تم نے دیکھی ہے وہ خوابوں کی راہگزر
جس کی منزل تھی اُجڑا ہوا نگر
سُر مئی شام تھی جس کے چاروں طرف
جس میں منظر جُدائی کے دے صف بہ صف
وصل کا سربکف
بن گیا کرچیاں مَن کا نازک صدف
تو نے دیکھی ہے خوابوں کی وہ راہگزر
سنگ ریزوں کی بارش ہوئی تھی جہاں
اور کومل سے جذبے ہدف بن گئے
پائمالی نے ان کو لہو کر دیا
با وُضو کر دیا۔۔۔ سُرخرو کر دیا
آج بھی جو مسافر گیا اس طرف
اس نے پایا نہیں واپسی کا نشاں
اُس کو ڈھونڈا فلک نے یہاں سے وہاں
تم نے دیکھی ہے خوابوں کی وہ راہگزر