دل و نگاہ پہ کس طور کے عذاب اُترے
وہ ماہتاب ہی اُترا،نہ اُس کے خواب اُترے
کہاں وہ رُت کہ جبینوں پہ آفتاب اُترے
زمانہ بیت گیا ان کی آب و تاب اُترے
میں اُس سے کُھل کے ملوں ،سوچ کا حجاب اُترے
وہ چاہتا ہے مری رُوح کا نقاب اُترے
اُداس شب میں ،کڑی دوپہر کے لمحوں میں
کوئی چراغ ، کوئی صُورتِ گلاب اُترے
کبھی کبھی ترے لہجے کی شبنمی ٹھنڈک
سماعتوں کے دریچوں پہ خواب خواب اُترے
فصیلِ شہرِ تمنا کی زرد بیلوں پر
تراجمال کبھی صُورت سحاب اُترے
تری ہنسی میں نئے موسموں کی خوشبو تھی
نوید ہو کہ بدن سے پُرانے خواب اُترے
سپردگی کا مجسم سوال بن کے کِھلوں
مثالِ قطرۂ شبنم ترا جواب اُترے
تری طرح ، مری آنکھیں بھی معتبر نہ رہیں
سفر سے قبل ہی رستوں میں وہ سراب اُترے