڑکی پیدا ہوتے تھے۔ ایک حمل سے پیدا ہونے والا لڑکا دوسرے حمل سے پیدا ہونے والی لڑکی سے شادی کرتا تھا۔
(۴) اس جنت کی حقیقت جس میں آدم علیہ السلام اور ان کی بیوی تھے اس جنت سے مراد وہ جنت ہے جو آسمان میں ہے۔
حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن جب لوگ جنت کے قریب ہو جائیں گے تو آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے کہیں گے : اے ہمارے باپ! ہمارے لئے جنت کو کھلوا دو، تو آدم علیہ السلام کہیں گے تم کو اس جنت سے صرف تمہارے باپ کی غلطی نے نکالا تھا۔(مسلم)

آدم علیہ السلام کی توبہ
آدم علیہ السلام اپنی زوجہ کے ساتھ زمین پر آگئے ۔اللہ تعالیٰ نے ان کو مندرجہ ذیل دعائیہ کلمات سکھائے:"ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفرلنا وترحمنا لنکونن من الخاسرین"۔ (اعراف: ۲۳)
ان دونوں نے ان دعائیہ کلمات کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی اللہ تعالیٰ نے جمعہ کے روز ان کی توبہ قبول فرمائی۔ (بقرۃ:۲۷، اعراف:۲۳، النسائی)
جب آدم علیہ السلام زمین پر رہنے لگے تو پھر اللہ نے ان کے لئے عمدہ لباس کا انتظام فرمایا۔ (اعراف :۲۶)
اور اللہ تعالیٰ نے ان کی اولاد کو عزت و کرامت سے سر فراز فرمایا۔ بحرو بر میں ان کی نقل و حرکت کے لئے سواریاں مہیا کیں اور ان کے لئے پاکیزہ کھانوں کا انتظام فرمایا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر برتری عطا فرمائی۔ (اسراء:۷)

آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کا واقعہ
آدم علیہ السلام کی اولاد بہت ہوئی ان میں سے دو نے ایک مرتبہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی پیش کی اللہ نے ایک کی قربانی قبول فرمائی دوسرے کی نہیں، جس کی قربانی قبول نہیں ہوئی اپنے بھائی سے کہنے لگا میں تجھے ضرور قتل کروں گا۔
بھائی نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ تو متقی لوگوں کی قربانی قبول فرماتا ہے ،تم میں تقویٰ نہیں ہے۔ اس لئے تمہاری قربانی قبول نہیں ہوئی اس میں میرا کیا قصور ہے۔بالآخر اس نے اپنے بھائی کو قتل کیا، قتل کرنے کے بعد سمجھ نہیں آیا کہ اپنے مقتول بھائی کی لاش کا کیا کرے، اللہ تعالیٰ نے ایک کوا بھیجا جو زمین پر اتر کر زمین کو کریدنے لگا قاتل بھائی نے کوے سے سیکھا کہ کس طرح اپنے بھائی کی لاش کو چھپائے۔ پھر اپنے اس فعل پر بہت نادم ہوا اور افسوس کیا۔ (مائدہ: ۲۸تا ۳۱)
قاتل کا نام قابیل تھا۔
مقتول کا نام ہابیل تھا۔
قابیل پہلا شخص ہےجس نے بنی آدم میں قتل کو جار ی کیا۔ (بخاری)
آدم علیہ السلام بہت روئے اس قتل پر اور افسوس کیا۔

