سائنسدانوں کی ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ بلند عرضِ بلد پر بسنے والے انسانوں کی آنکھیں اور دماغ زیادہ بڑا ہوتا ہے۔
تحقیق کے مطابق ایسے مقامات پر طویل موسم سرما اور بادلوں کی وجہ سے روشنی کم ہوتی ہے اور ان حالات سے نمٹنے کے لیے انسانی آنکھ اور دماغ کا حجم بڑا ہو جاتا ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کی یہ تحقیق رائل سوسائٹی جرنل بائیولوجی لیٹرز میں شائع ہوئی ہے۔
اس تحقیق میں سائنسدانوں نے دنیا کے مختلف حصوں میں قدیم انسانی آبادیوں سے حاصل ہونے والی چوّن کھوپٹریوں کا مشاہدہ کیا گیا۔
اٹھارہویں صدی کی یہ کھوپٹریاں آکسفورڈ اور کیمبرج کے عجائب گھروں سے حاصل کی گئی تھیں۔
اس تحقیق کے سربراہ ایلونڈ پرس نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہمیں انتہائی بلندی پر آنکھوں کے حجم اور دماغ کی صلاحیت کے درمیان مثبت تعلق کے بارے میں علم ہوا ہے۔‘
ان میں شمالی یورپ یا سکینڈی نیویا سے لے کر آسٹریلیا، اور مائیکرونیشیا (بحر الکاہل میں پھیلے ہوئے جزیروں) سے شمالی امریکہ کی قدیم آبادیوں میں بسنے والے انسانوں کی کھوپڑیاں شامل تھیں۔
اس مشاہدے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ سکینڈی نیویا سے ملنے والی کھوپٹریوں میں دماغ کے حصے بڑے تھے جب کہ مائیکرونیشیا کی کھوپڑیوں میں دماغ کا حصہ چھوٹا تھا۔
تحقیق کے سربراہ کے مطابق ’اگر خط استواء سے مزید شمال یا جنوب کی جانب جائیں تو موسم سرما میں دن کا دورانیہ اور زمین پر پہنچی والی روشنی کم ہو جاتی ہے۔‘
ہمیں معلوم ہے کہ روشنی کم ہونے کی صورت میں انسانی کھوپڑی میں آنکھ کا خانہ اور آنکھ کا ڈھیلا بڑا ہونا شروع ہو گیا۔
اس کے علاوہ یہاں بسنے والے انسانوں کے دماغ بھی بڑے ہو جاتے ہیں اور دماغی صلاحتیوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
اس تحقیق کے مطابق’ہماری دلیل یہ ہے کہ بڑے دماغ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ زیادہ بلندی پر رہنے والے انسان زیادہ ہوشیار ہوتے ہیں بلکہ ان کو زیادہ بڑی آنکھوں اور بڑے دماغ کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ اچھی طرح دیکھ سکیں کہ وہ کہاں رہتے ہیں۔‘