آدم علیہ السلام کی وفات
آدم علیہ السلام کی عمر اللہ تعالیٰ نے ہزار سال رکھی تھی۔ آدم نے چالیس سال اپنی عمر میں سے داؤد علیہ السلام کو ہبہ کیےتھے۔
جب آدم علیہ السلام کی عمر پوری ہو گئی تو ملک الموت ان کے پاس آیا آدم علیہ السلام نے کہا کیا میری عمر کے ابھی چالیس سال باقی نہیں ہیں؟ ملک الموت نے کہاآپ نے چالیس سال اپنے بیٹے داؤد کو نہیں دئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آدم نے انکار کیا ان کی اولاد بھی انکار کرتی ہے وہ بھول گئے ان کی اولاد بھی بھولتی ہے۔(ترمذی)
بہر حال اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی عمر ایک ہزار سال کر دی اور داؤد علیہ السلام کی عمر ۱۰۰ سال کر دی۔ (ابو داؤد)
ہابیل کے مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السللام کو ایک بیٹا دیا انہوں نے ان کا نام شیث علیہ السلام رکھا۔
اور اپنی وفات سے پہلے شیث علیہ السلام کو وصیت کی۔ جب فرشتوں نے آدم علیہ السلام کی روح قبض کر لی۔ فرشتے اپنے ساتھ کفن اور خوشبو لے کر آئے تھے۔ پھر فرشتوں نے انہیں غسل دیا، کفن پہنایا، اور نماز جنازہ پڑھی، قبر کھودی اور لحد میں دفن کیا۔پھر کہا اے بنی آدم یہ ہے تکفین و تدفین وغیرہ کا طریقہ۔ (حاکم ،طبرانی کبیر)
آدم علیہ السلام کا انتقال جمعہ کے روز ہوا۔ (ابن خزیمہ)
دفن کی جگہ نا معلوم ہے۔
آدم علیہ السلام کے انتقال کے بعد سیدہ حواء کا انتقال ہوگیا۔
آدم علیہ السلام کا قد ساٹھ ہاتھ تھا۔ (بخاری)
آدم علیہ السلام کی نافرمانی
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: آدم علیہ السلام نے اپنے رب کی نافرمانی کی پس بہک گئے۔ (طہ: ۲۱)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ موسیٰ علیہ السلام نے آدم علیہ السلام سے بحث کی کہ آپ نے لوگوں کو اپنی غلطی ۔گناہ۔ کے سبب سے جنت سے نکلوایا اور انہیں بد بخت بنایا۔
آدم علیہ السلام نے فرمایا اے موسیٰ علیہ السلام !اللہ تعالیٰ نے آپ کو رسالت اور کلام کرنے کے لئے چنا اور آپ مجھے ایک ایسے معاملےمیں ملامت کر رہے ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ نے میری تخلیق سے قبل لکھ دیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آدم علیہ السلام دلیل کے ذریعہ موسیٰ علیہ السلام پر غالب آگئے۔ (بخاری ۔ مسلم)

حدیث شفاعت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :کہ لوگ محشر کے دن آدم علیہ السلام کے پاس آکر کہیں گے۔ اے آدم ! آپ ابو البشر ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے بنایا ہے اور آپ میں روح پھونکی اور فرشتوں کو آپ کے لئے سجدہ کرنے کا حکم دیا اور جنت کو آپ کا ٹھکانا بنایا کیا آپ اپنے رب کے پاس ہمارے سفارشی نہیں بنیں گے۔
آدم علیہ السلام ارشاد فرمائیں گے آج میرے رب کو اس قدر شدید غصہ آیا ہوا ہے کہ اتنا غصہ اس سے پہلے کبھی نہیں آیا اور نہ ہی بعد میں آئے گا۔اس نے مجھے درخت کے کھانے سے منع کیا تھا۔ میں نے نا فرمانی کی اس لئے میرے علاوہ نوح علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ، مجھے تو آج اپنی جان کی فکر ہے۔ (بخاری )


ہماری جنگ تو خود سے تھی،ڈھال کیا رکھتے
فقیر لوگ تھے ،مال و منال کیا رکھتے
 
آپ اس وقت فورم پر تشریف فرما ہیں » کیٹگری فورم » اسلام » حضرت آدم علیہ السلام (حضرت آدم علیہ السلام)
  • Page 1 of 1
  • 1
Search: